سلوک و سیر در منطق الطیر

( عطار کی مثنوی کا ایک تنقیدی جائزہ)
منطق الطیر فارسی ادبیات کی ایک شاہکار مثنوی ہے جس کو تصوف و عرفان کی بیش قیمت وراثتوں میں شمار کیا جاتاہے۔ اس میں سیر و سلوک کے مراحل اور راستے بتائے گئے ہیں تاکہ لوگ اپنے مالک و بادشاہ حقیقی تک پہنچ سکیں، جو کہ تزکیہ نفس اور ایک کامل رہبر کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ زیر نظر مقالہ میں اسی موضوع یعنی سیر و سلوک کی راہ و روش کو منطق الطیر کے آئینہ میں وضاحت کے ساتھ بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

مقالہ نگار : یاور عباس میربالہامی
ریسرچ اسکالر، شعبہ فارسی
علیگڑ مسلم یونیورسٹی ، ھندوستان

مقدمہ

مثنوی منطق الطیر شیخ فرید الدین عطار کی ایک طویل مثنوی ہے جو تقریبا چار ہزار چھ سو اشعار پر مشتمل ہے۔ اس مثنوی کو عطار نے ۲۹ حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ بعض حصوں کو روایتی انداز میں اور بیشتر مطالب کو جانوروں کی زبان میں بیان کیا ہے۔ اس کا مرکزی موضوع عرفان و اخلاقیات ہے۔ اس میں سب سے اہم اور دلچسپ حکایت جو تمثیلی انداز میں بیان کی گئی ہے وہ ان پرندوں کی ہے جو ہدہد کی رہبری میں اپنے بادشاہ کی تلاش میں دشوار گزار وادیوں سے گزرتے ہیں۔ شیخ عطار در اصل اس مثنوی میں پرندوں کے ذریعے اپنے مالک حقیقی کے تلاشنے میں نہایت موثر انداز میں سیر و سلوک کی راہیں متعارف کراتے ہیں۔
منطق الطیر کا مطلب ہے پرندوں کی گفتگو، جیسا کہ عنوان سے ہی یہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ اس مثنوی میں پرندوں کی زبان میں مطالب بیان کیے گئے ہیں، اس فن میں زیر نظر مثنوی نگار شیخ عطار کی کارکردگی لائق صد آفرین ہے۔
عطار کون ؟
آپ کا اصل نام ابو حمید ابن ابوبکر ابراہیم تھا مگر آپ اپنے قلمی نام فرید الدین عطار سے جانے اور پہچانے جاتے ہیں۔ آپ دوا بیچا کرتے تھے جس کی وجہ سے آپ عطار کے نام سے مشہور ہوئے۔ چنانچہ آپ خود فرماتے ہیں کہ ؎

بدارو خانہ پانصد شخص بودند
کہ درھر روز نبضم می نمودند[1]

آپ نیشا پور میں پیدا ہوئے تھے جو آج ایران کے شما ل مشرق میں واقع ہے۔ ۱۱۴۶ء آپ کی تاریخ پیدائش بتائی جاتی ہے[2]۔ اُس وقت سلجوقیوں کی حکومت آخری مراحل طے کر رہی تھی۔ آثار و قرائن سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ آپ کے والد ایک بہترین کیمیا دا ن تھے، اور عطار نے ابتدائی تعلیم اپنے والد سے ہی حاصل کی، پھر ادویات سے متعلق پیشہ اختیار کیا۔ پیشہ سے کبھی فراغت پا کر شعر و شاعری بھی کرتے تھے۔ کہتے ہیں آپ کی طبیعت مریضوں کی تکالیف پر غور و فکر کی وجہ سے روحانیت کی طرف مائل ہوئی۔ حتیٰ اس چیز سے آپ اس قدر متاثر ہوئے کہ اپنا داروخانہ بند کرکے طویل المدت سفر پہ نکل پڑے، جس میں بغداد، کوفہ، بصرہ، دمشق، مکہ ، مدینہ، ترکستان اور ہندوستا­­­­ن وغیرہ جیسے ممالک شامل ہیں۔ سفر میں آپ کی ملاقات اولیاء و صوفیا کرام سے ہوئی جن کی خدمت میں رہ کر آپ کے اندر روحانی انقلاب برپا ہوا اور آپ کی فکر و نظریات میں کافی تبدیلی آگئی اور صوفیا کا سا انداز اختیار کیا۔ دھیرے دھیرے آپ تصوف و عرفان کے مراحل طے کرتے کرتے ایسے عالی ترین مقام پہ پہنچے کہ مولانا روم جیسے صوفی شعرا یہ کہتے نظر آئے کہ ؎

ھفت شھر عشق را عطار گشت
ما ھنوز اندر خم یک کوچہ ایم[3]

