نایاب جیلانی
علم،عالم اور عمل ان کا بنیادی طور پر بہت گہرا ربط ہے۔نبی کریمﷺ کی بعثت
کا مقصد ہی یہ بتاتا ہے کہ آپ لوگوں کو کتاب کی تعلیم دیں۔انہیں علم و حکمت
سکھائیں۔ان کے نفوس کو پاکیزہ بنائیں۔انسانوں کی تعلیم و تربیت ہی بعثت
نبوی کا مقصد ہے۔
خود معلم انسانیت فرماتے ہیں۔
’’ بے شک میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں۔‘‘
نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے کہ نبیوں کے وارث علماء ہیں۔جو علم کی تلاش میں
نکلتا ہے وہ واپس آنے تک اﷲ تعالیٰ کی راہ کا مسافر ہوتا ہے۔اسلامی نظریہ
تعلیم نے حروف شناسی یا معلومات کے جمع کرنے کو تعلیم کا نام نہیں دیا۔بلکہ
اسلامی نظریہ تعلیم میں بھلائی اور برائی کی تمیز کا نام تعلیم ہے۔کائنات
کیا چیز ہے؟ اس کا خالق کون ہے؟ یعنی خدا کی ذات و صفات کی معرفت،انسان کی
کائنات میں حثیت و مرتبہ،انسان کی ذمہ داریاں،اس کے حقوق اور اس کی زندگی
کا مقصد کیا ہے۔اس سے واقفیت دلانا تعلیم ہے۔اسلامی نظریہ تعلیم میں بے
مقصد اور بے نفع تعلیم نہیں ہے۔اسلام با مقصد تعلیم پر ذور دیتا ہے۔جو
انسان کا کردار سنوارے ۔جو انسان کے لئے نافع ہو۔اسلامی تعلیم معرفت الہیٰ
اور خود آگاہی کا نام ہے۔
ہر انسان کی زندگی میں کوئی نہ کوئی رہبر،کوئی نہ کوئی رہنما ہوتا ہے جو اس
کی زندگی میں ایک قائد،ایک لیڈر کی حثیت رکھتا ہے۔وہی شخصیت اس انسان کی
آئیڈیل بھی ہوتی ہے۔انسان ابتدائی ارتقاء میں گیلی مٹی کی مانند ہوتے ہیں
اور پھر اس گیلی مٹی کو ہنرمند انسان گوندھ کر مختلف شکلوں کی صورت میں رنگ
روپ اور نقوش دیتے ہیں۔انسان بھی گیلی مٹی کی طرح ہے۔اب یہ اس کی خوش قسمتی
پر منحصر ہوتا ہے کہ اسے کاریگر کیسا ملتا ہے۔ایسا ہنر مند جو یا تو اسے
سانچے میں ڈھال کردنیا کو حیران کرنے والی شخصیت بنا دے گا یا پھر اس کی
اپنی شکل کو بھی مسخ کر دے گا۔انسان کی زندگی میں اتالیق کی بہت اہمیت
ہے۔یہ استاد ہے جس کے ہنرمند ہاتھ چکنی مٹی جیسے طالب علموں کو طرح طرح کے
شاہکار بنا کر پیش کرتے ہیں۔کوئی عالم بن جاتا ہے اور کوئی حافظ،کوئی ڈاکٹر
بن جاتا ہے تو کوئی انجینیر،کوئی مصنف تو کوئی مصور بن جاتا ہے۔
میری زندگی میں میری اتالیق کی بہت اہمیت ہے۔میں چاہوں بھی تو اپنی استاد
محترم کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے وہ الفاط نہیں لا سکتی جن کی وہ حقدار
ہیں۔میری استاد محترم میری بہترین رہنما ہیں۔ان کی صورت کی زیارت سے ہی
میری آدھی بیماری دور ہو جاتی ہے۔کیا ایسا ممکن ہے کہ آپ کے اساتذہ آپ کے
لئے باعث شفا ء ہوں؟
ایسا ممکن ہے۔اگر استاد کنیز فاطمہ الزہرہ چدھڑ جیسا شفیق اور حلیم ہو تو
کچھ بھی نا ممکن نہیں ہے۔میری خواہش تھی کہ میں اپنے ابتدائی دور کے اساتذہ
کے لئے کچھ لکھوں۔ان کو خراج تحسین پیش کروں۔ان کو بتا سکوں کہ جس پتھر کو
تراش کر انہوں نے الماس بنایا ہے۔وہ زیورات بنانے میں نہیں ذہن سازی کے لئے
