کچھ کنٹرول لائن کے بارے میں

کنٹرول لائن آجکل اس لیے موضوع بحث ہے کہ وہاں پاک بھارت فوجوں کے مابین جھڑپوں کا سلسلہ دراز سے دراز ہوتا چلا جارہا ہے ‘ کبھی بھارتی فوج کی گولہ باری کے ہاتھوں ہمارے فوجی اور کنٹرول لائن کے قریب صدیوں سے آباد کشمیری جام شہادت نوش کرتے ہیں تو کبھی بھارتی فوج کو زبردست جانی و مالی نقصان پہنچانے کااعلان سامنے آتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ موجودہ نسل کے ہر فرد کے ذہن میں کنٹرول لائن کے بارے میں ایک ادھورا سا خاکہ موجود ہے ۔سردست قارئین کی دلچسپی کے لیے کنٹرول لائن کے بارے میں چند حقائق پیش کئے جارہے ہیں تاکہ اندازہ ہوسکے کہ کنٹرول لائن کس بلا کانام ہے ۔

تنازعہ کارگل کی ابتداء اکتوبر 1947ء میں اس وقت ہوئی جب بھارت نے مسلم اکثریت والی آبادی کی ریاست جموں وکشمیر میں ا پنی فوج اتار دی۔کشمیری مجاہدین کی مدد کے لیے پاکستان کو معرض وجود میں آتے ہی میدان جنگ میں کودنا پڑا۔پاکستانی افواج تعداد اور قوت کے اعتبار سے بھارت کے مقابلے میں بہت کمزوری تھیں۔اس کے علاوہ ایک وجہ پاک فوج کی کمان ایک انگریز آرمی چیف کے ہاتھ میں تھی اس نے غیر منظم پاک فوج کو بھی کشمیر کی آزادی کے لیے بہادری کے جوہر دکھانے سے محروم رکھا۔آزادی کے ڈیڑھ سال بعدبھارتی وزیر اعظم جواہر لعل نہرو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں جا پہنچے اور استصواب رائے کروانے کے وعدے پر جنگ بندی کروانے کی اپیل کردی۔ چنانچہ سلامتی کونسل نے بھارتی وزیر اعظم کی درخواست پر دونوں ملکوں کی فوجیں جہاں جہاں تھیں‘ رک گئیں ‘ جنگی بندی کا اس شرط پر اعلان کردیاکہ امن قائم ہوتے ہی کشمیر میں اقوام متحدہ کی امن فوج کے زیرانتظام استصواب رائے کروا کر کشمیریوں کی رائے کے مطابق فیصلہ کردیاجائے گا۔اسے عارضی سرحد تسلیم کرکے اس کانام جنگ بندی لائن رکھ دیاگیا ۔یہ جنگ بندی لائن 780کلومیٹر طویل تھی ۔یہ باقاعدہ تفصیلی معاہدے کے تحت قائم کی گئی جس پر 27جولائی 1949ء کو کراچی میں دستخط ہوئے ۔طویل جنگ بندی لائن کے بڑ ے بڑے حصے درج ذیل تھے۔ -1طے شدہ ورکنگ باؤنڈی 220کلومیٹر ‘ -2طے شدہ کنٹرول لائن 450 کلومیٹر -3غیر طے شدہ کنٹرول لائن 130کلومیٹر ۔ ان تینوں حصوں کی تفصیل کچھ یوں ہے ۔سنگ میل نمبر 1ضلع سیالکوٹ کے ایک مقام سے شروع ہوکر ٹھاکو چک تک چلاجاتاہے ۔جو چھمب کاایک گاؤں ہے۔ سیالکوٹ سے ٹھاکو چک تک 200 کلومیٹر تک طویل لائن کو ورکنگ باؤنڈی کانام دیاگیا ۔یہاں سے کنٹرول لائن کا 450کلومیٹر طویل دوسرا حصہ شروع ہوتاہے جو شمال اور شمال مشرق سے ہوتا ہوا ایک ایسے مقام پر جاکر ختم ہوتا ہے جس کے آگے برف پوش پہاڑ اور گلیشئر ہیں ۔ان دشوار گزارعلاقوں میں سنگ میل نصف نہیں کیے گئے ۔اس مقام کو نقشے پر NJ-9842کے نام سے جانا جاتاہے ۔ ٹھاکو چک سے NJ-9842تک یہ حصہ سرسبز و شاداب وادیوں سے لے کر سنگلاخ چٹانوں اور برف پوش بلندیوں پر مشتمل ہے ۔اس علاقے میں پچیس پچیس اور تیس تیس کلومیٹر کے بعد سنگ میل نصف کیے گئے ہیں۔یہ لائن شمال میں مقبوضہ کشمیر کے دراس اور کارگل نامی شہروں (قصبوں) کے پاس سے گزرتی ہے ۔یہاں یہ لائن پانچ ہزار میٹر تک بلند ہے چونکہ اس کے دامن میں دراس اورکارگل کے قصبے واقع ہیں اس لیے یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ یہاں کی چوٹیاں ان دراس اورکارگل کے شہروں اور قصبوں کی پاسبانی کرتی ہیں۔یہ چوٹیاں انتہائی دشوار گزار ‘ سنگلاخ اور برف میں ڈھکی رہتی ہیں۔