تحریر : سید مصعب غزنوی
کشمیر کی صورتحال کو لے کر گرما گرم بحث جاری تھی، ہر کوئی اپنا اپنا تجزیہ
پیش کر رہا تھا اور ہم چپ چاپ سب کی باتیں بغور سن رہے تھے۔ ایک تجزیہ نگار
اپنا تجزیہ پیش کرتے ہوئے بولے کہ ہم ایسے ہی کشمیر پر اپنا وقت برباد کر
رہے ہیں، مسئلہ کشمیر حل نہ ہونے کی وجہ صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ کشمیری
پاکستان کے ساتھ الحاق نہیں چاہتے وہ اپنی ایک الگ آزاد ریاست چاہتے ہیں۔
اب کی بار میں خاموش نہ رہا بلکہ میں نے سب کو مسئلہ کشمیر کی حقیقی نوعیت
سے آگاہ کرنے کا فریضہ ادا کیا۔
یہ تو ایک علاقائی محفل ہے جس میں یہ بات سننے کو ملی مگر یہ بات میں مختلف
محافل میں مختلف قسم کے لوگوں سے بارہا سن چکا ہوں اور مجھے ہمیشہ بڑا تعجب
ہوا کہ پاکستانی کس قدر سادہ لوح ہیں کہ جو بات بھی دشمن پھیلانا چاہے ان
کے کانوں تک پہنچتے ہی یہ لوگ اسے سچ مان کر آگے پھیلانا شروع کر دیتے ہیں۔
ا صل میں اس میں ان لوگوں کا کوئی قصور نہیں ہے، قصور ہم جیسے لوگوں کا ہے
جو اس مسئلہ سے پوری طرح آگاہ ہونے کے باوجود ان لوگوں کو آگاہی فراہم نہیں
کرتے۔ اب اگر ہم انہیں آگاہی نہیں دیں گے ،حقیقت نہیں بتائیں گے تو یہ کہیں
اور سے سنی ہوئی بات کو تو پھر حقیقت تسلیم کریں گے ہی۔ اس وقت بھی بہت سے
ایسے لوگ موجود ہیں جو سمجھتے ہیں کہ پاکستانی مسئلہ کشمیر میں ٹانگ اڑا کر
بس اپنے وقت کا ضیاع کرتے ہیں اگر ہم یہ نہ کریں تو بہت سارے دوسرے کام
کرسکتے ہیں، کیونکہ کشمیری پاکستان سے مخلص نہیں ہیں۔
کشمیر پر بھارتی تسلط کے ابتداء سے ہی کشمیری اس کے خلاف ہیں اور مسئلہ
کشمیر کے آغاز سے ہی کشمیریوں نے اس پر آواز اٹھائی اور بھارتی تسلط سے
آزادی کا مطالبہ کیا۔بھارت کے کشمیر پر قبضہ کے بعد کشمیریوں نے مقامی طور
پر تحریک آزادی کشمیر کا آغاز کیا جو آج تک جاری و ساری ہے، اگر کشمیری
آزاد ریاست بھی چاہتے ہیں تو یہ غلط مطالبہ نہیں ہے بلکہ ان کی مرضی ہے مگر
وہ لوگ پاکستان سے الحاق چاہتے ہیں۔
کشمیری اب تک لاکھوں جانوں کی قربانیاں دے چکے ہیں مگر وہ لوگ پھر بھی اپنے
مطالبہ سے کبھی پیچھے نہیں ہٹے، بھارتی درندے ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ
رہے ہیں مگر وہ پھر بھی بھارت سے آزادی کے حق میں آواز بلند کرتے رہتے ہیں۔
جب بھی احتجاج کرتے ہیں تو پاکستانی پرچم انہوں نے اپنے سروں پر باندھ رکھا
ہوتا ہے، اپنے احتجاج میں وہ لوگ صرف ایک پرچم اٹھاتے ہیں اور وہ پاکستان
کا پرچم ہوتا ہے،جس کی انہیں بہت بڑی قیمت بھی چکانا پڑتی ہے۔ پاکستانی
پرچم اٹھانے کے جرم کی پاداش میں بھارتی فوج ان پر پیلٹ برساتی ہے جس سے ان
کی بینائی ضائع ہوجاتی ہے، انہیں گھروں سے اٹھا کر قتل کر دیا جاتا ہے،
غائب کردیا جاتا ہے۔ان کے معصوم بچوں کو پیلٹ کے فائر کرکے اندھا کردیا
جاتا ہے، ان کے شیرخوار بچوں کو قتل کر دیا جاتا ہے اور قصور صرف ایک ہی
ہوتا ہے کہ آزادی کا مطالبہ کس لیے کیا پاکستانی پرچم کس نے لہرایا۔ یہاں
پر ہی بس نہیں پھر جب ان شہداء کے جنازے اٹھائے جاتے ہیں تو پاکستانی پرچم
میں شہید کی میت کو لپیٹا جاتا ہے، جنازہ میں پاکستانی پرچم لہرائے جاتے
