عدن کہہ دو اس کو کے تم مجھ سے محبت کرتی ہو ۔۔۔۔۔ منیب
نے عدن کے منہ پر ہاتھ رکھ کر گھمبیر لہجے میں کہا ۔۔عارف تھوڑا دور تھا اس
کو سنائی نہیں دیا لیکن منیب کو عدن کے منہ پر ہاتھ رکھتا دیکھ چکا تھا
۔۔۔۔۔
شٹ اپ منیب ۔۔۔۔ غصے سے عدن کے گال تپ اٹھے تھے ۔
عدن کون ہے یہ ۔۔۔۔۔ عارف۔ نے منیب کو گھور کر دیکھا اورعدن سے پوچھنے لگا
۔۔۔۔۔
ع۔ ۔۔۔ع۔ ۔۔۔عار۔ ۔۔عارف ۔۔۔یہ ۔۔۔۔
میں عدن کا ۔۔۔۔۔۔
تیری تو ۔۔۔۔۔۔ ہمّت کیسے ہوئی عدن کا نام اپنے منہ سے لینے کی ۔۔۔۔ عارف
نے منیب کا گریبان پکڑ لیااور دور چار جھٹکے دیۓ ۔۔ ۔۔۔۔
چھوڑو عارف ۔۔۔۔ عدن نے عارف کو دھکا دیا ۔۔۔۔۔
تمہارے بابا کو سب کچھ بتاتا ہوں میں چلو تم گھر منیب کا گریبان چھوڑ کر
عارف نے عدن کی کلاٸ کو اپنے ہاتھ میں جکڑا اور پارکنگ ایریا کی طرف بڑھا
۔۔ ۔۔۔۔۔۔
منیب نے عارف کو دھکا دے کر عدن کی کلاٸ عارف کے ہاتھ سے چھڑواٸ ۔۔۔اور
تیزی سے عدن کا ہاتھ تھام کر گاڑی کی طرف لپکا ۔
منیب چھوڑو ی کیا کر رہے ہو ۔۔۔۔۔بابا مجھے جان سے مار دیں گے چھوڑو میرا
ہاتھ ۔۔۔عدن چیخنے لگی وہ منیب سے اپنا ہاتھ چھڑانے کی پوری کوشش کر رہی
تھی ۔۔۔۔۔۔۔
منیب نے پھرتی سے عدن کو گاڑی میں بٹھایا اور گاڑی بھگا کر لے گیا ۔۔۔۔
منیب ۔۔۔۔ عدن مسلسل اسٹیرنگ پر ہاتھ مار رہی تھی اور گاڑی رکوانے کی کوشش
کر رہی تھی ۔۔۔عدن کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے ۔۔۔منیب کو پہلی دفعہ عدن
کی آنکھوں میں اپنے لیۓ بے اعتباری نظر آٸ تھی ۔۔۔
عدن رونا بند کرو ۔۔نہیں تو یہ جو ٹرک آرہا ہے ۔۔میں اس میں گاڑی مار دوں
گا ۔۔۔تم جانتی ہو میں جو کہتا ہوں کر کے دکھاتا ہوں ۔۔۔منیب نے غصے سے عدن
کے ہاتھ اسٹیرنگ سے دور کیۓ اور بولا ۔۔۔
عدن نے بے دردی سے ہاتھ کی پشت سے گال رگڑ کر آنسو صاف کیۓ ۔۔۔
اور تھک ہار کر بری طرح نڈھال ہو کر سیٹ کی پشت سے سر ٹکا کر آنکھیں موند
لیں
۔
کیا ہوا بیٹا پریشان کیوں ہو ۔۔۔۔اور عدن کہاں گئ ۔۔۔۔ پھو پھو کو کچھ گڑ
بڑ کا احساس ہوا ۔۔تو ساکت کھڑے عادل کوجھنجھوڑ کر پوچھنے لگیں
ماما وہ چلی گئ۔ ۔۔۔۔۔۔ منیب کی گاڑی بہت دور تک جا چکی تھی ۔۔۔۔۔عارف جاتی
ہوئی گاڑی کو دیکھ رہا تھا
چلی گئ مگر کہاں چلی گئی ۔۔۔
پھوپھوکاوجود سناٹوں کی زد میں آگیا تھا۔۔۔۔
وہ وہ ۔۔گاڑی ۔۔پھوپھو نے عادل کو دیکھا ۔۔۔غصے کی شدت سے اس کے لفظ ڈگمگا
