تحریر: صالحہ جنت
کشمیر پاکستان کی شہ رگ اور عالم اسلام کے جذبات کی حقیقی روح ہے۔ قیام
پاکستان سے اب تک ظلم و ستم اور سفاکیت کا ایک افسوسناک سلسلہ جاری ہے۔
کشمیر میں ہونے والے مظالم نہ مجھ سے دیکھے جاتے ہیں اور نہ ہی میں سن سکتی
ہوں، مگر اسکول کی جانب سے کشمیر سے یکجہتی کے حوالے سے ہونے والے پروگرام
میں مجھے تقریر کرنے کا کہا گیا۔ اپنے کہیے الفاظ ضبط تحریر کر رہی ہوں۔
کشمیر میں ہونے والے مظالم پر لکھنا اور بولنا ہر ذی شعور انسان بالخصوص ہر
پاکستانی کا فرض ہے۔
چمن کو اپنا۔۔۔۔۔ لہو پلایا۔۔۔۔۔۔ نمودِ برگ و ثمر سے پہلے
گلوں میں یہ رنگ و نور کب تھا۔۔۔ ہمارے خون جگر سے پہلے
گمانِ صیاد۔۔۔۔ درحقیقت۔۔۔۔ تھا مری۔۔۔ پرواز کا محرک
پروں کو دیتا ہوں اپنے حرکت۔۔۔ میں باغباں کی نظر سے پہلے
مرے لئے۔۔ آگ تھا گلستاں۔۔۔ مرے لئے۔۔رہ گذر تھا دریا
جنوں کی شاہی مجھے تھی حاصل۔۔۔۔ خیالِ نفع و ضرر سے پہلے
میرے آج کے الفاظ ہی درد بھرے نہیں بلکہ میرے جذبات اور میرے الفاظ کا
مفہوم بھی کشمیریوں پر ہونے والے ظلم و ستم کا اظہار کریں گے۔ ذرا نظر
دوڑایے کشمیر کے اس گھر کی طرف جہاں باپ اور بھائی کے شہید ہونے کے بعد
بیٹیاں اپنی ماں کے آنگن میں رہ رہی تھی اور دشمنوں کے غنڈے گھر میں گھسے
اور شہید باپ کی جواں بیٹی نے دشمن کے سامنے پاکستان زندہ باد کا نعرہ
لگایا اور بھاگ کر چھت پر چلی گئی دشمن چھت پر آیا وہ بھاگتی ہوئی دوسری
چھت پر گئی اور پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگایا۔
دشمن تو بے رحم تھا اس نے دوڑتے ہوئے اس معصوم کلی کو اپنے کانٹے دار
ہاتھوں میں دبوچا اور زندگی کے گلستان کا پھول توڑ کر نوجوان بچی کی لاش سے
گزرتا ہوا اسکی دوسری بہن کی طرف بڑھنے لگا۔ کیا یہ حقائق نہیں ہیں ؟کیا وہ
ہماری مائیں اور بہنیں نہیں ہیں ؟کیا امت مسلمہ کے جذبات بیدار نہیں ہیں
؟کیا وہاں انسانیت کی تذلیل اور تحقیر نہیں ہو رہی ؟
اگر میں آج حقائق کی بات کروں تو سچ یہ ہے کہ برطانیہ سامراج نے انیسویں
صدی کے وسط میں اپنے دور اقتدار میں وادی کشمیر چند ٹکوں کی خاطر ڈوگرہ کے
راجہ گلاب سنگھ کے ہاتھوں فروخت کر کے ایک صدی بعد قیام پاکستان کے وقت بھی
بیچارے کشمیریوں کو اپنی رائے کا حق دینے کے بجائے راجاؤں کے رحم و کرم پر
چھوڑ کر چل دیئے۔
آزادی پاکستان کے بعد کشمیر میں ظلم کی تحریک کا آغاز ہوا اور مسلسل بڑھتا
رہا 72 سالوں سے کشمیر میں یہ جنگ جاری ہے بلکہ اب کشمیریوں کی چوتھی نسل
آزادی کی جدوجہد میں مصروف عمل ہے۔
سب سے تلخ بات یہ ہے کہ نصف صدی سے وہ بھارت کا ظلم و ستم سہ کر پاکستان سے
محبت کا اظہار کر رہے ہیں اور ہم تب سے اب تک ان کے ساتھ ہیں۔
لاکھوں کشمیری شہادت کے مرتبے پر فائز ہوتے رہے ۔ ہم کشمیر کے ساتھ رہے