ہیں،پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائے جاتے ہیں۔ پھر چشم فلک یہ منظر بھی
دیکھتی ہے کہ ایک میت کو قبر تک پہنچانے کے لیے نکلے کشمیری کئی اور میتوں
کو کاندھوں پر اٹھائے پھر رہے ہوتے ہیں۔
اور قصور کیا ہوتا ہے کہ پاکستان کا نام کیوں لیا؟ کشمیری بہنیں پاکستانی
پرچم سے اپنا حجاب کرتی ہیں،اسے اپنے سر پر عورتیں اوڑھتی ہیں اور اپنے
پروگرامات میں پاکستانی پرچم لہراتی ہیں۔ بھارتی درندے ان کے اس جرم کی
پاداش میں انہیں گھروں سے اٹھا کر سر عام زیادتی کا نشانہ بناتے ہیں، ان کی
عصمت دری کرتے ہیں اور ان کے گھر والوں کے سامنے انہیں بے آبرو کرتے ہیں
مگر وہ پاکستان پاکستان کا نام لینا نہیں چھوڑتی ہیں،پھر انہیں قتل کر دیا
جاتا ہے۔ یہ انہیں پاکستان سے محبت کی سزا دی جاتی ہے، یہ انہیں پاکستان کا
پرچم لہرانے کی پاداش میں سزا دی جاتی ہے۔
جب کسی کشمیر ی بیٹے کی لاش گھر آتی ہے اسے پاکستانی پرچم کے کفن میں لپیٹا
جاتا ہے، اس کے جنازہ میں پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائے جاتے ہیں ،اس کی
میت کو قبر میں اتار کر قبر پر پاکستان لکھ دیا جاتا ہے۔ کیونکہ کشمیری یہ
کہتے ہیں کہ اگر ہم اس آزادی کی راہ میں شہید ہوگئے تو ہماری قبر پر
پاکستان لکھ دینا۔ یہ ہے کشمیریوں کی پاکستان سے والہانہ محبت اور عقیدت۔
شاید پاکستان میں رہنے والے بہت بڑے بڑے محب وطنوں سے زیادہ وہ کشمیری محب
پاکستان ہیں کہ اس ایک جرم کی پاداش میں اپنی جان تک قربان کر دینے سے دریغ
نہیں کرتے ہیں۔
عزیز پاکستانیو ! کشمیری پچھلے اڈھائی ماہ سے کرفیو کی زد میں ہیں، ان کی
زندگی کو بالکل تنگ کر دیا گیا ہوا ہے۔ ان کے نوجوان ہزاروں کی تعداد میں
اغوا کرکے غائب کر دیے گئے ہیں ،بیٹیوں کے عزتیں تار تار کی جارہی ہیں،
کھانے پینے کی اشیاء کی قلت ہوچکی ہے۔ ادویات کی کمی سے مریض سسک سسک کر
اپنی جانیں دے رہے ہیں ۔مگر اس سب کے باوجود وہ آج بھی پاکستان کا نام لے
رہے ہیں ،آج بھی پاکستان کی طرف امید کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں ۔اس بھوک اور
پیاس کے عالم میں جب ماؤں کا دودھ سوکھ جاتا ہے ،بچے بھوک سے بلک رہے ہوتے
ہیں تب ایک انڈین فوجی ایک ماں کو ایک بسکٹ کا ڈبہ دیتا ہے اور کہتا ہے کہ
یہ کھا لو تو وہ اس بسکٹ کے ڈبے کو نہیں لیتی اور کہتی ہے ایسی زندگی سے
مجھے موت گوارا ہے۔وہ کشمیری لوگ پاکستان کی محبت میں اس سے بڑی اور کیا
مثالیں پیش کریں؟کہ وہ ’’پاکستان پاکستان کرتے ہی نہیں تھکتے‘‘۔
یہ ہمارا دینی اور اخلاقی فریضہ ہے کہ ہم کشمیریوں کی حمایت کریں۔ اور
ہمارے نبی کریم صلی وسلم کی حدیث ہے کہ ’’مسلمان جسد واحد کی طرح ہیں،اگر
جسم کا ایک حصہ تکلیف میں مبتلا ہو تو پورا جسم اس تکلیف کو محسوس کرتا
ہے‘‘۔ اس مسلمانیت کے رشتہ کی نوعیت سے ہی کشمیری لیڈر و حریت رہنما وہ
بوڑھا شیر سید علی گیلانی یہ نعرہ لگاتا ہے’’ دین کی نسبت سے، اسلام کے
تعلق سے ہم پاکستانی ہیں ،پاکستان ہمارا ہے‘‘۔ اور ان شاء ﷲ وہ وقت اب دور
نہیں کہ کشمیری بھی آزادی کا سورج طلوع ہوتے دیکھیں گے، اور ہندو درندے
اپنے انجام عبرت کو پہنچیں گے، کیونکہ ہر ظلم کی رات کے بعد ایک صبح پرنور
کا ظہور ہر صورت ہوتا ہے۔
|