سانحہ تیز گام ایکسپریس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا عمران خان اپنی بات پر عمل پیرا ہوں گے؟

سانحہ تیز گام ایکسپریس پاکستان کی تاریخ کا ایک رقت انگیز واقعہ ہے۔ اس واقعے کا تعلق کراچی سے چلنے والی تیز گام ایکسپریس سے ہے۔ سچی بات ہے اس تحریر کا مقصد کراچی کے نشیب و فراز کو بیان کرنا نہیں بلکہ سو چا ذکر آیا ہے توکچھ نہ کچھ لکھتا جاؤں۔ شہر کراچی جوکہ کبھی پاکستان کے دارالخلافہ کے طور پرہی نہیں بلکہ کاروباری عروج کے اعتبار سے بھی اپنی مثال آپ تھا ۔مزید یہ کہ اسے روشنیوں کے شہر کے طورپر بھی جانا جاتا تھا۔ روزگار کے حصول کے لیے پاکستان کے طول و عرض سے لوگوں کی اکثریت اس شہر کی طرف سفر کرتی تھی ۔ مگر اب اس شہر کے حالات پہلے کی نسبت قدرے مختلف ہیں ۔ جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر، بدبودار گندا پانی اگلتے گٹر، ٹوٹ پھوٹ کی شکار سڑکیں ،سفر کے لیے ہچکولے لیتی جان لیوا پرانی بسیں جن سےشہریوں کی زندگیاں اجیرن ہی نہیں بلکہ اس شہر کا حسن بھی ماند پڑگیا ہے۔ شاعر کے الفاظ میں

بس میں لٹک رہا تھا کوئی ہار کی طرح
کوئی پڑا تھا سایۂ دیوار کی طرح
سہما ہوا تھا کوئی گناہ گار کی طرح
کوئی پھنسا تھا مرغ گرفتار کی طرح

اس شہر کے مکین پینے کے لیے صاف پانی جیسی بنیادی ضرورت کے حصول کے لیے بھی مارے مارے پھرتے نظر آتے ہیں جو کہ حکومت سندھ کی حسن کارکردگی پر ایک سیا ہ دھبہ ہے۔کہنے کے لیے بہت کچھ ہے خیر اس پر پھر کبھی تفصیلی بات کریں گے اور اپنے اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔ افسوسناک سانحہ تیز گام ایکسپریس اس وقت رو پذیر ہوا جب پاکستان کے سیاسی میدان میں ایک عجیب سی ہلچل مچی ہوئی ہے ۔اقتدار کی کرسیوں پر جلوہ افروز حکمران اورحکومت مخالف تمام سیاسی ومذہبی پارٹیاں ایک دوسرے پر بھرپور تنقید کررہی ہیں۔ مگر اس واقعے نے تمام سیاسی و مذہبی پارٹیوں کے باہمی اختلافات کو بھلا کر ہر ذی شعور کو انسانی ہمدردی میں یکجا ہی نہیں بلکہ ہر آنکھ کو اشکبار بھی کر دیا ہے۔ ہاں ہاں ہر طرف سے سانحہ تیز گام ایکسپریس کی لپیٹ میں آنے والوں کے لیے غم کا اظہار کیا جارہا ہے۔

معاملہ کچھ یُوں ہے کہ فلسفہ زندگی ایک ہی جگہ سکونت پذیر اختیار کرنے کا نام نہیں ہےبلکہ معاملات زندگی کو نمٹانے کے لیے ایک جگہ سے دوسری جگہ حرکت کا نام ہے۔ یہ معاملات زندگی نوعیت کے اعتبار سے مختلف اشکال میں ملتے ہیں جن میں عبادات، کاروباری لین دین ، رشتہ داروں سے میل جول یا گھریلو مصروفیات وغیر ہ سر فہرست ہیں۔ اسی فلسفہ زندگی کے تحت کچھ لوگ کراچی سے تیز گام ایکسپریس پر سوار ہوئے جن میں تبلغی جماعت سے تعلق رکھنے والوں کی بھی اکثریت تھی

