اک نظر ادھر بھی

تحریر:حافظہ لبنیٰ عنائیت،سرگودھا
سوال یہ ہے کہ ہمارا ملک ترقی کیوں نہیں کررہا ،جناب ہمارا ملک ترقی کرے توکرے کیسے آج تک کوئی یہ نہ جان سکا کہ پاکستان آگے بڑھنے میں ناکام کیوں رہا،کیا وجہ ہے کہ پاکستان کا نام ان ممالک میں نہیں جوآج ترقی کی سیڑھیوں پرچڑھ کرآسمان کی بلندیوں کوچھورہے ہیں پاکستان ترقی کرے بھی کیسے ہرکوئی تواپنی زندگی میں مگن ہے کبھی کسی نے یہ رازجاننے کی کوشش ہی نہیں کی کہ آخر پاکستان ترقی کیوں نہیں کررہا،توآئیے جانتے ہیں کہ آج تک پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن کیوں نہ ہوسکا سب سے بڑی رکاوٹ جسکی وجہ سے ہمارا ملک پاکستان ترقی نہ کرسکا وہ ہے ہمارا تعلیمی نظام جس ملک کا تعلیمی نظام ہی ناقص ہووہ ملک ترقی کربھی کیسے سکتا ہے،میرا شکوہ نہیں اساتذہ کرام سے میرا گلہ ہے توبس تعلیمی نظام سے اور اس نظام کو تشکیل دینے والوں سے وہ ملک ترقی کربھی کیسے سکتا ہے جس ملک کے طالب علموں کی سوچ ایک ہزارسے اوپرنمبر حاصل کرنے تک محدودہوکررہ گئی ہووہ ملک سائنسدان ،ڈاکٹر اورانجنیئرکیسے پیدا کرسکتا ہے جہاں طالب علم صرف نمبروں کی دوڑمیں بھاگ رہے ہوں اس ملک پاکستان میں تو بس وہی کامیاب ہے جس نے اس نمبروں کی دوڑ کوجیت لیا،یہاں طالب علم کی قابلیت کونہیں دیکھا جاتا طالب علم کی قابلیت کی کوئی اہمیت نہیں یہاں،اس ملک پاکستان میں نمبروں کی دوڑمیں پیچھے رہ جانے والے طالب علم کو بھی اپنی منزل پر پہنچنے سے روک دیا جاتا ہے،طالب علم کے والدین کے خوابوں کا جنازہ نکال دیا جاتا ہے،اور پھر صرف .5کی وجہ سے اپنی منزل پرنہ پہنچنے اور اپنے خوابوں کی تعبیر نہ دیکھنے والے طالب علموں کی زندگیاں منجمند نہ ہوں توکیا ہواس تعلیمی نظام نے کئی طالب علموں کی زندگیوں کوبربادکردیا،کئی طالب علم نفسیاتی مریض بن گئے توکئی طالب علموں نے اپنی زندگی کا گلا خودگھونٹ دیا،طالب علم ایسا کرنے پر مجبورہوجاتے ہیں،یوں توکالج میں داخلہ لینا ہی بہت مشکل کام ہے ایک قابل مگرغریب طبقے سے تعلق رکھنے والا طالب علم کالج کی لاکھوں کے حساب سے فیس کا بوجھ کیسے اٹھا سکتا ہے اورپھراس کے ساتھ ہی علم کی لازوال دولت حاصل کرنے کے لئے گاؤں سے شہروں کا رخ کرنے والے طالب علموں پرکالج کے ساتھ ساتھ ہوسٹل کے اخراجات کا بوجھ بھی بڑھ جاتا ہے کئی طالب علم توان اخراجات سے ڈرکر خودہی اپنے خوابوں کواپنے دل کے قبرستان میں دفن کردیتے ہیں،یہی طالب علم جنہیں پہلے اپنی منزل بہت قریب نظرآتی ہے انہیں ایسا لگتا تھا کہ منزل کوپانا اتنا آسان جیسے پہاڑسے اترنااتنی کم مسافت پر اپنی مزل