عوام کے نام

تحریر: سعدیہ سلیم
سلطنت ایک عمارت کے مانند ہوتی ہے جس کی بنیاد عوام ہوتی ہے۔ عوام اپنے معاشرے کے لحاظ سے اندازِ حکمرانی چـنتی ہے۔ یہ اندازِ حکمرانی کبھی بادشاہت‘ کبھی آمریت تو کبھی جمہوریت کی شکل اپناتی ہے۔ ہر شکل میں اس کا ایک ہی فریضہ مماثلت رکھتا ہے‘ قوم ‘ ملک ‘ سلطنت کی ترقی و خوشحالی ۔
زمانہ قدیم میں گھر کے سب سے بڑے رکن کو حکمرانی کے حقوق حاصل تھے۔کوئی بھی اہم مسئلہ ہوتا تو کنبے کے سبھی افراد اِن سے مشورہ لیتے تھے۔ ان کا کہا سبھی کو ماننا ہوتا تھا۔ ارتقائی منازل طے کرتے کرتے‘ اس نے اپنی شکل بادشاہت میں تبدیل کرلی۔ سلطنت کے مالدار و عزت دار لوگ تخت نشین ہوئے اور عوام اْن کی نسلوں کی غلام بن کر رہ گئی۔ غلامی کے اِس دور سے نکلنے کے لیے عوام نے رائے عامہ قائم کرنا شروع کردی اور یوں بادشاہت کو کبھی الوداع کہہ دیا۔

غلامی کے قفس میں جکڑے عوام کو جب آزادی ملی تو رائے عامہ کی اہمیت مزید بڑھ گئی۔ فیصلہ ہوا کہ عوام کے فیصلے سے حکومت کے اراکین منتخب ہونگے۔ اس طریقہ انتخاب کو ’’الیکشن‘‘ کا نام دیا گیا۔ الیکشن ایک جمہوری نظام کی بنیاد ہے۔ عوام ‘ عوام میں سے عوامی نمائندہ منتخب کرتی ہیں جو عوام کے مسائل کو منتخب اراکین کے مشاورت اور باہمی نقطہ چینی سے حل کرتے ہیں۔

پاکستان میں جمہوری نظامِ حکومت ہے ۔ہر پانچ سال بعد حکومتِ وقت اپنی مددت مکمل کر کے الیکشن کا حق عوام کو دیتی ہے۔ عوام الیکشن میں ووٹ کے ذریعے اپنی رائے قائم کرتی ہے۔اس ووٹ میں نہ صرف سرزمینِ پاکستان کی ترقی و خوشحالی شامل ہوتی ہے بلکہ عوام کا اعتماد و بھروسہ انہیں حکومتِ وقت کے تخت پر بیٹھاتی ہے۔پاکستان کی تاریخ میں ہزاروں لوگ حکومتِ وقت کی کرسی پر تخت نشین ہوئے۔ کرسی پر بیٹھتے ہی قوم ‘ ملک ‘ سلطنت کی ذمہ داری کو سنبھالنے والے یہ حکمران عوام کا اعتماد اور بھروسہ حاصل کرنے کے لیے ملک کی ساخت کو ترقی کے قابل بناتے ہیں۔ہر ملک نے بیرونی تعلقات کے لیے دفترِ خارجہ قائم کیا ہوا ہے جہاں وزیرِ خارجہ ملک کی شناخت کو اور اس کے اصول و ضوابط کو دنیا میں متعارف کرواتے ہیں۔

وزارتِ خارجہ کا کانفرنس روم وہ اہم کمرہ ہے کہ جس کی چار دیواری میں نہایت اہم و پیچیدہ ملکی و غیر ملکی مسائل پر بات چیت اور بحث و مباحثہ ہوتا ہے۔ اس کمرے میں دوسری ممالک کے ساتھ تعلقات طے کیے جاتے ہیں۔ ہزاروں ایم او یوز اور پیکٹز یہاں زیرِغورہوتے ہیں جن کی منظوری اور نا منظوری کا فیصلہ اس چار دیواری میں ہوتا ہے۔۔ اس دفتر میں وزیرِ اعظم اور ان کی کابینہ کے علاوہ کسی غیر ضروری انسان کا آنا ملک کے اس حساس ادارے کی توہین کے برابر ہے۔

