یہ اندھا قانون ہے

سانحہ ساہیوال کے ملزمان کوشناخت نہ ہونے پر شک کا فائدہ دیتے ہوئے حالت مجبوری میں عدالت نے بری کردیاہے،چلو اک سفر تمام ہوا،لوگوں کا انتطار بھی ختم ہوااور سی ٹی ڈی والوں کو بھی امن چین نصیب ہوا،’’بیچارے‘‘خوامخواہ کی تکلیف میں بے چین وبے اقرار پڑے ہوئے تھے اور حکومت کے لیے بھی راحتوں کا سامان ہوگیااورجو وعدہ نبھانے کا عہد کیاتھاوہ وعدہ وفا ہوگیا،سانحہ ساہیوال کے ملزمان باعزت چھوٹ گئے ،سب کوقرار آگیامگرسوال پھر وہی ہے کہ آیا یہ کیسا انصاف ہے کہ متاثرہ بچوں کی طرف سے ملزمان شناخت نہ ہوسکنے کے باعث ملزمان بری کردئیے گئے حتیٰ کہ سارے واقعہ میں موجود ویڈیو کلپس میں ملزمان کے چہرے واضح اور بچوں کو اٹھاکرادھر ادھر کرنے کی تصاویر دیکھی گئی ہیں ،واقعہ کے بعد 6 سی ٹی ڈی اہلکاروں کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے گرفتار کیا گیا،مانا کہ متاثرہ بچے کسی دباؤ ؍پریشانی میں سی ٹی ڈی اہلکاروں کو شناخت کرنے سے انکاری تھے مگر ریاست تو اندھی نہ تھی،عدلیہ تو بے خبر نہ تھی،عینی شاہدین سمیت سارے ویڈیو کلپس چیخ چیخ کر سارا واقعہ خود ہی زبان حال سے بیان کر رہے تھے کہ متاثرہ فیملی پر کیا گزری،یہ کیسا فیصلہ ہے جو دیا گیاہے،اس فیصلے پر جتنا بھی افسوس کیا جائے کم ہے،اسے ایک کمزور فیصلہ قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا،کیا خوب ہے کہ ایک علاقے میں واقعہ ہوتاہے ،واقعے میں سی ٹی ڈی اہلکار بچوں کو اٹھائے پھرتے ہیں اور شناخت میں نہیں آتے ہیں اگربچے ان کو کسی وجہ سے شناخت نہیں کر پارہے ہیں تو انتظامیہ اور ساہیوال کے ذمہ داران تو جانتے ہیں کہ یہ کون لوگ ہیں،آخر تویہ سی ٹی ڈی کے اہلکار ہی تھے کوئی غیر مرئی مخلوق تو نہ تھی جو پہچان میں نہ آرہی ہویا انسان اُن تک پہنچ نہ سکتاہو،کیا عجیب بات ہے کہ اُن کو بری کردیا گیا،بجائے اس کے کہ عدلیہ کی طرف سے کہا جاتا کہ آخر تو کوئی ہے جو اس سانحہ کا ذمہ دار،اُس کا فوری تعین کرکے عدالت کو بتایا جائے کہ اصل مجرمان کون تھے؟؟؟،یہ کیس عدلیہ کے لیے ایک ٹیسٹ کیس تھا ، حکومتی دعویٰ تھا کہ ملزمان کو منطقی انجام تک پہنچاکرہی دم لیں گے اور مظلوم فیملی کو انصاف ضرور ملے گا مگر کیا ہے کہ ملزمان کو چھوڑدیاگیا،سب کچھ جانتے بوجھتے بھی کہ اس واقعے میں سی ٹی ڈی اہلکار ملوث تھے مگرمحض شناخت نہ ہونے پرچھوڑ دیا گیا۔