بوڑھے برگد کے نیچے چودھری للن لال حقہ پھونک رہے تھے۔
بچے اور جوان جاٹ آکر ان کے پیر چھوتے اورپرنام کرکے ایک طرف بیٹھ جاتے۔
چودھری کلن سنگھ نے للن سے مصافحہ کرکے دیوالی کی مبارکباد دی اور بغل میں
بیٹھنےکےبعدکہا چودھری اس دشینت نے دیوالی کا مزہ کرکرا کردیا۔
للن بولا کیوں ؟ اب کیا نئی بدمعاشی کردی اس کمبخت نے؟
پانچ سال وہ کھٹر نام کا بنیاہمیں رسوا کرتا رہا ۔ اس بار ہم چاہتے تھے کہ
کوئی جاٹ وزیر اعلیٰ بنے لیکن اس نے پھر بنیا کی حمایت کردی ۔
جمن لال بولا تو کیا کرتا ؟ویسے وہ بھی تو نائب وزیراعلیٰ بن ہی گیا ۔
اس خاندان کو نائب بننے کے سوا آتا ہی کیا ہے؟ چودھری دیوی لال نے بھی یہی
کیا تھا کہ جب وزیراعظم بننے کا وقت آیا تو نائب بن گیا ۔
للن نے پوچھا لیکن اس کو بی جے پی وزیراعلیٰ کیسے بناتی ؟ اس کے پاس تو صرف
دس ارکان اسمبلی تھے؟
کلن بولا ارے تاؤ بی جے پی نہیں تو کانگریس بنادیتی ۔
جمن نے پھر کہا اس کی کیا گارنٹی کہ کانگریس کو اس وزیراعلیٰ بناتی ۔
کیوں نہیں بناتی ؟ بی جے پی کو اقتدار سے محروم رکھنے کے لیے کانگریس کچھ
بھی کرسکتی ہے۔ کرناٹک میں اس نے کمار سوامی کو وزیراعلیٰ نہیں بنایا؟
جمن بولا کانگریس بڑی دغا باز پارٹی ہے۔وہ کچھ دن بعد جے جے پی کے سارے
ارکان کو اپنے ساتھ کرکے دشینت کو کچرے کی ٹوکری میں ڈال دیتی۔
کلن بولا تب بھی ٹھیک تھا ۔ بھوپندر سنگھ ہڈا کو ن پرایا ہے ؟ وہ بھی تو
جاٹ ہی ہے ۔ کم از کم اپنا راج تو ہوتا ۔
للن نے جمن اور کلن کو سمجھاتے ہوے کہاتم لوگ دیوالی کے شبھ اوسر یہ کیا
سیاسی جھگڑا لے کر بیٹھ گئے ؟
کلن بولا نہیں تاؤ ! ایسی بات نہیں ۔ گزشتہ پارلیمانی انتخاب میں ۵۰ فیصد
جاٹوں نے بی جے پی کو ووٹ دیا تھا لیکن اس بار صرف اور صرف کھٹر کو ہٹانے
کے لیے ۱۸ فیصد نے کمل پر مہر لگائی لیکن پھر بھی دشینت نے سارے کرے کرائے
پر پانی پھیر دیا۔
جمن نے کہا یہی تو ہماری غلطی ہے پردھان سیوک نے کشمیر میں لڑنے
والےہریانوی جوانوں کا واسطہ تک دے دیا پھر بھی ہم نے پنجے کا ساتھ دیا ۔
کلن بولا تمہارے پردھان سیوک سرحد پر تعینات ہمارے جوانوں کی تعریف کرکے
اپنی سیاسی روٹیاں سینکتے ہیں مگر نہ تو گاوں کے کسان کی بات کرتے ہیں اور
نہ بیروزگار جوان کی۔ ایسا کب تک چلے گا ۔ راشٹرواد کے نام پر کب تک ہمارا
شوشن کیا جائے گا ؟
للن نے پھر سے مداخلت کی بھائی بہت ہوچکا یہ جھگڑا ۔ اب یہ لڑائی بند کرو
اور دیوالی مناو۔
یہ سنتے ہی وہاں موجود لوگوں میں سے کئی آوازیں اٹھیں۔ تاؤ ہم سب کلن سے
سہمت ہیں اور چاہتے ہیں کہ غدار دشینت کا حقہ پانی بند کردیا جائے۔
جمن نے بازی پلٹتی دیکھ کر کہا دیکھیے تاؤ، یہ انصاف کا تقاضہ ہے کہ دشینت
پر کوئی فیصلہ کرنے سے قبل اس کو اپنی صفائی کا موقع دیا جائے ۔
جمن کی تائید میں للن نے دشینت کو جاٹ پنچایت میں حاضر ہونے کا حکم دے دیا
جہاں اس کے خلاف کلن اور اس کی حمایت میں جمن وکیل بن گئے ۔
جنتا کے وکیل کلن سنگھ نے دشینت سے پوچھا تم نے کمل کے خلاف جاٹ سماج کے
ووٹ حاصل کرکے پوری برادری کے ساتھ غداری کیوں کی؟
دشینت نے ہاتھ جوڑ کر جواب دیا سرکار میری جگہ آپ بھی ہوتے تو یہی کرتے ۔
یہ سن کر للن چونک پڑا ۔ اس نے کہا میں یہ کیوں کرتا ۔ میں تو ہڈا کی حمایت
لے کر وزیراعلیٰ بن جاتا ۔
دشینت بولا جی ہاں لیکن اگر آپ کے باپ اور دادا میرے پتااجے اور دادا اوم
پرکاش کی طرح جیل کی چکی پیس رہے ہوتے تو آپ کیا کرتے؟