حریم شاہ پاکستانی ٹک ٹاک سٹار ہے۔ انہوں نے بیشتر سیاسی و غیر سیاسی شخصیات کے ساتھ ٹک ٹاک کی ویڈیوز بنائی ہیں۔ ۳۲ اکتوبر ۹۱۰۲ء کو ٹک ٹاک سٹار حریم شاہ نے اپنے ٹک ٹاک ویڈیو گیلیری میں ایک ویڈیو اَپ لوڈ کی جس سے اُن کے شائقین میں غم و غصے کی لہر دوڑ پڑی۔ حریم شاہ نے ۳۲ اکتوبر کو دفترِ خارجہ کے کانفرنس روم میں ویڈیو بنائی جو کہ چند گھنٹوں میں وائرل ہوگئی۔ اس ویڈیو کو دیکھنے والوں نے سوشل میڈیا پر انہیں اور حکومتِ وقت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ وہ اس اہم کمرے میں ٹھل رہی ہے ‘ وہ وزیراعظم کی نشست پر بیٹھتے ہوئے اور مائیک سیٹ کرتی ہوئی نظر آئی۔

سوال یہ اٹھتا ہے کہ وہاں کوئی غیر متعلقہ شخص کیسے اندر داخل ہوا؟ یہ وہ کمرہ ہے جہاں کشمیر کی مسائل‘ بھارت سے تعلقات اور بیشتر اہم مسائل پر نقطہ چینی ہوتی ہے۔ اس کمرے میں خارجہ پالیسی تیار ہوتی ہے۔ نہایت اہم دستاویزات زیرِ غور ہوتے ہیں وہاں ایک غیر ضروری انسان کا داخلہ کیسے ہوا؟ جہاں صحافی اور متعلقہ افراد بھی شناخت کرائے بغیر داخل نہیں ہو سکتے وہاں ایک غیر ضروری انسان شناخت کے بغیر کیسے داخل ہو گیا؟ حکومتِ وقت نے اس واقعہ پر نوٹس لیتے ہوئے تحقیقات کا آغاز کردیا ہے ۔ امید ہے کہ ذمہ داران کو سخت سزا دی جائے گی۔

عوام سے گزارش ہے کہ حکومت جو ایک ملک کی گاڑی کو ترقی کے راہ پر گامزن کررتی ہے‘ اس کے ساتھ ایسی غیر سنجیدگی عوام کے بھروسے اور اعتماد کو للکارنے اور ٹھیس پہنچانے کے برابر ہوتی ہے۔ اس مقام تک پہنچنے کے لیے جیتے ہوئے اعتماد اور بھروسے کے شکل میں ووٹ کو اپنے شوق کے لیے بے حرمتی کے نظر نہ کریں۔ یہ اقدامات حکومت ‘ ملک اور عوام کے لیے سنگین مسائل کی بنا بن سکتی ہے۔

ویڈیو بنانے کے لیے اور بہت سے مقامات ہے مگر ان حساس اداروں میں اس طرح کی غیر سنجیدگی ہماری تربیت پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ گزارش ہے کہ شوق اور کام میں فرق کو سامنے رکھے۔

حکومتِ وقت سے گزارش ہے کہ اس طرح کے واقعات کو روکنے کے لیے اہم پیش رفت اور قانون سازی کی جائے۔اس طرح کے واقعات عوام کے بھروسے کو شیرازہ کرسکتا ہے۔ اسی میں ارضِ پاکستان کی ترقی و خوشحالی ہے۔
افراد کے ہاتھوں میں ہے عوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا
 

Muhammad Noor-Ul-Huda
About the Author: Muhammad Noor-Ul-Huda Read More Articles by Muhammad Noor-Ul-Huda: 48 Articles with 38381 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.