کودیکھنے والے یہی طالب علم اپنے خوابوں کی تعبیرکو دیکھنے والے یہی طالب علم جب ان خرچوں کے بھونچال اورنمبروں کی دوڑمیں آتے ہیں اورپرچوں کی جانچ پڑتال کرنے والوں کے رحم وکرم پر آتے ہیں تو انہیں اپنی منزل بہت دور جاتی نظرآتی ہے،پھران کے لئے منزل کوپانا اتنا مشکل ہوجاتا ہے ایک بہت ہی بل دارپہاڑپرچڑھنا مشکل ہوتا ہے اور ساتھ کسی بھی لمحہ گرجانے کا خطرہ رہتا ہے پھران طالب علموں کے لئے اس راہ پر چلنا بہت دشوارہوجاتا ہے طالب علم اپنی ہمت ہاربیٹھتے ہیں اور اپنا حوصلہ کھودیتے ہیں اس کے برعکس ترقی یافتہ ممالک کودیکھا جائے توان کی ترقی کی وجہ صرف تعلیم ہے ان کے تعلیمی نظام بہت اچھے ہیں جب ایسے حالات میں پاکستان سے طالب علم بیرون ممالک تعلیم حاصل کرنے کے لئے جائے،ڈاکٹرکی ڈگری چین سے حاصل کی جائے روزی کاروبارکے لئے جب بیرون ممالک کا رخ کیا جاے تو ایسے حالات میں پاکستان ترقی کیسے کرے،میں پوچھتی ہوں زرا بتایئے ایسے حالات میں پاکستان ترقی کیسے کرے میں سوال کرتی ہوں نظام چلانے والوں سے کیا ہمارے ملک میں تعلیمی نظام ان نمبروں کی حدمیں محدودہوکررہ گیا ہے میں پوچھتی ہوں ملک کوترقی کی طرف لے جانے والوں سے کہ یہ ہزاروں کی تعدادمیں ہزارپلس نمبرحاصل کرنے والے طالب علم آخرجاتے کہاں ہیں کیوں نہیں کوئی ڈاکٹر،انجنیر ،سائنسدان بن کرسامنے آرہا آخر 1100میں سے 1090،1089نمبرلینے کے باوجودبھی ہمارا ملک ترقی کیوں نہیں کررہا،ہاں ہاں بتائیے ایسے میں ملک ترقی کربھی کیسے سکتا ہے جہاں ہرشعبے میں آنے والے طالب علموں کونمبروں کی زنجیرمیں جکڑدیا جائے ہاں کیسے کرے یہ ملک ترقی جس میں ہرشعبے خصوصا ڈاکٹری کے شعبے میں آنے والے طالب علموں کے لئے سیٹیں(حد) مخصوص کردی گئی ہوکیسے ہوترقی اس ملک میں جہاں طالب علموں کوآگے بڑھنے کے لئے نمبروں کا ہتھیارپکڑنے پرمجبورکیا جائے،جہاں طالب علموں کی سوچ نمبرحاصل کرنے تک محدودکردی گئی ہو،
نمبر،نمبر،نمبر اوربس نمبر
کہاں گئے سائنسدان ،انجینئراور ڈاکٹر
جی ہاں یہی وجہ ہے کہ آج بھی ہمارا ملک ترقی نہیں کرپارہا اور ہاں آئندہ بھی یہ ملک ترقی نہیں کرپائے گااگر یہ تعلیمی نظام رہا ،آخرمیں بس اک التجا ہے میری آپ سے کے طالب علم کی آنے والی زندگی کودیکھئے طالب علم کے مستقبل کودیکھتے ہوئے اس کی زندگی کا فیصلہ کیجئے ،اک طالب علم کوموت کے گھاٹ مت اتاریئے’’اک طالب علم کو موت کے گھاٹ مت اتاریئے‘‘۔
۔۔۔۔۔

 

Talha Khan
About the Author: Talha Khan Read More Articles by Talha Khan: 63 Articles with 48568 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.