نتائج سے توہم واقف ہی ہوں گے ہرکام ،ہرمحنت اورہراعمال
کا نتیجہ ہوتا ہے جیسا کہ ہراچھے کا م کا نتیجہ اچھا اورہربرے کام کے نتائج
سے ہم واقف ہوں گے،اسی طرح بات آجاتی ہے اعمال کی ہراچھے اعمال کا نتیجہ
اچھا ہوگا آخرت میں اور ہر برے نتائج سے سب واقف ہونگے،دراصل میری بات
نتائج کے حوالے سے پہنچانے کا اورہی مقصدہے،میں آپ سب سے مخاطب ہوں توآج کل
کے انٹرکے نتائج سے جہاں بہت سے بچوں نے اپنے ساتھ پرخلوص ہوتے ہوئے اپنی
محنت کے نمبرحاصل کئے،اور وہیں بہت سے بچوں کودشواری رہی کچھ بچے اپنے کم
نمبروں کواپنی ناکامی سمجھ کے مایوس ہوئے اورکچھ بچے گھروالوں کے کہے پر
پورا نہ اترسکے،اب اگریہاں بات میں فرق تلاش کیا جائے کہ اگرجومایوس ہوگئے
اپنے نتیجے سے وہ اس کوناکامی سمجھ بیٹھے ہیں تویہ بالکل غلط ہے کیوں کہ اﷲ
جب نوازتا ہے توانسان سمجھ نہیں پاتا کہ اس کے دینے کا اندازکیسا تھا،جیسا
کہ جن بچوں نے اپنے کسی بھی مضمون میں ان کی محنت کم تھی،اوروہ اس مضمون کو
پاس نہیں کرپائے توقطعا اس کو وہ اپنی ناکامی نہ سمجھیں بلکہ وہ اس کوموقع
سمجھیں کہ اگرایک نمبر اضافی لے کرپاس ہونے کے خواہشمندتھے توفرق تلاش کریں
کہ کہاں وہ ایک نمبر لے کر صرف ایک فیصدکی کامیابی حاصل کرسکتے تھے،مگر اس
ایک نمبرکے کم آجانے اور اپنے مضمون پرمکمل عبورنہ حاسل کرنے کا فائدہ یہ
ہے کہ وہ ایک فیصدکی کامیابی کو80اورنوے فیصدکی کامیابی کا روپ دے سکتا
تھا،کیونکہ ہرانسان کی محنت ہی اس کی ذات اوراس کے کام کو مہنگا کردیتی
ہے،اور اس معاشرے میں انسانوں نے دوسرے انسانوں کے ذہن ہی ایسے بنا دیئے
ہیں کہ بس لائق کا جہاں ہے اورنالائق تونالائق ٹھہرامیرا ماننا ہے چاہے
کوئی اتفاق کرے یا نہ کرے چاہے جتنی بھی ڈگریاں حاصل کرلومگرتمہاری کامیابی
اسی میں ہے کہ اگرتم ہنررکھتے ہرکام کرنے کا ہنربات کرنے کا ہنر،آداب سے
پیش آنے کا ہنر کیونکہ ہرجگہ آپ کے چند کاغذ کے پیپرکی جگہ آپ کے اخلاق
اورہنرکے جواہرات دکھائی دیتے ہیں،بے شک ؤآپ کے پاس ڈگریاں،پی ایچ ڈی تک
ہوں اس کی بنیاد پہ آپ کواچھی ملازمت بھی مل جائے گی مگرفرض کریں جب اخلاق
اورہنرکی ڈگری ہی آپ کے پاس نہ ہوتوکوئی کیسے اس پیپرکی ڈگری کی بنیادپر
کام کرسکتا ہے،لیکن لوگوں کا کہنا ہے کہ ہمارے بچے نے نوے فیصدرزلٹ گھرلانا
ہے توبس لانا ہے اور وہ ان کے 70یا 80فیصدکے رزلٹ پرمطمئن نہیں ہوتے اور ان
کے 85فیصدکے رزلٹ پہ بھی انہیں نامیدی اپنے والدین اور گھروالوں کی طرف سے
ہوتوان کے لئے کہ وہ اپنے بیٹھنے کی 100فیصدسے 85فیصدکی قابلیت کے طلب
گارنہیں ،بس 90فیصدکے ہندسوں والی ڈگری کے طلب گار ہیں سب ماں باپ کی خواہش
ہوتی ہے کہ ان کے بچے انجینئر،ڈاکٹربنیں مگرکبھی اپنی اولاد سے پوچھا کریں
کہ وہ کیا بننا چاہتے ہیں ان کی دلچسپی کی بنیادپر ان کوتعلیم دلوائیں بہت