ترجمہ: فرید الدین عطار تو عشق کی ساتوں وادیاں پار کر گئے اور ہم ہیں کہ ابھی تک ایک کوچہ کے سرے پہ ہی کھڑے ہیں۔ بعض جگہوں پہ ملتا ہے کہ آپ کو عرفان و تصوف کی طرف بچپن سے ہی میلان رہا ہے اور یہ ذوق اپنے والد سے پروان چڑھتا رہا۔ بعد میں مختلف علماء و صوفیا سے ملاقات کے نتیجہ میں تصوف و عرفان کا بیج ایک تناور درخت کی شکل اختیار کر گیا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ آپ کے اساتید میں مجد الدین بغدادی بھی شامل رہے ہونگے کیونکہ یہ ایسی واحد شخصیت ہیں جن کے خیالات و نظریات شیخ عطار کے نظریات سے ملتے ہیں ۔
شیخ فرید الدین عطار نہ فقط خود کی اصلاح کرکے چلے بلکہ آئندہ نسلوں کے لئے بھی معنوی وراثت و خزانہ چھوڑ گئے۔ آپ کی عملی وراثت میں تزکرۃ الاولیا، اسرار نامہ، الٰہی نامہ، جواہر نامہ ، شرح القلب اور منطق الطیر بہت مشہور ہیں۔ آخر الذکر مثنوی یعنی منطق الطیر کو مقامات طیور کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ یہ عنوان عطار نے خود اسی مثنوی کے آخری باب میں بیان کیا ہے ۔
ختم شد بر تو چو بر خورشید نور
منطق الطیر و مقامات طیور
اس مثنوی میں عطار نے ۲۹ باب یا عناوین رقم کئے ہیں پہلا باب فی التوحید باری تعالیٰ ، دوسرا نعت رسول ﷺ ، تیسرا فضائل خلفاء ، اس کے بعد" آغاز کتاب " کے عنوان سے مثنوی کا اہم باب شروع ہوتا ہے۔
اس تمثیلی مثنوی میں انسان کو جو چیز سب سے زیادہ متاثر اور برانگیختہ کرتی ہے وہ ان پرندوں کا اپنے بادشاہ کی تلاش میں نکلنا ہے ۔ سب سے اساسی نکتہ جو اس داستان کی بنیاد بنا ہے وہ ان پرندوں کا اندرونی جوش و ولولہ جو انہیں ایک جگہ جمع ہونے اور اپنے بادشاہ کا کھوج لگانے پر مجبور کرتی ہے۔ اس داستان میں چونکہ پرندے انسانوں کی نمائندگی کرتے نظر آتے ہیں اور بات کو اچھی طرح اور موثر انداز میں سمجھانے کے لئے پرندوں کا سہارا لیا گیا ہے۔ پرندوں کا ایک جگہ جمع ہونا اور اپنے بادشاہ کے بارے میں باتیں کرنا انسان کے اُس اندونی جزبے وتجسس کی عکاسی کر رہا ہے جو ہمیشہ اسے یہ احساس دلاتا اور سوالیہ نشان بن کے ابھرتا ہے کہ آخر یہ انسان آیا کہاں سے ہے اور یہاں دنیا میں اسے کیوں بھیجا گیا ہے اور بالآخر کدھر جانا ہے ؟ لہذا اپنی حقیقت کو تلاش کرنے میں تگ و دو کرتا ہے۔ یہی جزبہ انسان کے اندر ایک حرکتِ مسلسل پیدا کرتا ہے تاکہ وہ خود کی حقیقت سے آشنا ہوجائے اور اس راہ میں وہ تمام دشواریوں کو پس پشت ڈالنا چاہتا ہے۔ اپنی حقیقت اور سچائی تک رسائی کی خاطر اس کے اندر کا جوش و ولولہ ہمیشہ اسے آگے بڑھتے رہنے پر آمادہ کرتاہے۔ایسا زندہ ضمیر انسان دنیاوی چیزوں سے لو نہیں لگاتا کیونکہ وہ اتنا تو آشنا ہو چکا ہوتا ہے کہ یہ دنیا اس کی مطلوبہ چیز نہیں ہے۔
عطار نے اس مثنوی کے مقدمے میں ہی بہت ہی معنی خیز اور پر اسرار بات چھیڑ دی ہے وہ یہ کہ بغیر رہبر کامل کے یہ حقیقت و طریقت کا راستہ طے کرنا نہایت دشوار ہے اسی لئے پرندے اس سفر کا آغاز کرنے سے پہلے اپنے لئے ہدہد کو بطور رہبر تسلیم کرتے ہیں ۔ غور طلب بات یہ ہے کہ آخر ہدہد کو ہی کیوں رہبری کے لئے تسلیم کرتے ہیں ؟ ایسی کون سی خصوصیات ہدہد میں تھیں جو اسے رہبریت کے قابل بناتی ہیں ؟ ہدہد خود ہی اپنا تعارف پیش کر رہا ہے، ملاحظہ فرمائیں۔
سالہا در بحر و بر می گشتہ ام
پای اندر رہ بہ سر می گشتہ ام
وادی و کوہ و بیابان رفتہ ام
عالمی در عہد طوفان دیدی ام
با سلیمان درسفر ھا بودہ ام
عرصہ عالم بسی پیمودہ ام
ہر کہ او مطلوب پیغامبر بود
زیبدش بر فرق اگرافسر بود[4]