میرا عدلیہ سے کہنا ہے کہ اگر مجرم شک کا فائدہ دیتے ہوئے چھوڑنا ہی مقصود تھا تو یہ بھی کہنا بنتاتھاکہ اصل مجرمان کا تعین کرکے رپورٹ پیش کی جائے،ملزمان بچ نہیں سکتے،میراصرف یہ کہناہے کہ مجرمان کو چھوڑتے وقت ایک بار ضرور سوچا ہوتا کہ اگر یہ مجرم نہیں توپھر مجرم کون ہے،یہ تو کسی طور بھی نہیں ہوسکتا کہ اس سانحے کا مجرم سرے سے کوئی ہے ہی نہیں،کیا ایسا نہیں ہوسکتاکہ اصل مجرم سائیڈ پر کردئیے گئے ہوں اور عدلیہ کی آنکھوں میں دھول جھونک دی گئی ہو،یہ کیسا فیصلہ ہے کہ مجرمان کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے چھوڑ دیاگیااور اصل مجرمان کا تعین بھی نہیں کیاگیا،یہ فیصلہ کسی بھی طرح انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتا نظر نہیں آتا،آخر چار قیمتی جانیں ناحق ضائع ہوئیں،آخر تو ان کا کوئی ذمہ دار ہے وہ کون ہے ،اُس کا تعین کیے بغیر انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوتے اور مجرمان کاتعین کیے بغیر اس کیس کو بند کرنا ناانصافی والی بات اورانصاف واعتماد کا خون ہے،فرض کرواگر سانحہ ساہیوال کے مجرمان سی ٹی ڈی والے نہیں ہیں توکیا یہ واقعہ راجن پور کے اتھرے ڈاکوؤوں نے کیا ہے ؟ملتان روڈ سڑک کنارے سفیدے کے درختوں کے ساتھ لوٹنے کی غرض سے لوگوں کو سرشام باندھنے والے چور اچکوں کی کارستانیوں کا نتیجہ ہے کیا؟کیا یہ گولیاں کسی بدنام زمانہ گینگ نے ماری تھیں؟یہ جو بچوں کو اٹھائے پھر رہے تھے کوئی اور ہی مخلوق تھے کیا؟جو بچوں سے کسی وجہ سے شناخت نہیں ہوئے تو انہیں انتظامیہ بھی سامنے لانے سے قاصر ہے ،جنہیں کھوجنے سے ہماری نامی گرامی انٹیلی جنس ایجنسیاں بھی ہاتھ اٹھاچکی ہیں اور عدلیہ نے بھی شناخت نہ ہونے پر مجرمان کو بری کرنے میں ہی عافیت جانی جو مختلف قسم کے مختلف کیسوں میں بال کی کھال اتارتی ہیں نے بھی ریاستی وانتظامی نااہلی وبد انتظامی کے بعد عدالتی سطح پراپنی بے بسی دکھاتے حالت مجبوری میں شناخت نہ ہونے پر شک کا فائدہ دیتے ہوئے تمام ملزمان چھوڑدئیے یہ سوچے بناء کہ آخر کوئی تو ہے جو چار قیمتی جانوں کے ضیاع میں ملوث ہے جس کا تعین ہونا ضروری ہے یہ کیسا فیصلہ ہے یہ کہاں کا انصاف ہے کہ جسے نہ دل مانتاہے اور نہ دماغ تسلیم کرتا ہے ملزمان کا تعین نہ کرنا عدلیہ کی اہلیت پر ایک سوالیہ نشان ہے، ملزمان کا تعین نہ ہونا تحریک انصاف کی حکومت کی نااہلی وناکامی ہے یا جان بوجھ کر اس کیس پر پردہ ڈالنے کی ایک کوشش۔سانحہ ساہیوال میں چار قیمتی جانیں ضائع ہوگئی اور ملزمان کا تعین بھی نہ ہوسکااور جو پکڑے تھے ،وہ باعزت بری ہوگئے،یہ کیسا انصاف اور کس طرح کاقانون ہے ،یہ لولا لنگڑاانصاف اور اندھا قانون ہے۔
 

A R Tariq
About the Author: A R Tariq Read More Articles by A R Tariq: 65 Articles with 54667 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.