دور جدید اور فہم دین

اور یہ کچھ ضروری نہ تھا کہ اہل ایمان سارے کے سارے ہی نکل کھڑے ہوتے ، مگر ایسا کیوں نہ ہوا کہ ان کی آبادی کے ہر حصے میں سے کچھ لوگ نکل کر آتے اور دین کی سمجھ پیدا کرتے اور واپس جاکر اپنے علاقے کے باشندوں کو خبردار کرتے تاکہ وہ (غیر مسلمانہ روش سے) پرہیز کرتے---------التوبہ ۱۲۲----

تفہیم القران
مولانا لکھتے ہیں کہ یتفقھو فی الدین کا مطلب ہے کہ دین کو سمجھ کے اس قابل ہو جانا کہ فکر و عمل کے ہر گوشے اور زندگی کے ہر شعبے میں انسان یہ جان سکے کہ کونسا طریق فکر اور کونسا طرز عمل روح دین کے مطابق ہے-

حکم دیا گیا کہ ہر گروہ میں سے ایک جماعت جہاد کے لیے نکلے اور بقیہ لوگ مدینہ میں رہ کے دین سیکھیں تاکہ وہ علم دین سے کٹ نہ جائیں جو کہ زیادہ بڑا جہاد ہے کیوں کہ دلائل کے ذریعے جہاد کی تاثیر ہتھیاروں کے جہاد سے بہت زیادہ ہے- یہ مذہب اور سیاست کی تفریق نہیں ہے بلکہ دائرہ عمل کی تقسیم ہے جو شریعت کے مزاج کے عین مطابق ہے-یہ علم کی طاقت سے جہاد کرنا ہے- علم کے شعبوں میں محنت کے لیے ٹھہرنا کوئی بری بات نہیں ہے-گویا اہل علم اور اہل سیاست کے دائرہ کار کو الگ کردیا گیا ہے- دونوں کی صلاحیتوں میں فرق ہے ، کچھ لوگ حکومت کے لیے زیادہ موزوں ہوتے ہیں- اسی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر کو امیر مقرر کرنے کا اشارہ دیا اور حضرت ابو ذر غفاری، ابوہریرہ، اور حسان بن ثابت کو مشورہ دیا کہ وہ حکومتی عہدہ قبول نہ کریں-رسول کی اس ہدایت نے امت کے لیے مستقبل کا لائحہ عمل متعین کردیا-اس تقسیم کار کی وجہ سے وہ عظیم علمی اور دعوتی تاریخ بنی جو آج ہمارا نہایت قیمتی اثاثہ ہے-

قدیم دور میں انسان کی مظاہر فطرت کی پرستش کے مزاج نے فطرت کو معبود کا درجہ دے رکھا تھا- یہ مزاج فطرت کی تحقیق و تسخیر میں مستقل رکاوٹ تھا- اسلام نے توحید کی بنیاد پہ فکری انقلاب برپا کر کے سائنسی ترقی کا دروازہ کھولا-اس طرح جدید سائنسی دور کے آغاز کرنے کا سہرا اسلام کے سر بندھا- لیکن اس سائنسی دور کے تکمیل کا سہرا اسلام کے سر نہیں بندھا- اگر اس وقت کے مسلم رہنماء اس حقیقت کو سمجھتے اور مثبت اقدام کرتے تو زوال اسپین کے بعد جو علماء بھاگ کے مغربی یورپ گئے وہ مسلم دنیا کا رخ کرتے اور اس انقلاب کا تسلسل یورپ کے بجائے مسلم دنیا میں جاری رہتا- اسی قسم کا عمل جرمنی کی شکست کے بعد بھی ہوا، اور جرمنوں کے ایجاد کیے ہوئی کئی انتہائی اہم ہتھیار جیسے ایٹم بم، میزائیل اور آبدوز وغیرہ کا علم جرمن سائنسدانوں کے ساتھ امریکہ پہنچ گیا – یہ بات الگ ہے کہ مسلم دنیا کے برخلاف جرمنی اپنی محنت، جذبے اور لگن سے دوبارہ سائنس اور ٹیکنالوجی میں عروج کو پہنچ گیا- جبکہ یہ المیہ ہے کہ مسلم دنیا کا سائنسی اور اخلاقی انحطاط مسلسل ابھی تک جاری ہے-

