ہمارا ملک تشویش ناک صورت حال سے دوچار ہے ۔ایک جانب
سیاسی عدم استحکام ،معاشی بحران اور عوام میں بے یقینی سائے کے گہرے ہو رہے
ہیں تو دوسری جانب کشمیر کاز کے لئے پاکستان بین الاقوامی فرنٹ پر لڑ رہا
ہے۔جب کہ پاکستان کو ایف اے ٹی ایف پر با مشکل چار مہینے کی مہلت ملی ہے ۔ایسے
مخدوش حالات میں حکمران ،حزب اختلاف ،اسٹیبلشمنٹ ،ادارے اور عوام کہاں کھڑے
ہیں؛کیا یہ سب اپنا اپنا رول ایمانداری سے ادا کر رہے ہیں ․․؟اس کا جواب
نہیں میں ہے ۔
موجودہ حکومت کو اقتدار سنبھالے ڈیڑھ برس گزر چکا ہے ۔انہوں نے سیاسی طور
پر وقت ضائع کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔ہٹ دھرمی،محاذ آرائی کی ترغیب دینا
حکومتی عہدیداروں کا وطیرہ رہا ہے ۔انہیں کی چپقلش پسندی کے رویے نے
پارلیمنٹ کو مفلوج بلکہ معطل کر کے رکھ دیا ہے ۔جہاں حکمران قیادت کو تحمل
اور بردباری کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا،وہاں تکبر اور اَنّا پرستی دکھائی
گئی ۔حالاں کہ جمہوریت درحقیقت برداشت اور مفاہمت کے اوصاف کی متقاضی ہے ۔
ہمارے سیاستدانوں نے ماضی کی تلخ حقائق سے کچھ نہیں سیکھا۔ماضی کے حکمرانوں
کی کم وبیش ایسی ہی حرکات کی وجہ سے ملک میں جمہوریت پٹری سے ایسی اتری کہ
دوبارہ حقیقی جمہوری نظام عوام کا خواب بن کر رہ گیا ہے ۔ملک میں طالع
آزماؤں اور مارشالاء کے ادوار نے ایسے اثرات چھوڑے ہیں ،جس کی عوام بڑی سزا
تسلسل کے ساتھ بھگت رہے ہیں ۔ایوب خان سے لے کر جنرل مشرف تک سیاسی عمل
کبھی بھی مضبوط بنیادوں پر نہیں چلا۔ہر دور میں حکمرانوں نے اپنے مفادات کے
حصول کے لئے اداروں کو کمزور تر کیا۔ملک میں جب جب نازک لمحات آئے،حکمران
قیادت عدم فیصلہ کی شکار رہی ہے یا فیصلہ کرنے میں اتنی تاخیر کر دی گئی کہ
اس فیصلے کے منفی نتائج عوام کو عرصہ دراز تک بھگتنے پڑے ہیں۔
حزب اختلاف اپنی غلطیوں کو بار بار دہرا رہی ہے۔حزب اختلاف کا کردارحکومت
کا قبلہ درست کرنے والوں کا ہوتا ہے ۔حکومتی پالیسیوں ،فیصلوں اور ارادوں
پہ کھل کر تنقید کرنااور ساتھ ساتھ ان کی راہنمائی کا فریضہ ادا کرنا ہوتا
ہے،لیکن حزب اختلاف کی قیادت نے اپنا مؤثر رول ادا نہیں کیا۔یہ درست ہے کہ
تحریک انصاف نے اقتدار سنبھالتے ہی اپنے سیاسی مخالفین کو ہی ہدف بنا رکھا
ہے۔ حکمرانوں کا کسی اور جانب دھیان نہیں ہے ،یہ رویے ملک و قوم کے لئے
انتہائی نقصان دہ ہیں ۔اپوزیشن درحقیقت متبادل قیادت ہوتی ہے،جو حکومت وقت
کو واضح کرتی ہے کہ ملکی معاملات کو احسن طریقے سے سر انجام دینے کی اصل
صلاحیت اس کے پاس ہے ۔اس قابلیت کا اظہار ہر شعبے وہ خارجی یا داخلی مسائل
ہوں ،ان کا سنجیدہ اور مستحکم حل بتانے میں ہوتا ہے ۔حزب اختلاف کا لا
اُبالی پن اور مفادات کی سیاست کا کلچر ملک کی ترقی و فلاح کے لئے کسی طرح
مثبت ثابت نہیں ہو سکتا۔حزب اختلاف کا ’’وزیر اعظم کا استعفا‘‘ کا ایجینڈا
قبل از وقت ہے ۔اس حقیقت سے روگردانی نہیں کی جا سکتی کہ عوام حکمرانوں کی
کارکردگی سے بے حال ہو چکے ہیں ۔ملک معاشی طور پر ابتر حالات میں ہے ۔جتنی
تیزی سے غربت بڑھی ہے،اس ملک میں ایسی نظیر نہیں ملتی ۔
پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کا کردار ہمشہ سے مشکوک رہا ہے ۔جس کا تسلسل جاری و
ساری ہے ۔سمجھ سے بالا تر ہے کہ ملک کی پالیسی بنانے والے اور اپنے آپ کو
عقل کل سمجھنے والی اسٹیبلشمنٹ کیوں نہیں سمجھتی کہ ملک رہے گا تو ان کی
طاقت رہے گی ۔عوام جسے غلام اورکیڑے مکوڑوں کی ماند سمجھا جاتا ہے ،یہ نہیں
ملیں گے ۔مختلف ادوار میں سازشیں کر کے صرف ملک کو نقصان ہی پہنچایا گیا ہے
۔گزشتہ برسوں سے شروع’’کرپشن مکاؤ‘‘ ایک سازش سے بڑھ کر کچھ نہیں تھا
۔کرپشن کے خلاف کوششیں اقتدار کے ایوانوں تک پہنچنے کے لئے کروائی گئی ہیں
۔حالاں کہ یہ کاوشیں مضبوط اور صحت مند روایات کے قیام کے لئے ہونا چاہیے
تھا،مگر ایسا نہیں ہوا۔
ہمارے ملک کے ادارے پہلے ہی اپنی اپنی حدود میں کام نہیں کر رہے تھے
۔موجودہ دور میں حکمرانوں نے اپنے اقتدار کو قائم رکھنے کے لئے انہیں خوب
استعمال کیا ہے اور مسلسل کر رہے ہیں ۔کسی ادارے کی کارکردگی صفر فیصد سے
اوپر نہیں ہے ۔ملک دن بادن نیچے کی طرف جا رہا ہے ۔اب تو حالات یہ ہیں کہ
گرے لسٹ سے بچنے کے لئے لالے پڑے ہیں ۔
حکومت کو ماضی کی حکومتوں کی غلطیوں سے سیکھتے ہوئے حقیقت کا ادراک کرنا
چاہیے اور حکمران قیادت کو سمجھانا ہو گا کہ تحمل ،برداشت ،رائے عامہ اور
مفاہمت کے ساتھ ہی جہوریت اور ملکی میں افراتفری پر قابو پایا جا سکتا ہے ۔
|