یہ اسلام پسند لوگ جو کہ محمد عربیﷺ کے مشن پر چلتے ہوئے پروردرگار کے ہاں سجدہ ریز ہونے نکلے تھے بس ذہن میں ایک ہی خیال سمیٹے ہوئے تھے کہ رب کبریا سے گناہوں کی بخشش کروا لیں گے، رسول خدا کی حدیث سے سینے منوّر کرلیں گے۔ اسی خوبصور ت آرزو کے پیش نظر کعبہ کے رب کی خوشنودی کےلیے نہ مہنگائی سے بڑھتے ہوئے کرایوں کو دیکھا نہ گزرتے ہوئے وقت کو بتانے والی گھڑی کی ٹک ٹک پر کان دھرےاور نہ ہی اس بات کو سوچا کہ خود کی غیر موجودگی سے کاروبار اور دیگر معاملات زندگی متاثر ہوسکتےہیں۔ بس الرزّاق اور المھیمن کو ہی بڑا مانتے ہوئے اپنے بوری بسترے کو گول کیا اور کچھ استعمال کی چیزوں کو ہمراہ لیا۔ جن میں بدلتے ہوئے موسم کے پیش نظر رضائیاں ، گدے، رومال ،خشک راشن، کھانا پکانے کےلیے دیگچیاں اور سیلنڈر شامل تھے۔

تیزگام ریل گاڑی منزل مقصود کی طرف روانہ ہوئی تویہ بھلے مانس مسافر نہیں جانتے تھے کہ یہ سفر ان کی زندگی کا آج آخری سفر ثابت ہوگا۔ بہرحال ریل گاڑی چلتے چلتے جب ساہیوال کے قریب پہنچی تو اس میں خطرناک قسم کی آگ بھڑک اُٹھی جس نے مختصر وقت میں ریل گاڑی کی کم وبیش تین بوگیوں کواپنی لپیٹ میں لے لیا۔ آگ بجھانے والے آلات کی عدم دستیابی کے باعث اس کی شدّت و حدّت میں آضافہ ہوتا چلا گیا۔ہنستی مسکراتی زندگیاں تڑپنے لگیں، دم گھٹنے لگے ،اور دیکھتے ہی دیکھتے لقمہ اجل بن گئے۔ یقین جانیے یہ سماں کس قدر ہیبت ناک ہو گا ؟ اناللہ وانا الیہ راجعون۔

ہائے زندگی تو ہر کسی کو محبوب ہوتی ہے جس کے پیش نظر کچھ لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت زندگی بچانے کے لیے چلتی ریل گاڑی سے چھلانگیں لگانا شروع کردیں کچھ کے بازوؤں کی ہڈیاں چُور چُور ہو گئیں، کچھ کی ٹانگیں ٹوٹ گئیں اور طرح طرح کے زخم آئے ۔ جو لوگ خود کو آگ کے نکلتے ہوئے دہکتے شعلوں سے بچانے میں ناکام رہے ان کے جسم مکمل طور پر جھلس گئے جو کہ پہچان کے قابل بھی نہیں ہیں ۔ جاں بحق ہونے والوں کی تعداد پر نظردوڑائی جائے تو تقریباً پچھتر لوگ جان سے گئےاور ساٹھ کے لگ بھگ شدید زخمی حالت میں ہسپتالوں میں زندگی اور موت کی کشمکش میں زیر علاج ہیں۔

پاک فوج کے ساتھ ساتھ دیگر فلاحی تنظیموں نے اس کام میں بھرپور حصہ لیا۔ اور حکومت وقت نے جاں بحق ہونے والے کے لواحقین کے لیے 15،15 لاکھ اور زخمیوں کے لیے 5 لاکھ فی کس دینے کا اعلان کیاہے۔ جو کہ مالی معاونت تو ثابت ہوسکتی ہے مگر لوگوں کے اصل زخم نہیں بھرے جا سکتےہیں۔