موجودہ دور ایک بہت اعلیٰ پیمانے کا سائنسی دور ہے جو معلوم دنیا کی تاریخ میں سب سے اچھوتا اور مختلف ہے-اس زمانے کی قوت علوم(سائنس) میں پوشیدہ ہے جبکہ فنون اس کی ثانوی پیداوار کا درجہ رکھتے ہیں جبکہ تکنیک انہی علوم سے اخذ شدہ تجرباتی و عملی ماحصل ہے اور اسی ماحصل نے مغربی دنیا کو ترقی و حاکمیت کی معراج پہ پہنچا دیا ہے- پچھلے سو سال میں علمک اور تکنیک نے انتہائی سرعت کے ساتھ ترقی کی منازل طے کی ہیں-اس کی وجہ ایک نہایت ایمانداری پر مبنی نظام تعلیم و تدریس ہے جو ہر خاص و عام کی دسترس میں ہے، جبکہ نظام تحقیق و تدوین پر بہت فیاضی سے اخراجات برداشت کیے جاتے ہیں- ان علوم میں مہارت اس دور کی قطعی ضرورت ہے جس میں کسی بہانے یا لیت و لعل کی گنجائش نہیں ہے- مسلم علما و فقہا کا ان علوم سے واقف ہونا لا محالہ ضروری ہے ، نیز جدید علوم و تکنیک کے مسلم ماہرین اور مسلم شریعت و فقہ کے علما کے درمیان جو خلیج بڑھتی جا رہی ہے اس کو کم کرنے کی کوئی تدبیر ہونی چاہیے تاکہ فہم دین میں جس جدت کا یہ دور متقاضی ہے وہ پیدا کی جاسکے-نیز ان جدید علوم کے ماہرین کو شافی اور اطمینان بخش جوابات دیے جا سکیں جو دین و مذہب سے شاکی ہیں یا اس پہ معترض ہیں- ایک خوشحال اور اختلافات سے پاک اسلامی معاشرہ اور حکومت کے لیے یہی اساس ہے-

تاریخ سے ایک مثال:
دوسری سے چوتھی صدی ہجری تک مسلمانوں مملکت ایسے ہی دور سے کامیابی سے گزر چکی ہے-مسلمان علما کی بروقت جدید علوم کو سیکھ کر عقلی و سائنسی اعتراضات کے جوابات مرتب کرنے سے نہ صرف مسلمان مستفید ہوئے بلکہ بہت سے مناظروں اور مباحثوں میں غیر مسلم ، عیسائی اور یہودی معترضین کو بھی دلیل سے شکست دی گئی- اسلامی حکومت کی سرپرستی میں اس دور کی کی جدید ترین جامعہ " مدینتہ الحکمت" قائم کی گئی، اس کا ایک بہت اہم شعبہ ، دارلترجمہ تھا جس میں تقریباً تین ہزار مترجمین ملازم رکھے گئے جنہوں نے لاطینی، یونانی، اور ہندی کے علاوہ مختلف زبانوں سے اس دور کے تمام علوم عربی میں منتقل کیے-اس دور کے تمام علما اس سے مستفید ہوئے- اس جدید علم سے لیس ہو کر علما نے ایک ایسا علم کا دفتر تخلیق کیا اور آئیندہ نسلوں کے لیے پیچھے چھوڑا جس سے آج تک فیض اٹھایا جا رہا ہے- اس تجدید سے مسلمانوں میں سائنس کی ترقی کی راہیں بھی کھلیں، مسلم سائنسدانوں نے بہت سی ایجادات کیں ، سائنسی نظریات و پیمائش کے آلات ایجاد کیے- موجودہ سائنس اسی کی مرہون منت ہے-الخوارزمی، البیرونی، جابر بن حیان وغیرہ کے ناموں سے کون واقف نہیں- اس زمانے کی ناپی ہوئی زمین کی پیمائش یعنی زمین کے قطر کی پیمائش میں اور آج کی جدید آلات کی پیمائش میں کوئی خاص زیادہ فرق نہیں ہے- اسی دور کے علما میں امام رازی رحمتہ اللہ علیہ بھی تھے-آپ نے نہ صرف غیر مسلم بلکہ اس دور کے مسلم علما کو بھی ، جن میں معتزلہ اور اشاعرہ فرقہ کے علما بھی شامل تھے، عقلی اور جدید علوم پہ مبنی علم سے شافی و کافی جوابات دیَے- ان کی تفسیر کبیر اس زمانے کی جدید سائنسی تفسیروں پر مبنی ہے- ان کی تفسیر سے دلیل کی اس مثال سے ان کی منطقی اور سائنسی سوچ اور علم کا اندازہ ہوتا ہے:-

- امام صاحب کے زمانے میں بعض لوگوں نے یہ اعتراض کیا کہ امام صاحب نے تفسیر میں حکماء اور فلاسفہ کے اقوال اس کثرت سے شامل کر دیے ہیں کہ وہ بجائے تفسیر کے علوم عقلیہ (سائنس) کی کتاب بن گئی ہے !

