ہم میں سے کتنے لوگ یہ جانتے ہیں کہ اس سال کے امن کا
نوبل ا نعام کس کے حصے میں آیا ؟ہماری لاعلمی کی ایک وجہ یہ ہے کہ سنہ
2018ء کا نوبل اعزاز کے لیے ابی احمد نامی ایک مسلمان کاانتخاب کیا گیا۔ یہ
خوش قسمت اگر کوئی رابی آرون نام کا یہودی ہوتا تو سماجی رابطے کے ذرائع
ابلاغ میں زلزلہ آجاتا۔ فیس کی سیکڑوں پوسٹ اور واٹس ایپ کے ہزاروں
پیغامات کے ذریعہ ہم کو بتایا جاتا کہ آرون کے دادا الفریڈ نوبل کے دوست
تھے انہوں نے ہی اس کو بارود بنانے کا نسخہ دیا تھا اور نوبل انعام جاری
کرنے کا مشورہ بھی انہیں کاتھا۔ اپنے پوتے کو نوبل انعام کا حقدار بنانے کے
لیے آرون کے دادا نے منصوبہ بند طریقہ پر ایک مخصوص صفات کی حامل خاتون سے
شادی کی اور اپنے بیٹے کی خاص انداز میں تربیت کی۔ اس کے بعد فلاں لڑکی کو
بہو بناکر گھر لائے اور ان کے ذریعہ آرون کو نوبل انعام حاصل کرنے کے قابل
بنایا گیا ۔ اس طرح کی کہانیاں صرف یہودیوں اور براہمنوں کے بارے میں گڑھی
جاتی ہیں ۔ ان کے توسط سے مسلمانوں میں بیداری پیدا کرنے خاطر انہیں خوب
کوسا جاتا ہے تاکہ وہ احساسِ کمتری کا شکار ہوکر مایوسی کے اندھیرے میں
کھوجائیں ۔ اس طرز عمل کے نتیجے میں امت کی یہ حالت ہوگئی ہے کہ ؎
غم دوراں سے دل مانوس جب سے ہو گیا مجھ کو
ہنسی اچھی نہیں لگتی خوشی اچھی نہیں لگتی
ابی احمد کے ساتھ ایسا کوئی کرشماتی افسانہ منسلک نہیں ہے۔ایتھوپیا کے
وزیراعظم ابی احمد فی الحال براعظم افریقہ میں سب سے کم عمر سربراہ مملکت
ہیں۔ وہ سنہ 1976 میںجیما زوہن کے اندر ایک أورومو نسل کے مسلم باپ اور ایک
أمهرہ نسل کی مسیحی ماں کے گھر میں پیدا ہوئے۔ لندن کی یونیورسٹی آف گرینچ
میں قیادت کی تبدیلی کے موضوع پر ماسٹرزکی ڈگری حاصل کرنے کے بعد وہ عدیس
ابابا یونیورسٹی سے امن اورسلامتی کے موضوع پر پی ایچ ڈی سے نوازے گئے۔ وہ
کوئی کتابی کیڑا یا چائے کی پیالی والے دانشور نہیں ہیں۔ عنفوانِ شباب میں
انھوں نے الدرغوی حکومت کے خلاف مسلح جد و جہد میں حصہ لیا ۔ الدرغوی کو
اقتدار سے بے دخل کرنے کے بعد انھوں نے مغربی واللاغا کے اندر آصفہ بریگیڈ
میں باقاعدہ فوجی تربیت حاصل کی ۔وہاں پر خفیہ سروس میں ایک افسر سے ترقی
کرتے ہوئے لیفٹننٹ کرنل کے عہدے پر فائز ہو گئے ۔ سنہ 1995 میں ابی احمد نے
اقوام متحدہ کی امن فوج میں شامل ہوکر روانڈا میں خدمات سرانجام دیں۔روانڈا
کے اندر سنہ 1994 میں تاریخ کی بدترین نسل کشی ہوئی تھی جس میں 100 دنکے
اندر آٹھ لاکھ افراد قتل ہوئے تھے۔سنہ 1998 سے لے کر 2000 تک کے ایتھوپیا
کے ساتھ ایریٹیریاکے سرحدی تنازعے میں انہوں نے سرحد کے پار دشمن فوج کے