استعمال ہو رہا ہے۔موجودہ دور میں نہ تو استاد اپنے احترام کو بحال رکھ پا
رہے ہیں اور نہ ہی شاگرد ان کو اتالیق کی سی عزت اور احترام دیتا ہے۔اس دور
میں جب استاد اور شاگرد کا رشتہ آلودہ ہو رہا ہے۔میرا دل چاہا کہ میں اپنے
اتالیق کے لئے کچھ لکھوں اور بتا سکوں کہ اس دور میں بھی رہنما کس طرح سے
بھٹکے ہوئے کو راہ دکھا رہے ہیں۔ہمارے رہبر ایسے نہیں کہ دینوی اور دنیاوی
رہنمائی کے اہل نہ ہوں۔دراصل ہم نے استاد اور شاگرد کے مقام میں تفریق چھوڑ
دی ہے۔استاد اپنے مقام سے اتر کر جب شاگرد کے برابر آجاے گا تو استاد اور
شاگرد کا رشتہ قائم نہیں رہ سکے گا۔اس لئے استاد کو چاہیے کہ وہ اپنے اور
شاگرد کے درمیان فاصلہ رکھے۔اپنے احترام کو اس پر واضح کرے اور بلاوجہ بے
تکلفی کی فضا اور ماحول پیدا نہ کرے۔
کچھ سال پیچھے چلی جاؤں تو خوب صورت ماضی بچپن اور لڑکپن کی حدود میں لے
جاتا ہے۔اس وقت جب آپ کو دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینوی تعلیم کے لئے بھی
رہنما کی ضرورت ہوتی ہے۔سو میرے لئے میری والدہ نے محترمہ کنیز فاطمہ
الزہرہ چدھڑ کو منتخب کیا تھا۔ان کو یقین تھا کہ میری استاد میری دینوی
تعلیم کے ساتھ ساتھ اخلاقی تربیت بھی پوری ایمانداری کے ساتھ کریں گی۔یہ وہ
وقت تھا جب ہماری استاد محترم جن کو ہم سب خالہ جی کہتے تھے کے پاس پورے
علاقے کے بچے قرآن کی تعلیم حاصل کرنے آتے تھے۔ان کے وسیع و عریض گھر کے
ایک کونے میں مسجد تھی۔جس میں بچے دو وقت قرآن پاک پڑھنے آتے تھے۔ایک
خوبصورت سرخ و سفید رنگت والی عالیشان خاتون جن کے چہرے پر تمکنت اور وقار
جھلکتا تھا۔جن کی بڑی بڑی آنکھوں میں ذہانت تھی۔جن کے انداز بیان کی کوئی
نظیر نہیں ملتی تھی۔عربی،فارسی،اردو اور انگریزی پر مکمل عبور حاصل ہونے کی
وجہ سے وہ کسی بھی موضوع پر گفتگو میں کمال رکھتی تھیں۔ایسی شاندار شخصیت
کے ساتھ ساتھ ان کا مزاج متحمل تھا۔مگر شخصیت کا رعب انہیں غصہ ور ثابت
کرتا تھا۔انہیں فارسی اور عربی میں بہت سے شعر زبانی یاد تھے اور بڑی
خوبصورت نظمیں لکھا کرتی تھیں۔
ان کی پوری زندگی ایک مثال ہے۔جوانی میں بیوگی کے بعد ان کی پوری توجہ اپنی
چار بیٹیوں اور دو بیٹوں کیطرف تھی۔ان کی خواہش تھی کہ ان کا بیٹا حافظ
قرآن بنے اور دین کے علم میں سر بلندی اختیار کرے۔اس ضمن میں انہوں نے اپنی
ساری صلاحیتوں کو آزما ڈالا۔یہ وہ وقت تھا جب ان کی بیٹیاں مختلف ہاسٹلز
میں زیرتعلیم گھر سے دور تھیں۔وہ کبھی بیٹیوں کی خبر گیری کرنے سرگودھا
جاتیں اور کبھی بیٹے کی خبر گیری کرنے اس کے جامعہ میں۔ایک طویل جہد کے بعد
ان کا خواب شرمندہ تعبیر ہو گیا۔اپنے خاندان کا تیسرا حافظ ان کا بیٹا بن
چکا تھا۔اس سے پہلے ان کی بڑی صاحبزادی بھی حافظہ قرآن تھیں اور وہ خود بھی
حافظہ قرآن تھیں۔مجھے یاد ہے وہ گھر کے چھوٹے موٹے کام نبٹاتے ہماری منزل
سن رہی ہوتیں۔اگر ہم سبق میں ڈنڈی مارنے کی کوشش کرتے۔ان کو مصروف پا کرایک
دو صفحہ آگے کر دیتے یا آیتیں چھوڑ کر منزل پڑھنے کی کوشش کرتے تو ان کی