اس کے جواب میں وہ تفسیر کبیر میں الاعراف آیت ۵۴ " بے شک تمہارا خدا وہی اللہ ہے جس نے آسمان و زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا" کی تفسیرکرتے ہوئے ایک جگہ لکھتے ہیں کہ
وربما جاء بعض الجہا ل و الحمقا وقال انک اکثرت فی تفسر کتاب اللہ من علم الہیئۃ والنجوم و ذالک علی خلاف المعتاد
کچھ جاہل واحمق میرے پاس آکے کہنے لگے کہ آپ نے کتاب اللہ کی تفسیر میں علم ہیئت ونجوم کا ذکر بہ کثرت کیا ہے اور یہ خلاف عادت ہے-

"اسکے جواب میں وہ فرماتے ہیں کہ اگر معترض اللہ کی کتاب کو بغور پڑھے تو اس پر خود اس اعتراض کی خرابی اور لغویت اچھی طرح واضح ہو جائے گی- پھر انہوں نے اسکا جواب اس طرح دیا:
1۔ اللہ تعالیٰ نے بار بار کے اعادے اور تکرار کے ساتھ اپنے علم،قدرت اور حکمت پر آسمان اور زمین کی بناوٹ،رات دن کی آمدورفت،روشنی اور تاریکی کی کیفیت،چاند سورج ستاروں کے حالات سے استدلال کیا ہے ، اس لیے اگر ان کے حالات پر غوروفکر کرنا اور ان پر بحث کرنا جائز نہ ہوتا تو اپنی کتاب کو ان سے کیوں بھر دیتا۔
2۔ اللہ تعالیٰ نے غوروفکر کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا
افلم ینظرو االسّماء فوقھم کیف بنیناھا و زّینّاھا ومالھا من فروج ہ--- ق/۶
یہ لوگ اپنے اوپر آسمان کو کیوں نہیں د یکھتے کہ ھم نے اس کو کیونکر بنایا اور اس کو کیونکر سنوارا ہے اور اس کے اندر کوئی رخنہ نہیں ہے-

علم ہیئت کے اس کے علاوہ اور کیا معنی ہیں کہ اللہ نے آسمانوں کو کیونکر بنایا۔

3۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا انسانوں کے پیدا کرنے سے زیادہ عظیم الشان کام ہے ، اس سے معلوم ہوا کہ تخلیق وابداع کے عجائبات ، اجرام سماویہ میں انسانوں کے اجسام سے زیادہ اور مکمل تر ہیں ،لیکن اس کے ساتھ ساتھ خدا نے اجسام انسانی میں غوروفکر کرنے کی ترغیب دی ہے، اس بنا پر جو چیز از روئے استدلال اس سے اعلیٰ اور عظیم تر ہوگی ، اس کے حالات پر غور کرنا اور اس کے عجائبات کا جاننا اور بھی زیادہ ضروری ہو گا-
4- اگر غورواستدلال ممنوع ہوتا تو خدا یہ کیوں کہتا
و یتفکّرون فی خلق السّماوات و الارض ربّنا ما خلقت ھذا با طلا -----آل عمران--۱۹۱
اور آسمان و زمین کی خلقت پہ غور کرتے رہتے ہیں( اور کہہ اٹھتے ہیں کہ) اے ہمارے رب تو نے یہ کارخانہ بے مقصد نہیں پیدا کیا-

یہ تھا رازی رحمتہ اللہ کا طرز استدلال-

اس سے آگے چلیں تو ماضی قریب میں محض ۵۰ سال پہلے تفہیمات حصہ سوم میں کام کے طریقہ کار کے سلسلے میں مولانا رقمطراز ہیں: "اسوقت کام کا اصل موقعہ ان لوگوں کے لیے ہے جنہوں نے ایک طرف مغربی طرز کی تعلیم پائی ہے اور دوسری طرف جن کے دلوں میں خدا اور رسول صلی اللہ و علیہ وسلم اور قرآن اور آخرت پر ایمان محفوظ ہے-قدیم طرز کی دینی تعلیم پائے ہوئے لوگ اخلاقی اور روحانی اعتبار سے سےاور علم دین کے لحاظ سے ان کے بہترین مددگار بن سکتے ہیں، مگر بدقسمتی سے وہ ان صلاحیتوں کے حامل نہیں ہیں جو قیادت اور زمام کار سنبھالنے کے لیے درکار ہیں – یہ صلاحیتیں صرف مقدم الذکر گروہ ہی میں پائی جاتی ہیں اور ضرورت ہے کہ یہی گروہ آگے بڑھ کر کام کرے-"

اسی نہج پر آج کے دور میں پھر تجدید کی ضرورت ہے-آج کسی دارالترجمہ کی ضرورت نہیں ہے، انگریزی سب سیکھ سکتے ہیں بلکہ زیادہ تر جانتے ہیں- صرف پڑھنے کی ضرورت ہے- خاص طور پر مسلم عالم دین کو جدید نظریات اور سائنسی علوم سیکھنے کی سخت ضرورت ہے- یہ آواز وقت ہے-
Tariq Zafar Khan
About the Author: Tariq Zafar Khan Read More Articles by Tariq Zafar Khan: 25 Articles with 46893 views I am a passionate free lance writer. Science , technolgy and religion are my topics. Ihave a Master degree in applied physics. I have a 35 + years exp.. View More