،ہزاروں خواتین بیوہ ہوتی رہیں ،ہم کشمیر کے ساتھ رہے ، نوجوان بچیوں کی
عصمت دری ہوتی رہی اور ،ہم کشمیر کے ساتھ رہے ،بچے سب یتیم ہوتے رہے اور ہم
کشمیر کے ساتھ رہے ،،چار نسلیں ظلم و ستم سہ چکی اور ہمساتھ رہے ۔ اب جبکہ
ظلم و بربریت کی بدترین تاریخ دہرائی جا رہی ہے ہم اب بھی کشمیر کے ساتھ
ہیں ۔
ان کی قومی و قانونی شناخت بھی چھین لی گئی ہے ۔ آج تقریباً تیسرا ماہ چل
رہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں کرفیو نافذ ہے، زندگی اجیرن بنا دی گئی ہے ۔’’
ظلم بچے جن رہا ہے ہر کوچہ و بازار میں اور اب عدل کو بھی صاحب اولاد ہونا
چاہیے‘‘۔
بھارت سے اچھے کی توقعات ہمارا وہم ہے ۔ پرامن طریقے اور تحمل مزاجی سے
ہمارے مؤقف کی پختگی ممکن نہیں۔ یہ بھی ہماری بھول ہے کہ بھیڑیا صفت دشمن
اپنے پنجے اور دانت استعمال نہیں کرے گا۔ اگر پاکستانی موقف کی تائید،
وضاحت اور بین الاقوامی سطح پر اجاگر کرنے کی بات کی جائے تو ’’مجھے سابقہ
ادوار میں شہید ملت محترمہ بے نظیر بھٹو کی1995 ء والی تاریخ ساز تقریر یاد
بھی ہے ‘‘۔ صدر پاکستان جنرل پرویز مشرف کے وہ الفاظ بھی تاریخ کا حصہ ہیں
جن میں جنرل پرویز مشرف نے بھارت جا کر پوری دنیا کے سامنے ان کا مکروہ
چہرہ اور سیاہ کردار دنیا کے سامنے پیش کیا۔ 2016 ء میں نواز شریف کی برہان
وانی والی تقریر بھی قابل داد ہے ۔ اور اب گزشتہ ماہ 27 ستمبر کو اقوام
متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاکستان کے وزیر اعظم محترم عمران خان نے جس لب و
لہجہ میں کشمیری موقف کو عالمی طاقتوں کے سامنے پیش کیا ہے قابل تحسین اور
اسلامی دنیا کے لیے فرحت و مسرت کا سبب بنا ہے ۔مگر میں ان سب کرداروں کو
تسلیم کرنے کے باوجود یہ کہنا چاہوں گی ہوں کہ
بے عمل ہو دل تو جذبات سے کیا ہوتا ہے
دھرتی بنجر ہو تو برسات سے کیا ہوتا ہے
عمل لازم ہے تکمیل تمنا کے لئے
ورنہ رنگین خیالات سے کیا ہوتا ہے
لیکن ہم مایوس نہیں ہیں مسلمان تو جد و جہد پر یقین رکھتے ہیں ۔ میں تو یوں
کہوں گی کہ کشمیر کی تحریک آزادی اب زور پکڑے گی۔ اب عالمی ادارے اور اقوام
متحدہ کو اپنی منظور شدہ قرار داد کے تحت مثبت کردار ادا کرنا ہو گا تب
جاکر یہ ظلم و ستم ختم ہو سکتا اور دنیا تو یہ جانتی ہے کہ مسلمان کی تاریخ
کیا ہے پاک فوج ہو یا پوری مسلم امہ سبھی کا ماضی دنیا کو یہ سبق دیتا ہے
کہ
ہم جھکے نہ کبھی ظلم کے سامنے
ہم ہیں کوہ گراں اپنا ماضی گواہ
نہ کسی حال میں ہم نے بدلا چلن
گو ہوئی ہم پہ ہے ظلم کی انتہا
ہمیں یقین ہے کہ کشمیریوں کی جدوجہد رنگ لائے گی،ہماری پوری قوم اور تمام
پاکستانی ادارے کشمیریوں سے کی ہوئی یکجہتی کا بھرم رکھتے ہوئے انہیں آزادی
دلانے میں اپنا موثر کردار ادا کریں گے ۔
|