ان اشعار میں ہدہد اپنے آپ کو پرندوں کے سامنے متارف کراتا ہے اور کہتا ہے کہ " میں نے سالہا سال خشکی و تری میں سفر کیا ہے، کوہ و بیابان سے گزر آیا ہوں حضرت سلیمان  کا ہمراز اور ہمراہی میں رہا ہوں، سخت ترین اور ناگوار حالات سے بھی روبرو ہوا ہوں، میں وہ ہوں جو مطلوب پیغمبر رہا ہے اور جو مطلوب پیغمبر ہو اسی کا سر، تاج کے لائق ہو سکتا ہے وہی افسری کے قابل ہوسکتا ہے۔
غرض یہ کہ راہ طریقت میں جو رہبری کے لائق ہے وہ ایسا شخص ہونا چاہئے جو راستے کی سختیوں سے نہ صرف آشنا ہو بلکہ مشکل اور سخت حالات سے نپٹنا بھی بخوبی جانتا اور راہ حل پیش کر سکتا ہو۔ پیغمبر، خدا کا مقرب اور برگزیدہ بندہ نیز معصوم عن الخطا ہوتا ہے، جو شخص سالہا سال پیغمبر کی صحبت میں رہے اور ان باطنی اسرار و رموز کو حاصل کرکے عمل پیرا ہو جائے ظاہر ہے وہ شخص بھی پیغمبروں والے اوصاف کا حامل ہوجائے گا اور مرد کامل بن جائے گا۔ یہاں پہ اگر حضور سرور کائنات ﷺاور حصرت علیؑ کی مثال دی جائے تو بےجا نہ ہوگا۔ دیگر صحابہ کرام بھی اگرچہ حضور کے ساتھ ساتھ رہے ہیں لیکن یہ سعادت فقط حضرت علیؑ کو ہی نصیب ہوئی ہے کہ آپ ولادت سے ہی حضورؐ کے زیر سایہ پروان چڑھے ہیں اور آپ کی آخری سانس تک آپ کے ساتھ بقول مولا علی ؑ اس طرح رہے ہیں جیسے اونٹنی کا بچہ اپنی ماں کے ساتھ ساتھ رہتا ہے ۔آپ کی ذات حضورؐ کی مصاحبت میں رہ کر اسرار الہی کی پیکر بن چکی تھی ۔ چاہے قرآن کی آیتوں کا شان نزول پوچھئے یا محل نزول، تفسیر کا سوال کیجئے یا تاویل کا، زمین کی راہیں معلوم کیجئے یا آسمانوں کی، غرض کسی بھی قسم کا سوال ہو تو آپ جواب نہ دے پائے ہوں ایسا نہ ہمیں کسی تاریخ میں ملتا ہے نہ کسی روایت میں۔ علمی گتھی سلجھانی ہو یا میدان جنگ فتح کرنا ہو، نرم و نازک فنون جیسے خطاطی کرنے والے ہاتھ مراد ہوں یا شمشیر چلانے والے سخت اور قوی ترین دست مطلوب ہوں، ہر طرح کے جوہر آپ کی ذات پاک میں موجود تھے، آپ ہر میدان میں سب سے آگے رہے ہیں اور یہ بات دیگر صحابہ بھی خوب اچھی طرح جانتے اور مانتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آنحضرتﷺ کی رحلت کے بعد لوگوں نے آپ کو اپنا رہبر مانا۔یہ الگ بحث ہے کہ کسی نے بلا فصل مانا اورکسی نے بالفصل تسلیم کیا۔ الغرض یہ کہ جو شخص پیغمبر کی صحبت میں رہ کر انسان کامل بن گیا ہو پھر لوگ اگر انہیں پیغمبر کی غیر موجودگی میں اپنا رہبر سمجھیں اور ان سے اپنے مسائل و مشکلات کا حل دریافت کریں تو بے شک وہ لوگ کامیابی سے ہمکنار ہوکر اپنی منزل مقصود تک پہنچ جائیں گے۔ لہذا طریقت کے راہی بننے سے قبل نہ فقط رہبر انتخاب کرنا ہے بلکہ" رہبر کامل" ہونابھی لازمی ہے، چون نیم حکیم وبال جان است۔
دوسری اہم چیز جس کی طرف شیخ عطار نے ابتدا ہی میں اشارہ کیا ہے اور جو سیر و سلوک میں انسان کی معاون و مددگار ہے وہ ان پرندوں کا اجتماع کرنا ہے۔ ؎
مجمع ای کردند مرغان جہان
آنچہ بودند آشکارا و نہان
انفرادی اور اجتماعی طور راستہ طے کرنے میں بہت فرق ہے ۔ جو شخص تنہا سیر و سیاحت کرے اس کے لئے خطرات کے امکانات بہت زیادہ ہوجاتے ہیں، کہیں پہ تھک ہار کر گر پڑا تو سہارا دینے والا کوئی نہ ہوگا، لیکن اجتماعی راہ پیمائی میں جہاں بہت سارے فواید ہیں وہاں ایک اہم فایدہ یہ ہے کہ اگر چلتے چلتے قدم ڈگمگائے تو دیگر ہمراہ ساتھی سہارا دے کے اپنے ساتھ لے چلیں گے، تاکہ منزل سے پیچھے نہ رہنے پائے۔جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہمیں شریعت اسلامی میں انفرادی عبادت پر کم اور اجتماعی عبادت پر زیادہ زور اور تاکید نظر آتی ہے۔مجتمع ہو کر رہنا اور اجتماع کے ساتھ کوئی کام کرنے کی اہمیت و افادیت مندرجہ ذیل ایک حدیث کے تناظر میں اچھی طرح واضح ہو جاتی ہے۔ چنانچہ حدیث میں آیا ہے کہ لا صلاۃ لمن لم یقرأ بفاتحۃ الکتاب [5] ، یعنی سورہ فاتحہ کے بغیر نماز، نماز نہیں ہے۔ لیکن جماعت کی اہمیت دیکھئے کہ اگر کوئی دیر سے نماز جماعت میں پہنچے اور سورہ فاتحہ کے بعد بھی شریک جماعت ہو تب بھی اس کی نماز درست مانی جائے گی۔ اس کے علاوہ یہ بھی اسلامی فقہ میں ہے کہ مختصر سی نماز جماعت دیر تک پڑھی جانےوالی انفرادی نماز سے بہتر و افضل ہے ۔ پس ہم نے ملاحظہ کیا کہ جماعت کی کیا اہمیت ہے، اور کس قدر اس کی تاکید کی گئی ہے، لہذا اب ہم بہتر طور سمجھ سکتے ہیں کہ سیر و سلوک کے لئے جماعت و معاشرے کے اندر رہنا سالک کے لئے کتنا فایدہ مند ہوسکتا ہے۔ یہ نقطہ واضح ہونے کے بعد ان تمام گمراہ صوفیوں اور نام نہاد عارفوں کی حقیقت آشکار ہوجاتی ہے جو سماج و معاشرے سے قطع تعلق کرکے الگ تھلک کہیں پہاڑوں ، جنگلوں یا خانقاہوں میں روپوش ہوجاتے ہیں۔ اسلام اس طرز کے تصوف کا قائل کیسے ہوسکتا ہے؟
زیربحث مثنوی میں عطار نے پرندوں کے اجتماع کی شکل میں بہت ہی معنی خیز تعبیر پیش کی ہے۔ سبھی پرندے جب مجتمع ہوکر اپنی بغیر بادشاہ کی مملکت کا شکوہ پیش کرتے ہیں اور اسے ڈھونڈ نکالنے کا عزم کرتے ہیں تو وہاں پہ ہدہد آکر اپنا پورا تعارف کرانے کے بعد بادشاہ کے متعلق یوں جانکاری دینے لگتا ہے کہ ؎