رہے تھے ۔۔وہ ٹھیک سے بول بھی نہیں پا رہا تھا ۔۔۔۔۔ اس میں کوئی لڑکا لے
گیا ماما عدن بھی جانتی تھی اس کو عدن جوس پینے نہیں آئ تھی وہ تو اس لڑکے
سے ملنے۔ آئ تھی ۔۔۔۔۔۔
چلو عدن کے گھر چلتے ہیں یہ تربیت کی ہے بھائی نے اس کی ۔۔۔۔۔شاپنگ پر
ہمارے ساتھ آئ اور چلی اپنے یار کے ساتھ گئی ۔۔۔۔۔ پھو پھو غصے سے تن فن کر
عادل کا ہاتھ پکڑ کر پارکنگ ایریا کی طرف بڑھ گٸیں ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
بھائی صاحب کہاں ہیں آپ ۔۔۔۔ بھائی صاحب ۔۔۔۔۔۔
کیا ہوا بھابھی سب خیریت تو ہے اتنی پریشان کیوں لگ رہی ہیں ۔۔غصے میں کیوں
ہیں ۔۔۔۔۔۔۔
عدن کی ماما بھا گتے ہوۓ آٸیں ۔۔۔ہٹو سامنے سے ۔۔۔مجھے بھاٸ سے بات کرنے دو
۔۔۔پھپھو نے نفرت سے اپنی بھابھی کو پرے ہٹایا ۔۔۔
پھوپھو عدن کہاں ہے .۔۔۔۔ زرنش نے پریشان ہو کر پوچھا ۔۔۔۔
۔ چلی گئی وہ کسی لڑکے کے ساتھ مجھے کہتی میرا بی پی لو ہورہا ہے میں جوس
پی لوں جا کر ۔۔۔۔۔
اور وہ کسی اور لڑکے کے ساتھ چلی گئ ۔۔۔۔۔
ہاں ماموں میں نے جب اس کو کہا نہیں جاؤ تو مجھے اس نے دھکا دے دیا ۔۔۔۔۔۔
بابا آپ کا فون آرہا ہے ۔۔۔۔۔میرب نے بابا کو فون لا کر دیا ۔۔۔۔
السلام عليكم! سر کیپٹن محمد غزان بات کر رہا ہوں کیپٹن کا نام سنتے ہی
عریب صاحب اپنے روم میں آگئے تھے ۔۔۔۔۔
جی بولو ۔۔۔عریب صاحب اتنی پریشانی میں تھے کہ سلام کا جواب دینا بھول گۓ
۔۔۔
کیپٹن نے جو بات انہیں بتاٸ تھی ۔۔وہ سن کر انہوں نے گہری سانس خارج کی
۔۔اور صرف اتنا ہی بولے
ہممم گڈ جاب کیپٹن ۔۔۔۔
لیکن سر۔ ۔۔۔کیپٹن کچھ اور کہنے ہی لگا تھا کہ عریب بولے ۔۔
تم ان کی فکر نہیں کرو میں۔ کچھ کرتا ہوں ۔۔۔۔۔
راجر سر ۔۔۔۔۔۔
کیپٹن نے کہا اور رابطہ منقطع کر دیا ۔۔۔
__،،،،
ہر طرف سکون ہی سکون تھا بارش کے بعد سوندھی سوندھی خوشبو سے دل کو ایک الگ
قسم کی طمانیت کا احساس ہو رہا تھا لیکن جب دل کا موسم خراب ہو ۔۔تو باہر
رونقیں جتنی بھی دلکش اور حسین ہوں ۔۔متاثر کبھی نہیں کرتیں ۔۔۔ ۔۔۔کہیں
سکون نہیں مل رہا تھا ۔۔۔ وہ کب سے کمرے میںٹہل رہی تھی جب تھک گئی تو بے
بسی سے بیڈ پر بیٹھ کر رونے لگی ۔۔۔۔۔ یا اللّه اب کیا ہو گا ۔۔۔۔ بابا مجھ
سے ناراض ہوں گے شاید جان سے مار دیں ۔۔۔۔۔۔ میرا تو کوئی قصور بھی نہیں ہے
۔۔۔ شاید میرا قصور ہے نہ میں جوس کا بہانہ کرتی نہ یہ سب ہوتا ۔۔۔۔ پر
