غلام، باندی یا کنیز آج کے دور میں! شرعی احکام کیا ؟

شرعاً باندیوں سے مراد وہ غیر مسلم عورتیں ہیں، جو جہاد کے بعد غنیمت میں حاصل ہوئی ہوں، (پھر خواہ گرفتاری کے بعد وہ اسلام قبول کرلیں تو بھی باندی رہ سکتی ہیں، لیکن پہلے سے مسلمان ہوں تو انہیں گرفتار کرکے باندی بنانا جائز نہیں ہے) ان گرفتار عورتوں کو یا تو مفت میں رہا کردیا جاتا ہے یا معاوضہ لے کر چھوڑ دیا جاتا ہے یا ان کے بدلے مسلمان قیدیوں کو دشمن کی قید سے چھڑا دیا جاتا ہے، لیکن اگر انہیں احسان کے طور پر آزاد کردینا ملکی مصلحت کے خلاف ہو اوروہ فدیہ بھی نہ ادا کریں اور قیدیوں سے تبادلہ کی بھی صورت نہ بن سکے تو پھر اسلامی علاقہ (یعنی دارالاسلام) میں لانے کے بعد خلیفہ وقت انہیں غازیوں میں تقسیم کردیتا ہے، اس تقسیم کی حکمت بھی ملکی اور تمدنی مصالح، معاشرے کی بہبود اور خود ان باندیوں کا تحفظ اور انہیں معاشرے کا ایک معزز رکن بناتا ہوتا ہے، تقسیم کے بعد آقا اگر اس باندی کا کسی سے نکاح کردے تو وہ اپنے مالک کے لیے حرام اور صرف اپنے شوہر کے لیے حلال ہوتی ہے اور اگر آقا چاہے تو اسے آزاد کرکے اس سے نکاح کرسکتا ہے یا بغیر نکاح کے محض استبراءِ رحم کرنے اس سے ازدواجی تعلق قائم کرسکتا ہے اور اگر اس تعلق کے نتیجے میں اولاد پیدا ہوگئی تو وہ باندی مالک کے مرنے کے بعد خود بخود آزاد ہوجاتی ہے۔

غلام وباندی کا دستور اسلام سے قبل قدیم زمانے سے چلا آرہا تھا اور ہر قوم میں یہ عادت پائی جاتی تھی، خواہ عیسائی ہوں یا یہودی، ہنود ہوں یا دیگر اقوام، اسی طرح عربوں میں یہ دستور کثرت سے رائج تھا، حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل غلام یا باندی بنانے کے مختلف طریقے لوگوں میں رائج تھے۔
اول: جنگی قیدیوں کو غلام یا باندی بنانے کا طریقہ۔
دوم: لوگ، فقر وفاقہ کے باعث یا قرض کے دباؤ میں آکر اپنے بچوں کو یا خود اپنے آپ کو کسی کے ہاتھ فروخت کر دیتے اور وہ ان کو اپنا غلام یا باندی بنا لیتے۔
سوم: کسی جرم کی پاداش یا قمار بازی میں ہارے جانے کی صورت میں لوگ غلام بنالیے جاتے تھے۔
چہارم: یوں بھی کسی کو چرا کر لے آتے اور زبردستی غلام یا باندی بنالیتے وغیرہ۔

آنحضرت صلی ﷲعلیہ وسلم نے غلامی کی ان تمام صورتوں کو سخت ناجائز اور موجبِ عذابِ الٰہی قرار دیا اور صرف ایک صورت کو باقی رکھا یعنی وہ کفار جو جنگ میں گرفتار کیے جائیں، مسلمان حاکم کو اختیار ہے کہ اگر مقتضائے مصلحت و سیاست بہتر سمجھے تو ان کفار قیدیوں کو غلام/باندی بنالے۔ اور جو افراد پہلے سے غلامی کی زنجیر میں ہوں، انہیں بھی مختلف کفارات میں آزاد کرنے کے احکام قرآنِ مجید اور احادیثِ نبویہ میں آئے ہیں۔ احادیثِ مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ غلامی درحقیقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب اور سزا کی ایک صورت ہے، جو کفر کی جزا کے طور پر پچھلی امتوں میں جاری کی گئی، اور مسلمانوں کے لیے بھی کسی کو ابتداءً غلام بنانے کی اجازت اسی حالت میں باقی رکھی گئی کہ جو کافر اسلام کے مقابلے پر آجائیں تو ایسے حربی کافروں کو مخصوص احوال میں غلام بنانے کی اجازت دی گئی۔ خلاصہ یہ ہے کہ دینِ اسلام میں ابتداءً غلام بنانے کا حکم یا ترغیب نہیں ہے، بلکہ مخصوص احوال میں اس کی گنجائش دی ہے، جو اجازت کے درجے میں ہے۔

چوں کہ غلام بنانا اسلام میں بطورِ حکم نہیں، بلکہ بطورِ اجازت ہے تو مسلمانوں کو اس بات کی اجازت ہے کہ جب وہ قرینِ مصلحت سمجھیں، غلام بنانے کا سلسلہ موقوف رکھیں، موجودہ دور میں اقوامِ متحدہ کی سطح پر تمام رکن ممالک کے مابین غلامی کا سلسلہ موقوف کرنے کا معاہدہ ہوچکا ہے، اس لیے اس دور میں مسلمانوں نے بھی یہ سلسلہ بالکل موقوف کردیا ہے، لہٰذا جو ممالک اس معاہدے میں شامل ہیں، انہیں معاہدے کی رو سے اس کی پاس داری کرنی لازم ہے۔

لہٰذا موجودہ دور میں کسی عورت کو باندی یا لونڈی نہیں بنایا جاسکتا، اس لیے کہ غلام/باندی بنانے کی اجازت جن صورتوں میں ہے: یہ ان میں داخل نہیں ہے، اس کے لیے جو شرائط ہیں کہ شرعی جہاد ہو ، امام المسلمین کی رائے ہو اور مسلمانوں اور غیر مسلموں میں کوئی ایسا معاہدہ نہ ہو جس کی رو سے ایک دوسرے کے قیدیوں کو غلام نہ بنایا جاسکتا ہو وغیرہ وغیرہ ، موجودہ دور میں یہ شرائط مکمل نہیں ہیں، اس لیے کسی عورت کو باندی بنانا جائز نہیں ہے۔
(ماخوذ از بنوری ٹاؤن ویب سائٹ)
 

Abrar Ahmed
About the Author: Abrar Ahmed Read More Articles by Abrar Ahmed: 6 Articles with 18298 views Nothing to else as alone in the lonely planet with over 6 billion people.. View More