ہست ماراپادشاہی بی خلاف
در پس کوہی کہ ھست آن کوہ قاف

نام او سیمرغ سلطانِ طیور
او بہ ما نذدیک و ما زو دور دور
ترجمہ : یعنی بے شک ہماری مملکت کا بھی ایک بادشاہ ہے جو کوہ قاف کے اس پار رہتا ہے، اس کا نام سیمرغ ہے وہ پرندوں کا بادشاہ ہے، وہ ہم سے بہت قریب ہے مگر ہم اس سے دور پڑے ہیں۔
اس کے بعد ہدہد سیمرغ کی تعریف و توصیف بیان کرنے لگتا ہے اور پرندوں کو اس کے مقام و مرتبہ سے آشنا کرتا ہے۔
عطار نے پرندوں میں کچھ خاص پرندوں کے نام لئے ہیں اور ان کی خصوصیات بیان کی ہیں جن میں بلبل، طوطا، مور، فاختہ بٹیر، باز، مرغ زرین، بطخ، بگلا، الو وغیرہ شامل ہیں۔ یہ مختلف اور گوناگون پرندے سماج میں ان افراد کی تمثیل ہیں جن کا کردار مزکورہ پرندوں جیسا بے سود و بے ارزش ہوتا ہے۔ مثلا
بلبل کا کردار : بلبل کا خاصہ یہ ہے کہ وہ پھول پہ عاشق ہوتا ہے اور بڑی خوبصورت اور مترنم آھنگ میں اپنے معشوق کے عشق میں نغمہ زن رہتا ہے، لیکن وہ اس حقیقت سے بے خبر رہتا ہے کہ پھول کی زندگی چند روز سے زیادہ نہیں ہے اگر وہ آشنا از حقیقت ہوتا تو وہ وقتی و سریع الفنا چیزپہ یوں دل نہ لگاتا اور نہ ہی اس کے مرجھانے پہ درد و کرب میں مبتلا ہوتا۔ بلبل سے مراد دنیا کے وہ سبھی افراد جو عشق مجازی کے لئے اپنی پوری عمر برباد کر دیتے ہیں اور بالآخر سواے غم و اندوہ کے کچھ بھی ان کے ہاتھ نہیں آتا۔

