پاکستان میں گداگروں کی تعداد غالباَ دنیا بھر کے گداگروں
سے ذیادہ ہے جہاں جاؤ اسٹیشن ہو یا بسوں کا اڈہ بازار ہو یا عدالت بھکاری
آپ کا پہچھا نہیں چھوڑے گا ۔بلکہ سائیکل اور گاڑ ریوں پر بھی فرلانگ بھر آپ
کے پہچھے دوڑے گا۔اگر گھر کا دروازہ کھلا رہ جائےتو گھر کا صحن بھکاری
عورتوں اور بچوں سے بھر جائے ۔یہ لوگ اللہ کا واسطہ دےدے کر ما نگ رہے ہوتے
ہیں ۔
اب سوال یہ ہے کہ بھکاری کس ذیل میں آتا ہے ۔وہ نہ تو طالبِ عالم ہے نہ
طالب نجات و آزادی اور نہ طالب رزق ۔اگر وہ روزی کا متلاشی ہوتا تو بو جھ
اٹھاتا لکڑیاں چیرتا ڈھور چراتا جنگل سے اپلے یا ایندھن جمع کر کے بہچتا
چٹائیاں بناتا دس آنےکے چنے لے کر چھابڑی لگاتا اجرت پر ہل چلاتا یا کوئی
ایسا کام کرتا جس سے رزق حاصل ہوتا ہے ۔ جب وہ کوئی کام نہیں کر رہا۔محنت
سے جی چراتا اور کام سے بھاگتا پھرتا ہےتو ایسے کام چور اور مفت خورے کو ہم
طالب رزق کیسے کہ سکتے ہیں یہ ہٹا کٹا اور مشٹنڈا معاشرے کی لعنت قوم کے
لیے باعثِ ننگ زمین کا بوجھ اور راہگذاروں کے لیے مستقل خطرہ بنا ہوا ہے
۔جو لوگ ان مفت خوروں پر رحم کھاتے ہیں ۔وہ قوم کو رسوا کرتے اور گداگری کی
حوصلہ افزائی کرتے ہیں ۔اگر یہ قوم یہ فیصلہ کر لے ان بھکاریوں کو وہ قطعاَ
کحچھ نہیں دے گی تو یہ لوگ فورا کام کرنے لگیں اور یہ لعنت صرف چوبیس گھنٹے
میں ختم ہو جائے ۔
جب انگلستان اور امریکہ کا کوئی آدمی ہماری بستیوں میں داخل ہوتا ہے اور
اسے ہر طرف غلیظ و بدصورت بھکاریوں کے غول نظر آتے ہیں تو وہ ساری قوم کے
متعلق نہایت بری راۓ قائم کر لیتا ہے اور کحچھ ایسے ہی تاثرات ہیں جو قوم
کا وقار بننے نہیں دیتے۔
|