موسم سرما میں ان پر بسیرہ کرنا ناممکن ہوجاتاہے ۔یہ پہاڑیاں سخت عمودی اور نوکیلی ہیں ان تک رسائی کے لیے ان گنت گھاٹیوں اور لاتعداد کھائیوں پر سے گزرنا پڑتا ہے ۔اسی پہاڑی سلسلے میں ایک پہاڑ کا نام کافر پہاڑ کے نام مشہور ہے جس کی بلندی چودہ سے پندرہ ہزار فٹ ہے اس سے آگے ترتوق 18ہزار فٹ بلند پہاڑیوں کا سلسلہ شروع ہوجاتاہے جہاں گرمیوں میں بھی درجہ حرارت نکتہ انجماد سے انتہائی کم ہوجاتاہے ۔یہاں بے رحم موسم کی حشر سامانیوں کی وجہ سے انسانی وجود برقرار رکھنا بہت مشکل ہے ۔یہ علاقہ 48ہزار کلومیٹر طویل اور بارہ کلومیٹر کشادہ ہے ۔یعنی دراس اور کارگل کے اوپر پانچ سو مربع کلومیٹر کا علاقہ ایسا ہے جہاں لائن کاتعین نہیں ہوسکااورنہ ہی سال کے بارہ مہینے وہاں فوجی نقل وحرکت جاری رکھی جاسکتی ہے ۔کارگل سے مزید مشرق میں جائیں تو لداخ کاصدر مقام لہیہ آتا ہے ۔یہاں پہنچنے کا ایک ہی راستہ سری نگر لہیہ روڈ ہے جسے انڈین نیشنل ہائی وے ون اے کہا جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ لداخ کی لائف لائن ہے یہ سڑک مئی سے 15ستمبر تک ٹریفک کے لیے کسی حد تک کھلی رہتی ہے انہی مہینوں میں سیاچن میں تعینات فوجیوں کے لیے خوراک اور اسلحے کی سپلائی جاری رکھی جاتی ہے۔اس سڑک پر روزانہ آرمی کے ڈیڑھ ہزار لوڈر گاڑیاں گزرتی ہیں جبکہ شہریوں کے لیے پانچ سو لوڈرگاڑیاں گزرتی ہیں۔لہیہ میں ایک بڑاہوائی اڈہ اور ایک فوجی مستقر بھی موجود ہے جہاں بھارت سیاچن محاذ کو رسدات اور گولہ بارود بھجواتا ہے ۔لہیہ سے ہی بھارت اپنے ان پہاڑی ڈویژنوں کو سپورٹ کرتا ہے جو چین کے علاقے "اقصائے چین"کے مقابل صف آرا ہیں ۔ بھارت اقصائے چین کو اپناعلاقہ سمجھتاہے ۔بھارت کا کہنا ہے کہ چین نے تبت سے رابطہ رکھنے کے لیے اس بھارتی علاقے پر غاصبانہ قبضہ کررکھا ہے چنانچہ لہیہ کا مستقرسیاچن اور اقصائے چین کے سامنے تعینات بھارتی فورسز کو برقرار رکھنے میں کلیدی کرداراکا حامل ہے ۔لائن آف کنٹرول کا تیسرا اور آخری حصہ پوائنٹ NJ-9842سے شروع ہوکر چین کی سرحد تک جاتا ہے ۔ اس حصے کی آج تک حد بندی نہیں کی گئی اورنہ ہی کی جاسکتی ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ سارے کا سارا علاقہ یخ بستہ اور برفانی ہے ‘اسی لیے کراچی معاہدے میں یہ درج ہے کہ پوائنٹ NJ-9842سے لائن آف کنٹرول شمال میں چین کی سرحد تک چلی جاتی ہے ۔اس وقت معاہدہ کرنے والوں کا خیال تھا کہ اس برفانی علاقے کی سرحد کوئی عسکری اور سٹرٹیجک اہمیت نہیں رکھتی ۔سارے کا سارا علاقہ گلیشیائی ہے 1984ء کے سال تک دنیا کی تمام اٹلسیں پوائنٹ NJ-9842سے لے کر درہ قراقرم تک کے علاقے کو پاکستان کا حصہ شمار کرتی اور دکھاتی رہی ہیں۔1963ء میں پاک چین معاہدے میں بھی یہ علاقہ پاکستان کاحصہ تسلیم کیاگیا۔دنیا کے اکثر سیاح اور کوہ پیما جو قراقرم جاتے تھے انہیں اجازت نامہ حاصل کرنے کے لیے پاکستان ہی سے رجوع کرنا پڑتا تھا۔1971ء کی جنگ کے بعد شملہ معاہدے میں کنٹرول لائن کے کچھ حصوں کو از سر نو تعین بھی کیاگیا ۔جن پر بھارتی فوج پر قبضہ کیاتھا وہ بھارت نے لے لیے اور جن پر پاکستانی فوج قابض ہوئی وۂ پاکستان کے حصے میں آگئے ۔کنٹرول لائن کی یہ الجھی ہوئی کہانی یقین ایک عام پاکستانی کے لیے بہت اہم تصور کی جاتی ہے ۔

Muhammad Aslam Lodhi
About the Author: Muhammad Aslam Lodhi Read More Articles by Muhammad Aslam Lodhi: 802 Articles with 784754 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.