اسی طرح طوطی کا کردار: جو اپنی سبز قبا پہ ناز کرکے حضرت خضر سے خود کو مقایسہ کرتا ہے۔جبکہ وہ پوری عمر لگا کربھی خضر کی طرح آب حیات حاصل نہیں کر پاتا۔ اسی طرح مور جیسا خوبصورت پرندہ اپنے حسن و جمال کی چکاچوند سے دیکھنے والوں کو محو حیرت کرکے غرور کی شعاعیں بکھیرتا ہے اور اس فکر میں کہ فقط وہ اکیلا خوبصورتی کا مرکز ہے مست رہتا ہے۔ لیکن وہ یہ نہیں جان پاتا ہے کہ اتنا خوبصورت و زیبا مخلوق پیدا کرنے والا خالق خود کس قدر جمیل و جمال اور باکمال ہوسکتا ہے، اگر وہ اس حقیقت کو پالیتا تو خود کی خوبصورتی کا اسیر نہیں رہتا۔
اسی طرح دیگر پرندے بھی اپنی اپنی پسند پہ دل لگائے بیٹھے ہوتے ہیں اور ناز کرتے ہیں ، لیکن ہدہد انھیں حقیقت سے آشنا کراتا ہےاور ان کو حقیقی بادشاہ مملکت سے ملاقات کے لئے سیر و سلوک کی کٹھن وادیوں کو پار کرنے پر آمادہ کرتا ہے ۔ عطار نے ہدہد کے ذریعہ سے پرندوں کو سیر و سلوک کی سات وادیوں سے روشناس کرایا، جس میں سب سے پہلی وادی کا نام " وادی طلب " ہے۔

وادی طلب : وادی طلب کی معرفت کے لئے عطار نے مختلف حکایات بیان کرکے یہ واضح کیا ہے کہ کسی چیز کو پانے کے لئے جزبہ طلب یعنی مانگنے یا حاصل کرنے کا جزبہ اس قدر قوی ہو جس طرح مجنون اپنی لیلا کو پانے کے لئے کوہ کنی کی خطرناک زحمت گوارا کرتا ہے ۔عطار نے مجنون کی طلب کو یوں بیان کیا ہے ؎

دید مجنون را عزیزی درد ناک
کو میان رہ گذر می بیخت خاک

گفت ای مجنون چہ می جویی چنین
گفت لیلی را ھمی جویم یقین

گفت لیلی را کجا یابی ز خاک
کی بود در خاک شارع دُر پاک

گفت من می جویمش ہر جا کہ ہست
بوک جایی یک دمش آرم بدست[6]

ترجمہ : مجنون کو ایک دن کسی نے رہگزر پہ مٹی کریدتے درد ناک حالت میں دیکھا اور کہا کہ اے مجنون یہاں اس طرح کیا ڈھونڈ رہے ہو،؟ {کس چیز کی تلاش نے تمہاری حالت دگرگوں کی ہے} تو جواب ملا میں لیلی کو یہاں تلاش کر رہا ہوں ۔ شخص نے کہا یہاں رہگذر کی خاک کے اندر لیلی کہاں سے آگئ جو تم کھوج رہے ہو، بھلا رہگذر کی خاک میں کہاں دُرِ پاک ہوا کرتا ہے، مجنون نے کہا میں تو اسے تلاش کر رہا ہوں جہاں بھی ہو، کسی وقت کہیں نہ کہیں سے اسے میں حاصل کرکے ہی رہوں گا۔

پس جس کی طلب ایسی ہو وہ سیر و سلوک کی اگلی منزل جسے وادی عشق کہتے ہیں داخل ہوجاتا ہے۔
وادی عشق وہ سخت ترین وادی ہے جس میں اگرکوئی داخل ہوجاتا ہے تو اسے بہت ہی کٹھن امتحانات سے گزرنا پڑتا ہے۔ پس منزل مقصود تک پہنچنے کے لئے سالک کو مطلوبہ منزل سے اس قدر دلبستگی ہو کہ وہ اس راہ میں پیش آنے والی تمام تر مشکلات سے نبرد آزما ہوکر مرد مجاہد کی طرح بے خوف و خطر آگے بڑھتا رہے۔ عشق کی وادی کے بارے میں عطار یوں بیان کرتے ہیں۔ ؎

بعد از آن وادی عشق آمد پدید
غرق آتش شد کسی کا آنجا رسید

کس درین وادی بجز آتش مباد
وانکہ آتش نیست عیشش خوش مباد

عاشق آن باشد کہ چون آتش بود
گرم رو سوزندہ و سرکش بود[7]

آگے چل کر ایک جگہ فرماتے ہیں کہ اس وادی میں وہی شخص کامیابی سے گزر سکتا ہے جس کے پاس سوز و گداز سے بھرا ہوا دل ہو،عقل اس وادی میں دم توڑ بیٹھتی ہے ۔

عشق اینجا آتش است و عقل دود
عشق کامد در گریزد عقل زود

عقل در سودای عشق استاد نیست
عشق کار عقل مادر زاد نیست[8]

اس تمہید کے بعد عطار عشق کی اہمیت کی خاطر مختلف حکایتیں بیان کرتے ہیں جس میں ایک دلچسپ حکایت حضرت ابراہیم خلیل اللہ کی بیان کرتے ہیں جس کو علامہ اقبال نے بھی ایک شعر میں بڑے ماہرانہ و استادانہ صلاحیت کے ساتھ سپرد قرطاس کیا ہے کہ

بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہےمحو تماشائے لب بام ابھی

اس وادی کی صعوبتوں کو جس نے خوشی خوشی برداشت کیا وہ کامیاب ہوکر تیسری وادی یعنی "وادی معرفت" میں داخل ہوجاتا ہے۔

وادی معرفت : یہ وادی سالک کی عقل و شعور کے مطابق و موافق ہوتی ہے، جس کی عقل جتنی بلند و بالا ہوگی وہ اتنی حد تک اپنے معشوق کا عرفان حاصل کر لیتا ہے ؎

لا جرم بس رہ کہ پیش آمد پدید
ھر یکی بر حد خویش آمد پدید

یہی وہ وادی ہے جہاں بے معرفت سالکین گمراہی کے گھاٹ اتر جاتے ہیں ؎

صد ھزاران مرد گم گردد مدام
تا یکی اسرار بین گردد تمام

یہ وہ سالکین ہوتے ہیں جو خود شناسی کے مرحلے میں کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوئے ہوتے ہیں، جو خود شناس نہ ہو وہ خدا شناس کیسے ہو سکتا ہے، من عرف نفسہ فقد عرف ربہ کا مصداق جو سالک ہوبس وہی اس وادی سے کامیابی کے ساتھ گزر جاتا ہے۔عطار نے اس بارے میں یوں بیان کیا ہے ؎

خویش را در بحر عرفان غرق کن
ورنہ باری خاک رہ پر فرق کن

کاملی باید در و جانی شگرف
تا کند غواصی این بحر ژرف

یعنی اس وادی کے لئے ایک ایسا مرد کامل چاہئے جو بحر عرفان کا ماہر شناور ہو تاکہ اس اتھاہ بحر عرفان میں غواصی کرکے موتی نکال لائے۔
معرفت کے حوالے سے عطار نے اس باب میں چند ایک حکایتیں بطور مثال پیش کی ہیں جن میں ایک حکایت ایک ایسے عاشق کی بیان کی ہے جو کسی کے عشق میں مبتلا تھا اور حسب دستور وصال کا خواہاں تھا، لیکن ایک دن وہ سویا ہوا تھا تو اس کا محبوب اس کے پاس آیا اور جب دیکھا کہ سویا ہوا ہے تو معشوق نے نہایت افسوس کے ساتھ ایک کاغذی تحریر اس کے دامن سے باندھا اور چل دیا۔ جب عاشق بیدار ہوا تو وہ تحریر دیکھ کر چونک گیا اور کف افسوس ملنے لگا، وہ تحریر یوں تھی ؎

این نوشتہ بود کای مرد خموش
خیز اگربازارگانی سیم و گوش

گر توھستی زاھدی ، شب زندہ باش
بندگی کن تا بہ روز و بندہ باش

ور تو ھستی مرد عاشق، شرم دار
خواب را با دیدہٴ عاشق چکار [9]

ترجمہ : اے خوابیدہ و خاموش انسان، اگر تو زاہد ہے تو شب بیداری کر اور صبح تک اللہ کی عبادت کر اور اس کا بندہ بن جا ۔ اور اگر تو عاشق ہے تو تمہیں سوتے ہوئے شرم آنی چاہئے، نیند کا عاشق کی آنکھ سے کیا کام ؟۔ عاشق اور وہ بھی خفتہ و خوابیدہ ؟ ایسا نہیں ہوسکتا۔
جس عاشق کو اپنے معشوق کی معرفت نہ ہو وہ اسی طرح اپنے محبوب سے محروم ہو کر کف افسوس ملنے کے سوا کچھ نہیں کر پاتا۔ جب سالک و عاشق کے اندر اپنے معشوق کی معرفت و شناسائی آجاتی ہے تو دگر تمام چیزیں اس کے لئے بے مطلب اور ہیچ ہوجاتی ہیں، کیونکہ وہ ایک ایسی قیمتی چیز پالیتا ہے جس کی بہ نسبت تمام اشیاء بے ارزش ہیں حتٰی جنت جیسی جگہ اور حور و کسور بھی اس کی توجہ جلب نہیں کر پاتے ۔ جیسے کہ ایک صوفی بزرگ خواجہ عبد اللہ انصاری اپنی مناجات میں فرماتے ہیں کہ
الٰھی اگرچہ بھشت چشم و چراغ است ولی بی دیدار تو درد و داغ است۔ الھی گُل بھشت در نظر دوستان تو خار است و جویندہ ترا با بھشت چکار است ؟

ترجمہ : الٰہی اگرچہ یہ درست ہے کہ جنت عیش و نشاط کی جگہ ہےمگر تیرے بغیر جنت جیسی جگہ بھی اک دردناک عذاب ہے، جنت کا پھول تیرے عاشقوں کی نظر میں خار ہے اور تیرے چاہنے والوں کو جنت سے کیا سروکار ہے ؟
الغرض جب سالک کو اپنے محبوب حقیقی کی معرفت ہو جاتی ہے تو وہ ہر چیز سے بے نیاز ہو کر "وادی استغنا " میں وارد ہو جاتا ہے۔