۔۔۔۔پر ۔۔۔اگر منیب کو پھوپھو دیکھ لیتیں تو بھی قیامّت آجاتی ۔۔۔۔ ل۔۔۔۔ل۔
۔۔لیکن ۔۔ا۔ ۔۔اب بھی تو قیامت آگئی نہ ۔۔۔یا اللّه کچھ سمجھ نہیں آرہا ۔۔۔
یہ سب اس منیب کی وجہ سے ہوا ہے نفرت کرتی ہوں میں اس سے سارے لڑکے ایک
جیسے ہوتے ہیں ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔عدن خود سے ہی باتیں کر رہی تھی ۔۔۔۔
اوہ ہو تو لوگوں کو مجھ سے نفرت ہو گئی ہے ۔۔۔۔۔۔ منیب نے سن لیا تھا سب
۔۔۔۔۔
ہاں نفرت کرتی ہوں میں تم سے یہ سب تمہاری وجہ سے ہوا ہے ۔۔۔۔۔ عدن نے غصہ
میں منیب کا گریبان پکڑ لیا .۔۔۔۔۔
ارے ارے آرام سے محترمہ۔۔۔۔ بہت شوق ہو رہا ہے قریب آنے کا ۔۔عدن یکدم
پیچھے ہوگئی ۔۔ میں تو بہت شریف اور سیدھا سادا لڑکا ہوں ۔۔۔۔ منیب نے عدن
کی طرف چند قدم بڑھاۓ ۔اور اس طرح کھڑا ہو گیا کہ عدن اگر تھوڑی سی حرکت
بھی کرتی تو منیب سے ٹکرا جاتی ۔۔۔ ۔۔۔
تم۔ اور شریف نفرت کرتی ہوں تم سے میں۔۔۔عدن نے منیب کو دھکا دے کر پرے
ہٹایا ۔۔ پہلے میری زندگی میں عذاب کم تھا جو اور لے کر آگئے تم ۔۔۔۔۔ اور
دور رہو مجھ سے ۔۔۔۔مجھے گھر جانا ہے ۔۔۔۔۔
عدن کے رونے میں شدت آگٸ تھی ۔۔
تم اکیلی نہیں جاؤ گی میں چھوڑ کر آؤں گا .۔۔۔۔۔
اوہ ہیلو زیادہ ہیرو بننے کی ضرورت نہیں ہے ۔۔۔ پہلے ہی دماغ خراب کر رکھا
تم نے میں اکیلی ہی چلی جاؤں گی عدن روتے روتے کہنے لگی ۔۔۔۔۔
عدن میں نے کہہ دیا میں چھوڑ کر آؤں گا مطلب میں چھوڑ کر آؤں گا .۔۔۔۔
آرڈر تو ایسے دے رہے جیسے کوئی آرمی آفیسر ہو ۔۔۔۔۔۔
ہاہاہا تمہیں۔ کیا پتہ۔ کون ہوں میں جب پتہ چلے گا نہ تمہیں مجھ سے محبت
ہوجاۓ گی ۔۔۔۔۔ منیب نے عدن کو تنگ کیا ۔۔۔۔
مجھے جاننا بھی نہیں ہے کے تم کون ہو اور مجھے تم سے محبت نہیں نفرت ہے
۔۔۔۔۔
سوچ لو لڑکیاں مرتی ہیں مجھ پر ۔۔۔. جینا حرام جو کر دیا ہوگامیری طرح مریں
نہ تو کیا کریں ۔۔عدن استہزاٸیہ انداز میں ہنسی۔۔۔
جانے دو مجھے خدا کاواسطہ تمہیں ۔۔۔عدن کھلے دروازے سے باہر کی طرف لپکی
۔۔۔منیب نے عدن کا بازو تھاما اور بولا۔۔۔جاٶ گی تو میرے ساتھ نہیں تو
یہ جو سیکورٹی گارڈ ہیں نہ میری اجازت کے بغیر تمہیں کہیں جانے نہیں دیں گے
۔۔ اب گھر جانا ہے تو میرے ساتھ جانا پڑے گا ورنہ رہو یہاں پر تم۔
۔۔۔۔۔منیب نے گیٹ پر کھڑے چوکیداروں کی طرف اشارہ کیا ۔۔۔۔۔
عدن کے پاس کوئی اور آپشن بھی نہیں تھا خاموش ہوگئی سر جھکا لیا . .