سے بچے اس نامیدی سے خودکوموت کے گھاٹ اتاردیتے ہیں آپ سمجھیں اس بات کوبچے
اﷲ کی ذات کے دیئے ٹاسک پہ کامیاب ہوگیا یقین مانووہ آس پاس کے لوگوں کے
لئے منہ توڑ جواب ہوگا،اس لئے میرا سمجھنا ہے کہ ہمیشہ مثبت زہنیت کواپنانا
چاہیئے اگرکم نبمرہیں تب بھی اﷲ میاں نے موقع دیا،موقع کیوں دیا کیونکہ وہ
جانتے ہیں کہ تم آگے بڑھ سکتے ہو اورجب اﷲ میاں چاہتے ہیں کہ تم آگے
بڑھوتوکیوں اپنے آپ کوآخرت سے بھی اور دنیا کی نظروں میں بھی ہزرگنا پیچھے
کرلیتے ہو،ہرمعاملات میں اﷲ کا شکرگزاربنوکیونکہ اﷲ شکرکرنے سے مزیدنوازتا
ہے،اپنے بچوں کے زہنوں کومضبوط اورمثبت بنائیں بے شک انسان تھوڑی دیرکے لئے
ناامیدی کا شکار ہوتوسوچیں آپ سے بڑھ کرتھا ہی کون اور طالب علم ہمیشہ غلط
قدم یعنی خودکشی کی طرف بڑھ جاتا ہے،لیکن والدین ہمارا کبھی بھی برا نہیں
چاہتے کبھی بھی نہیں چاہتے کہ ہماری اولاد ہم سے دورجائے یاہماری ڈانٹ سے
خودکشی کرے ان کا بھی کچھ بولنے کا حق ہے اگرجہاں غلطی ہماری ہے اور ماں
باپ کچھ بولے ہیں تواس کا بالکل یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم کھانا پینا چھوڑدیں
یا خودکشی کرلیں بلکہ والدین اگرمارتے بھی ہیں توہماری اصلاح کے لئے بس
ہمارے معاشرے کا یہ ذہن بن گیا ہے کہ ہمیشہ امتحانات میں ذیادہ نمبرہوں
توکامیاب انسان بن سکتے ہو،مگراگرہنراور قابلیت اورکام پہ مضبوطی ہی اتنی
نہ ہوکوئی کیسے نمبرکی بنیادسے کام بہترکرسکتا ہے،اگرزندگی میں صرف
امتحانات میں ہی نمبرلینے سے انسان دنیا کا کامیاب ترین انسان بن سکتا تواﷲ
میاں ہماری زندگیوں کومشکلات صبروتحمل اور آزمائش سے گزار کر کبھی بھی
بہترین انسان نہ بناتا کامیابی توقسمت میں لکھی ہوتی ہے،بس اس کوحاصل کیا
جائے تومحنت اور لگن نمبرحاصل کرکے انسان معاشرے کی نظرمیں تولائق بن سکتا
ہے مگرہنر،قابلیت اوراپنے کام سے پرخلوص ہونے والا کامیاب انسان ہوتا
ہے،مخلصی بہت بڑی دولت ہے اس انسان کے پاس جواپنے ساتھ جڑے ہررشتے اور
ہرکام سے مخلص ہے کیوں کہ اگرآپ ایک کام سے مخلص ہیں تواس کام سے ایک مہینے
کی محنت اور مخلصی کے نتائج ہزارگنا بہترہوں گے نسبت اس کے جس کے ساتھ تم
پورا سال مخلص نہیں رہے ۔کبھی بھی کامیابی کو ایک نتیجے کی بنیادنہ
سمجھوبلکہ سب سے پہلے اپنی صلاحیتوں کوجانواوراپنی صلاحیتوں کوبھی آگے
بڑھانا آپ کی کامیابی ہے،کامیابی کے نقطہ نظرکوکبھی بھی ایک پوائنٹ پہ نہ
روکیں انگریزنفسیات پہ کتابیں لکھ چکا ہے لیکن ایک نفسیاتی بیماری ’’تمہیں
نمبرزیادہ لینے ہیں‘‘کا علاج آج تک نہ مل سکا سوسال پرانا تعلیمی نظام یا
’’رٹطوطے‘‘پیدا کرسکتا ہے یا نفسیاتی مریض بنا سکتا ہے بہت سے بچوں کے موت
کے گھاٹ اترجانا ہمارے تعلیمی نظام کے بھیانک چہرے پر زوردار تھپڑہے۔
|