وادی استغنا : یہ وہ وادی ہے جہاں سالک ہر چیز سے بے نیاز ہو جاتا ہے ، اس وادی میں پہنچ کر سالک کی نظر میں دنیا کی حیثیت نقش پر خاک ہوجاتی ہے ؎

ھفت دریا یک شمر اینجا بود
ھفت اخگر یک شرر اینجابود

ھفت جنت نیز اینجا مردہ است
ھشت دوزخ ھمچو یخ افسردہ است

اس وادی سے آشنائی کی خاطر عطار نے ایک دلچسپ حکایت یوں بیان کی ہے کہ ایک شخص تھا جس نے خاک کے تختہ پہ افلاک کا نقش بنایا اور پھر یکایک اسے مٹا کر دنیا کی حیثیت واضح کی ۔ ملاحظہ ہو ؎

دیدہ باشی کان حکیم بی خرد
تختہ ای خاک آورد در پیش خود

پس کند آن تختہ پُر نقش و نگار
ثابت و سیارہ آرد آشکار

ھم فلک آرد پدید وھم زمین
گہ برآن حکمی کند گاھی برین

ھم نحوست ھم سعادت بر کشید
خانہ اموات و اولاد بر کشید

گوشہ آن تختہ گیرد بعد از آن
چون حساب نحس کرد و سعد از آن

برفشاند گویی آن ھرگزنبود
آن ھمہ نقش و نشانھرگزنبود

صورت این عالمِ پر پیچ پیچ
ھست ھمچون صورت آن تختہ ھیچ[10]

یعنی اس شخص نے خاک کے تختہ پر افلاک کا نقش بنایا، چاند تارے، سورج ، زمین، سعد و نحس، ولادت و وفات غرض ہر چیز بنا دی، پھر اس تختی کو ایک گوشے سے پکڑ کر نقش کو ایک دم سے جھاڑ دیا گویا اس پہ کچھ بنا ہوا نہ تھا۔
یہی حال و حیثیت اس دنیا کی اُس سالک کے سامنے ہے جو وادی معرفت سے آکر وادی استغنا میں پہنچ جاتا ہے۔ اس کے سامنے ہر چیز ما سواے ذات حق، بے ارزش و ہیچ ہوجاتی ہے۔ جب سالک ہر چیز سے لا تعلق و بے نیاز ہو جاتا ہے تو وہ اگلی وادی میں قدم رکھتا ہے جو توحید کی وادی ہے۔

وادی توحید : یہ وہ مقام و منزل ہے جہاں سالک کو ہر چیز میں ذات حق کا جلوہ نظر آتا ہے، اسے کثرت میں بھی وحدت نظر آتی ہے۔ ؎

بعد از ین وادی توحید آیدت
منزل تفرید و تجرید آیدت

روی ھا چون زین بیابان در کنند
جملہ سر از یک گریبان بر کنند

یعنی اس کے بعد وادی توحید آتی ہے جو تفرید و تجرید کی منزل ہے یہاں پہنچ کر بہت سارے سر ایک ہی گریبان سے نکل آتے ہیں۔ یعنی ہر چیز میں ایک و اکائی دکائی دیتی ہے۔
جب سالک ہر چیز میں صرف وہی ایک ہی ذات کا جلوہ دیکھتا ہے حتٰی اپنے آپ میں بھی اسی کا جلوہ نطر آتا ہے تو اس کے لئے من و تو کا امتیاز بھی مٹ جاتا ہے۔

چون یکی باشد ھمی نبود دوی
ھم منی بر خیزد اینجا ھم توی

اس وادی کے بعد سالک وادی حیرت میں قدم رکھتا ہے۔
وادی حیرت : وہ وادی ہے جس میں سالک حقیقت سے آشنا ہو کر بے خودی و آوارگی کی حالت میں گھومتا ہےالبتہ یہ آوارہ گردی وہ ظاہری گردی نہیں ہے جس طرح بعض افراد فقیر کی شکل میں گھومتے رہتے ہیں، بلکہ یہ ایک معنوی بے خودی و آوارگی ہے، کیونکہ جب سالک کو معلوم ہو جاتا ہے کہ اس کی ساری معلومات اور سارا علم محدود بلکہ ہیچ تھا تو وہ مبہوت رہ جاتا ہے۔ سید روح اللہ امام خمینی بھی اپنی ایک غزل میں اس کا ذکر یوں کرتے ہیں کہ ؎

چون بہ عشق آمدم از حوزہ عرفان دیدم
آنکہ خواندم و نوشتم ھمہ باطل بود[11]

یعنی جب مجھے اس ذات حقیقی سے عشق ہوا تو میں نے عرفان کے آئینہ میں دیکھا کہ جو کچھ میں نے اب تک پڑھا اور لکھا وہ سب باطل تھا۔
غرض یہ کہ اس مقام پہ پہنچ کر سالک اپنی لا علمی و جہالت فاش کرتا ہےاور حیران و سرگردان ہو جاتا ہے کہ وہ اب تک علم کے باوجود جاہل مطلق تھا اس مقام پر پہنچ کر وہ کہتا ہے کہ ؎
عاشقم اما ندانم بر کیم
نہ مسلمانم نہ کافر، پس چیم