جلالی آواز سن کر ہمارے حواس گم ہو جاتے تھے۔وہ شد مد اور زیر زبر کی غلطی
دور سے پکڑنے والی بھلا اس طرح جانے دے سکتی تھی۔مجھے یاد ہے قرآن کے بعد
ہماری اخلاقی تربیت کا پیریڈ بھی ہوا کرتا تھا۔جس میں ہمیں اپنے والدین سے
حسن سلوک کی ترغیب دی جاتی تھی۔ہمیں عصر کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھائی
جاتی۔کلمے یاد کروائے جاتے اور پھر کھیلنے کے لئے بھی وقت دیا جاتا۔ہم میں
سے اگر کسی کو خالہ جی کسی کام کے لئے بلاتیں تو اسے بھی ایک اعزاز سمجھا
جاتا۔
وہ بہترین مقررہ تھیں۔بہترین مبلغ تھیں۔مجمع میں بولتیں تو سکوت طاری ہو
جاتا۔انہیں ہر موضوع پر ملکہ حاصل تھا۔میں نے اپنی پوری زندگی میں انہیں
نماز،قرآن کے ساتھ دیکھا ہے۔ان کا رشتہ اپنے رب اور قرآن کے ساتھ اتنا
مضبوط تھا کہ لوگ ان پر رشک کرتے تھے۔دین اور دنیا کو ایک ساتھ لے کر چلنا
ہر ایک کے اختیار میں نہیں ہوتا۔انہوں نے اپنی پوری زندگی دین کی تبلیغ میں
وقف کر دی۔وہ ایک بڑی جماعت کے ساتھ منسلک تھیں اور ہمیشہ ملکی اور غیر
ملکی تبلیغی دوروں پر جانے کو فوقیت دیتی تھیں۔یہاں تک کہ گھر میں کوئی
خیرات لینے کے لئے کوئی فقیر،سوالی یا مانگنے والا آتا تو اس سے کلمہ
سنتیں،پھر کلمے میں درستگی کرتیں۔ہر محفل کے اختتام پر اﷲ کا ذکر کرتیں اور
پھر محفل برخاست کرنے کا حکم دیا جاتا۔وہ ایک شفیق استاد اور بہترین رہنما
تھیں۔ان کے بے شمار شاگرد ہیں جو اس وقت مختلف شعبوں میں نام پیدا کر رہے
ہیں۔کوئی ڈاکٹر ہے کوئی ٹیچر،کوئی مصور اور کوئی مصنف۔جب بھی ہماری استاد
محترم کا ذکر ہوتا ہے۔وہ ذکر ایک خوشبو ایک مقدس احساس بن جاتا ہے۔یہ میری
وہ استاد ہیں جن کی بیٹی میری بہترین دوست تھی۔جس کے کمرے میں بیٹھ کر
مستقبل کی پاپولر فکشن رائٹر نے اپنی زندگی کی پہلی کہانی لکھی تھی۔اس دن
ایک مستقبل کے مصنف کے کیرئیر کا آغاز ہوا تھا۔مجھے لگتا ہے مجھ پر اپنی
شفیق اتالیق کی محبتوں اور دعاؤں کا سایہ ہے۔وہ اپنی ذات میں پوری درسگاہ
اور مکمل یونیورسٹی ہیں۔ہم نے ان سے زندگی کو مننظم کرنا سیکھا۔صبر کرنا
سیکھا اور قسمت پر شاکر رہنا سیکھا۔انہوں نے آگے بڑھنے اور علم سیکھنے میں
ہماری حوصلہ افزائی کی۔ہمارے کردار سنوارے اور ہمیں دنیا اور دین کا سب سے
بڑا علم سکھایا۔وہ اعلیٰ اخلاق اور بلند کردار کی حامل ہیں۔ان کی شخصیت
خوبصورتی اور پاکیزگی کا مرقع ہے۔اس کے ساتھ وہ کمال کی خوش لباس ہیں۔وہ
مجموعی طور پر ایسی شخصیت ہیں جن کی تقلید بہت سے لوگوں کی زندگیاں سنوار
سکتی ہے۔
ہر قوم معلم کے ذریعے ہی نئی نسل تک اپنی ثقافت،تجربات اور مشاہدات منتقل
کرتی ہے۔معلم نئی نسل تک نا صرف علم پہنچاتا ہے بلکہ ان کے کردار بھی
سنوارتا اور نکھارتا ہے۔اس اعتبار سے معلم ہی حقیقی معنوں میں قوم کا معمار
ہوتا ہے۔لیکن افسوس کہ آج کا معلم اپنی اعلیٰ قدریں فراموش کر چکا ہے۔اس
لئے آج کا طالب علم بھی اپنے معلم کا قدردان نہیں ہے۔
|