آزادی مارچ کا اجتماع کیا رنگ دکھلائے گا ؟

 مولانا فضل الرحمن اس وقت اپنے کارکنوں اور عقیدت مندوں کی بہت بڑی تعداد کے ساتھ اسلام آباد میں ہیں آزادی مارچ کے سلسلے میں مولانا کے پاس کوئی ایجنڈا نہ بھی ہو تب بھی وہ پاکستان مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے بغیر ہی اسلام آباد کی سڑکوں پر اپنے لوگ اکٹھے کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں ان دوبڑی جماعتوں کو یہ ڈرتھا کہ مولانا ہمارے بغیروفاقی دارالحکومت میں پہنچ کر عوامی طاقت کا بھرپور مظاہرہ نہیں کرسکیں گے کراچی سے اسلام آباد پہنچنے تک ان سیاسی جماعتوں کے قائدین اور کارکنان آزادی مارچ کا نام تو لیتے رہے لیکن شامل نہیں ہوسکے گزشتہ روز کنٹینرپر تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین اور نمائندے مولانا فضل الرحمن کے ساتھ موجود توتھے لیکن اجتماع میں جیالے اور متوالے نظرنہیں آئے اس کے باوجود بھی آزادی مارچ کے سالار نے زیادہ ناراضگی کا اظہار نہیں کیا باری باری سب نے تقریریں کیں اوران کی تقاریر میں وہی کچھ کہا گیا جو مولانا کے پاس نکات لکھے ہوئے ہیں یہ بڑا حیران کن معاملہ ہے کہ مولانا وہی سب کچھ کہہ رہے ہیں جو ہماری عوام کا چلن رہا ہے آزادی مارچ کے کمانڈر کے پاس عوام کے ڈھیروں مسائل ختم کرنے کے مطالبات ہیں مولانا بہت سے تحفظات جمع کرکے لائے ہیں جن کی فہرست کافی طویل ہے ڈاکٹروں،تاجروں،تعلیم،مہنگائی کے اسباب کوذریع بنا کرمطالبات کی فہرست بنائی گئی ہے آزادی مارچ اور حکومتی رہبرکمیٹی والوں کے ساتھ حکومت کے مذاکرات اور بات چیت تو ہوئی ہوگی اس دوران فریقین کے درمیان معاہدہ بھی ہوا ہوگا تب ہی توپورے ملک سے آزادی مارچ کے ساتھ وہ لوگ بھی شامل ہوگئے جنہیں عمران خان کے ساتھ صرف مذہبی نہیں بلکہ سیاسی تحفظات تھے اب آزادی مارچ کے سپہ سالار نے لوگوں کی تعداد دیکھ کرکہہ دیا کہ ملک میں جن جن عوامی طبقوں کو مسائل درپیش ہیں ان کے مسائل حل کئے جائیں میڈیا سے پابندیاں اٹھائی جائیں ورنہ ہم بھی حکومت کی طرف سے کسی پابندی کی پرواہ نہیں کریں گے اور حکومت کے ساتھ اس معاہدے میں اس مسئلے پر حکومتی وزیروں ،مشیروں نے رہبرکمیٹی سے ہٹاناتھا کہ جلسہ کے دوران وہ وزیراعظم کے استعفی کی بات نہیں کریں گے لیکن جب مولانا نے جب اپنے اردگرد عوام کے اکٹھ کو دیکھا تو وہ سب بھول گئے اور انہوں نے پہلا مطالبہ بھی یہی کیا کہ ہم وزیراعظم کو صرف تین دن کی مہلت دیتے ہیں وزیراعظم کو استعفی دینا پڑے گا اور اگر وزیراعظم اقتدار سے الگ نہیں ہوتے تو وہ اور عوام اسی اجتماع میں بیٹھ کر آئندہ کا لائحہ عمل تیارکریں گے ہمارے ہاں سیاسی تاریخ کا یہ المیہ رہا ہے کہ کسی بھی حکومت کو اپوزیشن نے ڈھنگ سے چلنے ہی نہیں دیا وزیراعظم عمران خان اور ان کے وزیروں مشیروں کو اپوزیشن کے مزاج کا علم تھا تو انہوں نے اپوزیشن کے اس اجتماع کو اسلام آباد میں داخل کیوں ہونے دیا فضل الرحمن کے تحفظات دور کرنے کے لئے کوئی اور طریقے بھی استعمال کئے جاسکتے تھے اگر یہ کہا جائے کہ اس کارواں کو اسلام آباد میں اس وجہ سے داخل ہونے دیا گیا کہ یہ ایک جمہوری رویہ ہے اور ہمسایہ ممالک میں ایک مثبت پیغام جائے گا تو یہ ایک کمزور دلیل ہے کیونکہ مولانا فضل الرحمن اور اور اپوزیشن کے دیگر قائدین کے پاس تو وہی باتیں ہیں جوگزشتہ ایک سال سے کررہے ہیں صرف خود کو جمہوریت پسند ثابت کرنے کے لئے سیاسی مخالفین کو وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں داخل ہونے سے نہ روکا اب مولانا اسلام آباد میں داخل ہوچکے ہیں اب وہ اپنی مرضی کریں گے بات بگڑی تو کچھ بھی ہوسکتا ہے مولانا فضل الرحمن کی پٹاری تو پہلے ہی خالی ہے اب دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کو دوبارہ خود کو مضبوط کرنے اور مولانا کو استعمال کرکے حکومت پر دباؤ بڑھانے کی حکمت عملی چکنا چور ہوجائے گی وزیراعظم عمران خان نے بھی گلگت میں جلسہ سے خطاب کے دوران جن خیالات کا اظہارکیا اس سے بھی کشیدگی میں اضافہ ہوگا ملکی معیشت پہلے ہی سنبھل نہیں رہی یہاں سوچنے کی ایک بہت بڑی بات کہ جن لوگوں کو فضل الرحمن اسلام آباد میں لائے ہیں ان کو تو مولانا سمیت باقی سیاسی رہنماؤں کی باتیں سمجھ ہی نہیں آرہی ہیں کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں جی ہاں اسلام آباد جلسے میں بظاہر سروں کی تعداد توبہت زیادہ ہے لیکن یہاں ذہن بہت کم ہیں اس صورتحال میں کچھ بھی ہوسکتا ہے اللہ تعالی ہمارے ملک پاکستان پر رحم فرمائے-
 

Faisal Ramzan Awan
About the Author: Faisal Ramzan Awan Read More Articles by Faisal Ramzan Awan: 18 Articles with 14754 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.