کلن نے کہا دیکھا چودھری! اس نے اپنے باپ اور دادا کی خاطر برادری کے ساتھ
غداری کی ہے ۔ اس لیے پورے خاندان کا حقہ پانی بند ہونا چاہیے۔
جمن نے بیچ میں مداخلت کی اور بولا دشینت کا عمل ہماری کروکشیتر کی پراچین
پرمپرا کے مطابق ہے ۔
کلن نے حیرت سے پوچھا یہ درمیان میں مہابھارت اور کوروکشیتر کیسے آگئی ؟
جمن نے وضاحت کی کیا کورو وں نے یہ جانتے بوجھتے کہ یدھشٹر اور پانڈو حق پر
ہیں ان کے خلاف اپنے سگے بھائی دشاسن کا ساتھ نہیں دیا؟
للن سوچ میں پڑگیا ۔ کلن بولا لیکن پانڈو نے دھرم کے نام پر اپنے سوتیلے
بھائیوں سے جنگ کی اور یہی گیتا کا سار ہے ۔
جمن بولا کلن عقل کے ناخون لو ۔ یہ اگر ہڈا کی حمایت سے وزیراعلیٰ بن جاتا
تب بھی مرکزی حکومت اس کو اپنے باپ دادا کے پاس جیل میں پہنچا دیتی۔
کلن نے سوال کیا یہ کون سا انصاف ہے کہ ، حمایت کرو تو باپ داداسب جیل چھوٹ
سے جائیں اور نہ کرو تو خود بھی جیل میں پہنچا دیئے جاو؟
جمن نے خندہ پیشانی سے جواب دیا ۔ جی ہاں یہی جمہوریت ہے؟
للن بولا نہیں یہ تو بلیک میلنگ ہے ۔ سرحد پر دشمن کے دانت کھٹے کردینے
والا جاٹ سماج اپنوں دوارایہ اتیاچار کبھی بھی برداشت نہیں کر ے گا۔
جمن نے کہا تاؤ ان کو سمجھاو کہ مودی یگ میں یہی راجنیتی کا مول منتر ہے۔
کلن بگڑ کر بولا کیا مطلب ؟ یہ تو آمرانہ دھاندلی ہے ۔
جو بھی ہے لیکن کل یگ کی یہی حقیقت ہے کہ سمرتھن کرو یا جیل جاو ۔ نتیش
کمار کا انعام اور لالو پرساد کا انجام دیکھ لو۔
ایک طرف خاموش کھڑا دشینت گویا ہوا اور بولا میں جمن کا شکر گذار ہوں مگر
یقین دلاتا ہوں کہ میری سرکار سب کے لیے کام کرے گی؟
کلن نے کہا لیکن ہم نے تو تمہیں صرف جاٹوں کے لیے کام کرنے کی خاطر ووٹ دیا
تھا۔
جی ہاں سب سے میری مراد ہے سارے جاٹ ہیں ۔ ان کے لیے بھی جنہوں نے ہڈا کو
ووٹ دیا اور ان کے لیے بھی جنہوں نے ۰۰۰۰۰
کلن بولا رک کیوں گئے؟ یہ کیوں نہیں بولتے کہ جنہوں نے کمل پر مہر لگائی ۔
کھٹر بھی سنگھیوں کے لیے کام کرے گا۔ اب انہیں کا کام ہوگا۔
جی نہیں دشینت نے کہا میں وشواس دلاتا ہوں کہ سب کا کام ہوگا ۔
کلن بولا لیکن تم نے تو سب سے پہلے اپنے باپ کو چھڑایا ۔ دوسرے جاٹوں کا
خیال کب کیا ؟
دشینت نے کہا یہ میرا نہیں بدیسی پرمپرا کا دوش ہے جہاں مجھے پڑھنے کے لیے
ودیش بھیجا گیا تھا ۔
کلن نے پوچھا ہم ۱۹۴۷ میں پردیسی سامراج سے آزاد ہوگئے۔ یہ تم درمیان
میں ان لوگوں کو کیوں لے آئے۔
جی ہاں لیکن آکفورڈ میں مجھے فرنگیوں نے سکھایا کہ (Charity begins at
home)
چوپال میں بیٹھے لوگوں کا شور بلند ہوا ۔ انگریزی ہمیں نہیں آتی اس لیے
ہریانوی میں بتاو۔
دشینت نے کہا معافی چاہتا ہوں، میں بھول گیا تھا ۔ ان کا مطلب ہے کہ بھلائی
کی شروعات اپنے گھر سے ہونی چاہیے ۔ میں نےاپنے گھر سے ابتداء کرکےپتاجی کو
چھڑا لیا ہے۔ ابھی تو داداجی بھی نہیں چھوٹے لیکن چنتا نہ کریں بہت جلد یہ
بھلائی آپ لوگوں کے گھروں تک بھی پہنچ جائے گی ۔
للن بولا دیکھو کلن یہ بیچارہ اب کر بھی کیا سکتا ہے؟ اس کو مرکزی سرکار کے
اشارے پر چلنا ہی ہوگا۔ اس کی بھول چوک معاف کردو۔
کلن نے کہا جی ہاں غلطی ہماری ہے۔ ہم اگر اس کے چکر منتشر نہ ہوتے اور متحد
ہوکر ہڈا کو ووٹ دیتے تو آج جاٹوں کو ہرا کر کمل پھر سے نہ کھلتا۔
اپنی غلطی پرچوپال میں موجود سارے لوگوں کا سر شرم سے جھک گیا ۔
للن بولا غمگین لہجے میں کہہ رہا تھا ۔ اب اسے بھول جاوکیونکہ ’ اب پچھتائے
کا ہوت جب چڑیا چگ گئی کھیت‘
|