لیکن از عشقم ندارم آگھی ھم دلی پر عشق دارم ھم تھی[12]

یہی وہ منزل ہوتی ہے جب وہ اپنے آخری مرحلے کی طرف قدم رکھتا ہے، وہ آخری مرحلہ اور آخری وادی فقر یا فنا کی وادی ہے۔

وادی فنا : میں پہنچ کر سالک مکمل طور جسمانی و روحانی کدورتوں جیسے غرور وتکبر، خود نگری و خود پرستی وغیرہ سے بالکل پاک ہوجاتا ہے تمام برائیاں اس سے دور ہو جاتی ہیں اور اس کا وجود عالم وحدت کا حصہ بن جاتا ہے، اس طرح سے سالک، کُل کے دریا میں گم ہوکر لافانی اور دائمی بقا حاصل کر لیتا ہے۔
ھر کہ در دریای کُل گم بودہ است
دائماً گم بودہ و آسودہ است

ھر کہ او رفت از میان اینک فنا
چون فنا گشت از فنا اینک بقا [13]

جب سالک کا وصال حق یا فنا فی اللہ ہوجاتا ہے تو اس کے بعد اس کا ہاتھ سالک کا ہی ہوتا ہے لیکن ید اللہ کہلاتا ہے، زبان سالک کی ہوتی ہے لیکن لسان اللہ کہلاتی ہے، اس کی آنکھ عین اللہ ہوجاتی ہے، اسی طرح سالک کا ایک ایک جز کار خدائی انجام دینے لگتا ہے۔ اسی مقام پہ پہنچ کر بعض سالکین نے جب انا الحق کا نعرہ لگایا تو انھیں دار پہ لٹکایا گیا، کیونکہ عام افراد اور خشک زاہدین اس مقام و منزل سے بے خبر ہوتے ہیں جس کی وجہ سے انھیں یہ سب سراسر گمراہی لگتی ہے اور ایسے سالکین کو خارج از دین سمجھتے ہیں۔
اسی سیر و سلوک کو عطار نے اس مثنوی میں پرندوں کے ذریعے سے سمجھانے کی کوشش کی ہے جس میں بہت سارے پرندے ان سات سخت ترین وادیوں کو عبور نہیں کر پاتے اور گمراہ ہو جاتے ہیں۔ بالآکر صرف تیس پرندے آخری مقام تک پہنچنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ جب وہ آخری وادی میں سیمرغ کی بارگاہ میں پہنچتے ہیں تو انھیں وہاں سیمرغ کے بجائے سی مرغ یعنی اپنا ہی عکس نظر آتا ہے، سی مرغ یعنی تیس پرندے جو وہ خود ہی تھے، با الفاظ دیگر جس حقیقت کو وہ پانا چاہتے تھے دراصل وہ ان کے اندر ہی موجود تھی، جب انہوں نے اپنے دل کے آئینہ سے کدورتوں کو پاک کیا تو ان پر وہ حقیقت عیاں ہوگئی جس کی تلاش وہ باہر کر رہے تھے۔
حقیقت یہ ہے کہ وہ تیس پرندے تیس سالک ہیں، سیمرغ ان کا معشوق و بادشاہ ہے، ہدہد اس راہ کا پیر طریقت ہے جس کی راہنمائ میں مراحل طے کئے جاتے ہیں، پرندوں نے جو مختلف قسم کی خطرناک وادیوں کی اذیتوں کو برداشت کیا وہ سالکین کی ریاضتیں و مجاہدے ہیں۔

حوالہ جات

[1] ۔ تاریخ ادبیات ایران، رضا زادہ شفق ، ص ۱۵۸
[2] ویکیپیڈیا، فرید الدین عطار
[3] ۔ تاریخ ادبیات ایران، شفق، ص ۱۵۹
[4] ۔ منطق الطیر ، عطار ، باب آغاز کتاب
[5] ۔ صحیح بخاری ج ۱ ، ص 104
[6] ۔ منطق الطیر، باب : بیان وادی طلب
[7] ۔ ایضاً ، باب : بیان وادی عشق
[8] ۔ ایضا ً، باب وادی عشق
[9] ۔ ایضا ً، باب وادی معرفت
[10] ۔ ایضاً، باب وادی استغنا
[11] دیوان امام خمینی، چ تہران، ص ۱۰۴ دریای فنا
[12] ، منطق الطیر، باب وادی حیرت
[13] ۔ منطق الطیر، باب وادی فقر۔

مقالہ نگار : یاور عباس میر {بالہامی }
ریسرچ اسکالر ، شعبہ فارسی، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، اترپردیش، ہندوستان
:
 

Dr. Yawar Abbas Balhami
About the Author: Dr. Yawar Abbas Balhami Read More Articles by Dr. Yawar Abbas Balhami: 11 Articles with 15572 views MIR YAWAR ABBAS (BALHAMI)
(میر یاور عباس بالہامی )
From Balhama Srinagar, Jammu and Kashmir, IND
Ph.D Persian from Aligarh Muslim Universi
.. View More