بہرحال اس درد بھرے سانحے سے کئی گھروں میں صف ماتم بچھ گئی ہے ۔ ابو ابو پکارنے والےبچے یتیم ہو گئے، عورتیں بیوہ ہوگئیں، ماں باپ کی آنکھوں کے تارے ٹوٹ گئےاور لوگ اپنے پیاروں کی راہیں تکتے رہ گئے۔ مگر ریل گاڑی کے یہ سوار ہمیشہ کے لیے دنیا فانی سے رخصت ہوگئےاور اس کے ساتھ ہی رب کبریا کے پیغام کی ترجمانی بھی کرتے چلے گئے۔قرآن حکیم میں ارشاد ہے۔

جو کوئی زمین پر ہے فنا ہوجانے والا ہے۔ اور آپ کے پروردگار کی ذات باقی رہے گی جو بڑی شان اور عظمت والا ہے (سورہ الرحمان آیت 26-27)

اس سانحےنے دنیا فانی کے مال و دولت سےخود کو آراستہ کرنے کی لالچ میں لوٹ مار کا بازار گرم رکھنے والوں کے لیے ، لوگوں کی زندگیوں سے کھیلنے والوں کے لیے،نفرت کو ہوا دینے والوں کے لیے، ایک دوسرے کو بے جا اذیت کا نشانہ بنانے والوں کے لیے بھی ایک سبق چھوڑا ہے ۔شاعر کے الفاظ میں

زندگی سے اتنا پیار نہ کر
چلے تجھ کو بھی جانا ہے زمین کے اندر

ساتھ ہی ساتھ اس درد ناک واقعے نے سیاستدانوں کے لیےبھی کئی سوالات ہی پیدا نہیں کیے بلکہ ایک امتحان میں بھی ڈال دیا ہے۔ وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے بیان دیتے ہوئے کہا کہ یہ سانحہ سلینڈر پھٹنے سے ہوا ہے ۔ جبکہ سوشل میڈیا پر چلنے والی دیگر ویڈیوز کے مطابق عینی شاہدین کا یہ کہنا ہے کہ یہ واقعہ شارٹ سرکٹ کی وجہ سے ہواہے۔ اگر سلینڈر پھٹنے سے دھماکہ ہوتا تو زور دار آواز سنائی دیتی مگر ایسا کچھ نہیں ہوا

بہرحال عینی شاہدین اور وزیر ریلوے کے بیانات میں خوب تضاد پایا جاتا ہے۔ دونوں اعتبار سے ریلوے انتظامیہ کی کارکردگی تسلی بخش نہیں ہے جس پر عام عوام ایک دوسرے سے سوال کرتے نظر آتے ہیں۔ گیس سے بھرے سلینڈر ریل گاڑی میں کیوں لے جانے دیے گئے؟۔اگرشارٹ سرکٹ سے ہوا تو عوام کے خون پسینے کا پیسہ کس جگہ خرچ ہورہاہے؟ حکمران عوام سے سنجیدہ کیوں نہیں ہیں؟

رہی بات اس سانحے کی شفاف تحقیقا ت کی تو اس حوالے سےوزیر اعظم عمران خان کے ماضی کے بیانات ملتے ہیں جو کہ ریلوے حادثے پر ڈنکے کی چوٹ کہا کرتے تھے کہ یہ تحقیقات اتنی دیر تک شفاف نہیں ہوسکتیں جب تک ریلوے کا وزیر اپنے عہدے سے مستعفی نہ ہو۔ شیخ رشید صاحب کی وزارت میں متعدد بار ریلوے حادثات ہو چکےہیں مگر کوئی استعفی عمران خان صاحب نے نہیں مانگا اور نہ ہی وزیر ریلوے نے اس بارے میں کچھ سوچا۔معاف کرنا انسان ہوں سوچ سوچی جا سکتی ہے فی الحال اب بھی ایسا ہی لگتا ہے۔ اقبال نے اسی لیے کہا تھا۔

اقبال بڑا اپدیشک ہے من باتوں میں موہ لیتا ہے
گفتار کا یہ غازی توبنا ،کردار کا غازی بن نہ سکا
 

Irfan Qayyum
About the Author: Irfan Qayyum Read More Articles by Irfan Qayyum: 12 Articles with 13485 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.