زیرِ قبضہ علاقہ میں جاسوسی مشن کی قیادت کی ۔
ابی احمد نے ۹ سال قبل سنہ 2010 میں أورومو پیپلز ڈیموکریٹک آرگنائیزیشن کی
رکنیت اختیار کر کے عملی سیاست میں اقدم رکھا اور رکن پارلیمان منتخب
ہوگئے۔ اسی دوران ایتھوپیا کے جیما زون میں مسلمانوں اور مسیحیوں کے درمیان
فرقہ وارانہ فسادات کا آغاز ہوا۔ انھوں نے اس تنازعے کے پائیدار حل کی خاطر
’امن کے لیے مذہبی فورم‘ نام کا دفاق بنایا۔ اس میں کامیابی کے بعد ابی
احمد اپریل 2018 کو ایتھوپیا کے وزیرِاعظم بن گئےاس طرح انہوں نے ثابت
کردیا کہ نفرت و عناد کی آگ بھڑکائے بغیر اور دنگا فساد کے بنا بھی
انتخابی کا میابی حاصل ہوسکتی ہے۔ اقتدار سنبھالنے کے بعد طرح طرح کی
نوٹنکی کرنے کے بجائے انہوں تیزی کے ساتھ اصلاحات کا آغاز کرتے ہوئے بیک
وقتی خارجی و داخلی محاذ پر توجہ کی۔ایک سخت گیر قدامت پسند معاشرے میں یہ
بہت جرأتمندانہ اقدام تھا ۔ ان کی اصلاحات کی وجہ سے ایتھوپیا میں دبی
ہوئی نسلی کشیدگی کو ابھرنے کا موقعہ ملا جس کی وجہ سے 25 لاکھ افراد بے
گھر ہوئے لیکن ابی احمد نے اپنا کام جاری رکھا ۔ اندرون ملک وسعتِ قلبی کا
مظاہرہ کرتے ہوے ہزاروں سیاسی قیدیوں کی رہا ئی کااعلان کیا اور ملک بدر
سیاسی مخالفین کی واپسی کے لیے عام معافی کا اعلان کردیا۔اپنے پہلے 100دن
کے اندر ملک میں نافذ ایمرجنسی اور میڈیا سینسر شپ کا خاتمہ کردیا ۔ابی
احمد نے جہاں حزب ا ختلاف کو قانونی حیثیت دی وہیں بدعنوانی میں ملوث فوجی
اور سیاسی رہنماؤں کا پتہّ صاف کر دیا۔ انتخاب سے قبل اس طرح کےخواب وطن
عزیز میں دکھائے جاتے ہیں جو شرمندۂ تعبیر نہیں ہوتے۔
خارجی محاذ پروزیراعظم ابی احمدنے اپنے بدترین دشمن ہمسائے ملک کے ساتھ دو
دہائیوں سے جاری تنازعے کو طے کر کے کشیدگی کا خاتمہ کیا۔وزیرِاعظم ابی
احمد نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا تو دوسری جانب سے ایری ٹیریا کے صدر افورقی
نے ان کا ہاتھ تھام لیا اور اس طرح دو ممالککے درمیان امن کا ماحول بن گیا۔
وزیراعظم ابی احمد کو ان کی اسمساعی کے اعتراف میں ناروے کی نوبل امن کمیٹی
نے 2019ء کا امن انعام دینے کا فیصلہ کیا ۔ کمیٹی کے مطابق انہیں یہ انعام
ہمسایہ افریقی ملک اریٹیریا کے ساتھ سرحدی تنازعے کے حل میں پیش قدمی پر
دیا گیا ہے ۔ اس سال امن کے نوبل انعام کی دوڑ میں 301 امیدواروں کے ناموں
پر غور ہوا جن میں 223 شخصیات تھیں اور 78 تنظیموں کے نام تھے۔نوبل کمیٹی
نے ابی احمد کی امن اور تعاون سے متعلق کاوشوں کو سراہتے ہوئے یہ انعام ان
کے نام کر دیا۔ اسی کے ساتھ اس مؤقر انعام کی جانب امید و بیم سے دیکھنے