تو میڈم چھوڑ کر آؤں پھر تمہارے ابا حضور کے پاس ۔۔۔۔
عدن نے بے بسی سے سر جھکا لیا تھا ۔۔۔آنکھوں میں خوف تھا کے اب سب کا سامنا
کیسے ہو گا ایک بار پھر کردار پر باتیں بنیں گی عدن کے ہاتھ کانپ رہے تھے
۔۔۔۔۔
منیب نے عدن کےکانپتے ہاتھ دیکھ کر مضبوطی سے پکڑ لئے ۔۔۔عدن لوگوں کا
مقابلہ کرنا سیکھو اپنے لئے لڑنا سیکھو ۔۔۔اپنے حق کے لئے لڑا کرو یوں
گھبرایا نہیں کرو ۔۔۔۔۔ڈرا صرف اللّه کی ذات سے کرو ۔۔۔۔۔
عدن نے منیب کو عجیب سی نظروں سے دیکھا ۔۔۔۔عجیب شخص ہے یہ ایک طرف میرے
خاندان والوں کے سامنے میرا تماشا بنا دیا مجھے ایک بار پھر میری ہی نظروں
میں گرا دیا ۔۔۔۔۔ایک بار پھر میری ذات کی دھجیاں بکھیر دیں ۔۔۔۔۔۔ایک بار
پھر ماما بابا کا مان ٹوٹ گیا ۔۔اس کی وجہ سے ۔۔۔میں زندہ کیوں ہوں ؟؟؟؟
مجھے تو مر جانا چاہئے ۔۔۔۔میں ماما بابا کی اچھی بیٹی نہیں بن سکی ۔نہ بن
سکوں گی میری ذات نے سواۓ دکھ کے علاوہ اور کچھ نہیں دیا ۔۔۔۔میں خود کو ہی
ختم کردوں گی ۔۔۔عدن کی آنکھوں میں بہت آنسوں تھے وہ خود کو کنٹرول کرنے کی
کوشش کر رہی تھی۔۔۔ اس نے جھوٹ بولا تھا الزام لگایا تھا ۔۔۔آج پھر ایک مرد
نے کچھ ایسا ہی کیا مجھے نفرت ہے ہر ایک سے نفرت ہے مجھے...عدن اپنے آنسوں
صاف کر تے ہوۓ دل ہی دل میں کہہ رہی تھی
عدن مجھے معاف کر دو میں تمہیں تکلیف نہیں دینا چاہتا تھا تمہیں ہمیشہ سے
ہی خوش دیکھنا چاہتا تھا میں ۔۔۔۔پر آج اگر میں یہ سب نہ کرتا تو وہ درندے
تمہارے ساتھ پتہ نہیں کیا کرتے ۔۔۔ میں جانتا ہوں ابھی تمہارے دل میں میرے
لئے نفرت ہے پر جس دن تمہیں سچ پتہ چلے گا اس دن تم مجھے سے نفرت نہیں کرو
گی ۔۔۔ منیب گاڑی ڈرائیو کر رہا تھا ۔۔۔۔اور دل ہی دل میں عدن سے مخاطب تھا
۔۔۔
(جاری ہے )
|