حضرت ابو مالک اشعری سے روایت ہے
فرمایا نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ صفائی نصف ایمان ہے اور سبحان
اللہ کہنا میزان کو بھر دیتا ہے اور سبحان اللہ اور الحمد للہ بھرنے والے
ہیں یعنی زمین وآسمان کا درمیانی خلا نیکیوں سے بھر دیتے ہیں اور نماز نور
ہے،صدقہ یعنی نیکی دلیل اور حجت ہے،صبر روشنی ہے اور قرآن حجت ہے تمہارے
لئے یا تمہارے اوپر۔ اور لوگ اس حال میں صبح وشام کرتے ہیں کہ یا تو اپنی
جانوں کو آزاد کرانے والے ہوتے ہیں یا پھر انہیں ہلاکت میں ڈالنے والے ہوتے
ہیں۔(رواہ مسلم)
مفہوم۔۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ صفائی نصف ایمان ہے یعنی
ظاہری و باطنی صفائی ایمان کا نصف ہے، ظاہری صفائی سے مراد انسان کا جسم ،کپڑے
اور جگہ وغیرہ گندگی سے پاک ہو اور باطنی صفائی سے مراد دل کفر وشرک ،نفاق،عداوت،نفرت
بغض اور کینہ وغیرہ سے پاک وصاف ہو۔ اور الحمدللہ کہنا میزان کو بھر دیتا
ہے یعنی روز قیامت جب اعمال کا وزن ہوگا تو جس شخص نے اسکا ورد کیا ہوگا تو
اس کے ثواب سے میزان وزنی ہو جائے گی۔اور سبحان اللہ اور الحمدللہ کہنے کا
اتنا ثواب ہے کہ اس سے زمیں و آسمان کا درمیانی خلا نیکیوں سے پر ہوجاتا
ہے۔اور نماز نور ہے یعنی نماز پڑھنے والے کے چہرے سے نورانیت جھلکتی ہے اور
قبر نور سے بھر جاتی ہے۔اور صدقہ یعنی نیکی یا خیرات کرنا دلیل ہے نامہ
اعمال کو بہتر بنانے کیلئے ۔ اور صبر روشنی ہے یعنی صبر کرنے سے نور اور
اطمینان وسکون نصیب ہوتا ہے۔ اور قرآن حجت ہے تمہارے لئے یا تمہارے خلاف ،
اس سے مراد یہ ہے کہ اگر قرآن صحیح پڑھا جائے گا اور اسکی تعلیمات پر عمل
کیا جائے گا، تو یہ روز قیامت اللہ کے حضور انسان کی شفاعت کرے گا اور اگر
قرآن صحیح نہیں پڑھا اور کسی ماہر قرآن سے سیکھا نہیں تو یہ انسان کیلئے
وبال جان ہے اور ا س سے گناہ ہوگا ۔ اور لوگ اس حال میں صبح و شام کرتے ہیں
کہ یا تو نیکیاں کر کے اور اپنے حقوق ادا کر کے اپنے آپ کو عذاب و سختی سے
آزاد کرانے والے ہوتے ہیں یا پھر اللہ کی نافرمانی کر کے اسے ہلاکت میں
ڈالنے والے ہوتے ہیں۔ بہرحال اس حدیث شریف سے نیکیاں کرنے،صفائی، قرآن پاک
کی تلاوت اور اپنے ذمہ حقو ق ادا کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔
islamicinfo.com.pk |