والے حسرت و یاس کا شکار ہوگئے۔ بقول اقبال؎
ہے گرمیِ آدم سے ہنگامۂ عالم گرم
سورج بھی تماشائی تارے بھی تماشائی
اریٹیریا بھی پاکستان کی مانند ایتھوپیا سے الگ ہوکر عالم وجود میں آیا۔
یہ دونوں 1998ء سے 2000ءتک ایک دوسرے سے بر سرِ جنگ ر ہے۔ اس کے بعد ان کے
بیچ تعلقات اس قدر کشیدہ تھے سفارتی رشتے تک قائم نہیں ہوئے۔ جولائی سنہ
2018ء میں دونوں ممالک نے باقائدہ جنگ کے خاتمے کا اعلان کرکے دو طرفہ
تعلقات بحالی کر لیاس طرح 20 سال سے جاری فوجی جمود کا خاتمہ ہوگیا۔نوبل
انعام پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے وزیر اعظم ابی احمد نے کہا کہ امن کا یہ
نوبل انعام افریقہ اور ایتھوپیا کو دیا گیا ہے۔انہوں نے امید ظاہر کی کہ
دیگر افریقی ممالک کے سربراہان اس ایوارڈ کو مثبت انداز میں لیتے ہوئے
براعظم میں امن کے قیام کی کوششوں کے لیے اہم کردار ادا کریں گے۔یہی بات
نوبل کمیٹی نے بھی کہی کہ اس انعام کا مقصد ان تمام افراد اور اسٹیک ہولڈرز
کو سراہنا ہے جنہوں نے ایتھوپیا، مشرقی اور شمال مشرقی افریقی علاقوں میں
امن کے قیام کے لیے مثبت کردار ادا کیا ہے۔
تمام تر تفری و امتیاز کے باوجود ان سے قبل بارہ مسلمانوں کو یہ مؤقر
انعام مل چکا ہے۔ اس میں خاص بات یہ ہے جس قوم کو عالمی دہشت گردی کے لیے
ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے اس کے سات افراد کو نوبل امن انعام سے ان لوگوں
نوازا ہے جو اس طرح کی بہتان تراشی میں مصروف رہتے ہیں ۔ دن رات ملت کی
دگرگوں حالت کا ماتم کرنے والے مایوسی کا شکار صحافیوں اور دانشوروں کو اس
طرح کی خبروں پر قلم فرسائی کرکے کبھی کبھار خوش ہونا چاہیے۔ ایسے دور میں
جبکہ ایک خود ساختہ عالمی سوپر پاور ساری دنیا میں ظلم و جور کا بازار گرم
کیے ہوے ہے اور جگت گرو بننے کا خواب دیکھنے والے اپنے ہی لوگوں کو آپس
میں لڑا کر سیاسی روٹیاں سینک رہے ہیں آبی احمد اور افورقی کی امن و
استحکام کی سعی قابل تحسین ہے۔ نوبل انعام حاصل کرنے والوں کو تین چیزیں دی
جاتی ہیں۔ ان میں سب سے اہم منفرد فن پارہ نوبل ڈپلوما ہے۔اس کے علاوہ نوے
لاکھ سویڈش کرونا ملتے ہیں جو نو لاکھ امریکی ڈالر کے برابر ہے یعنی
تقریباً ۶ کروڈ تیسلاکھ ۔ ہمارے سیاستدانوں کے لیے یہ رقم معمولی ضرور ہے
لیکن اعزاز بیش قیمت ہے۔ الفریڈ نوبل کی سالگرہ کے موقع 10 دسمبر کو یہ
انعام اوسلو میںانہیں پیش کیا جائے گا۔ابی احمد اس اہم انعام کے لیے
مبارکباد کے مستحق ہیں اور اس خوشی کے موقع پر ان کے لیے دل سے یہ دعا
نکلتی ہے؎
غواص محبت کا اللہ نگہباں ہو
ہر قطرۂ دریا میں دریا کی ہے گہرائی |