ہجرتِ مدینہ اسلام کی تاریخ کا وہ اہم موڑ ہےجسے طے کرنے
کے بعد ایک فیصلہ کن دور کا آغاز ہوتا ہے۔ اوائل اسلام میں مکہ میں
مسلمانوں کا ایک الگ نظریات و اقدار کی حامل اکائی کے طور پر وجود تو تھا
لیکن یہ اکائی کسی مؤثر حیثیت کی حامل نہ تھی۔مسلمانوں کو اپنی بقا اور
استحکام کے لیے ایک پر امن معاشرے اور خوشگوار فضا کی ضرورت تھی۔ چنانچہ
مصرِّف القلوب اور حکیم ذات نے مکہ سے اڑھائی تین سو میل دور یثرب نامی ایک
بستی کے مکینوں کے دلوں میں اسلام کی محبت ڈال دی اور 70 سے زائد اہل وفا
نے اپنے آقا علیہ الصلاۃ والسلام کی بیعت کی اور عظیم الشان مشن کی تکمیل
کے لیے جان ومال کی بازی لگا دینے کا عہد کیا۔ وہ وجود مسعود ﷺ کو اپنے
درمیان دیکھنے کے شدید خواہش مند تھے اور آپکی برکات و عنایات سے مستفید
ہونا چاہتے تھے۔
دوسری طرف دشمنانِ اسلام کے ظلم و ستم اور اشاعتِ اسلام میں حائل رکاوٹوں
کا سلسلہ بھی تیز سے تیز ہوتا جارہا تھا یہ سب کچھ دیکھ کر انہوں نے تاجدار
رسالت مآب ﷺ کو مدینہ منورہ میں تشریف لانے کی دعوت پیش کی اور آپ ﷺ اور
آپکے جانثار ساتھیوں کی مہمان نوازی کرنے کی خواہش ظاہر کی تو نبی مکرم ﷺ
نے انکی دلجوئی کے لیے بحکم خداوندی مسلمانان مکہ کو یثرب کی طرف ہجرت کا
حکم دیا تاکہ مسلمان اس قریۂ جبر سے نکل کر امن و امان کے ساتھ فریضۂ بندگی
سر انجام دینے کے ساتھ تحریک اسلامی کو بھی آگے بڑھا سکیں۔
ایک روایت میں ہے کہ حضور رحمت عالم ﷺ نے مسلمانانِ مکہ کو مکہ سے مدینہ کی
طرف ہجرت کرنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا: إن الله قد جعل لكم اخوانا و دارا
تامنون بها. یعنی بے شک اللہ تعالی نے تمہارے لئے بھائیوں اور گھر کا
انتظام کر دیا ہے جہاں تم پرامن طور پر رہ سکو گے۔یوں حضور ختمی مرتبت ﷺ کا
حکم پاتے ہی مسلمانانِ مکہ، مدینہ کی طرف شاہراہِ ہجرت پر رواں دواں نظر
آنے لگے۔
اسباب
نبی معظم ﷺ کا مکہ معظمہ کو خیرآباد کہہ کر مدینہ منورہ چلے آنا اور چھوٹی
سی آزاد ریاست قائم کرنا کوئی اچانک پیش آنےوالا واقعہ نہیں ہے۔ بقول شاعر
وقت کرتا ہے پرورش برسوں حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
ہم یہاں کتب احادیث و سیر کی روشنی میں ہجرت نبوی ﷺ کے چند اہم اسباب مختصر
طور پر قارئین کی خدمت میں پیش کریں گے۔
اہل مکہ کی ہٹ دھرمی
بعثت سے پہلے حضور اکرم ﷺ مکہ میں ہر دلعزیز تھے اور صادق و امین کے لقب سے
جانے جاتے تھے۔ تمام قریش آپ ﷺ کے اخلاق حمیدہ کے گن گاتے تھے۔ لیکن نزول
وحی کے بعد جب آپ ﷺ کو حکم ملا کہ کھلم کھلا دین کی تبلیغ کرو تو اکثر لوگ
آپ ﷺ کے خلاف ہوگئے۔آپ ﷺ نے اللہ کے دین کو پھیلانا تھا۔ ہٹ دھرم اور ضدی
لوگوں میں رہ کر نبوت کا یہ فرض منصبی انجام نہیں دیا جا سکتا تھا۔
قریش کا ظلم و ستم
قریش مکہ نے صرف دین اسلام کو جھٹلانے اور توحید سے انکار کرنے پر اکتفا
نہیں کیا بلکہ خود حضور ﷺ اور انکے ساتھیوں پر طرح طرح کی سختیاں شروع کر
دیں حضور ﷺ پر غلاظت پھینکنا، راستے میں کانٹے بچھانا، راہ چلتے ہوئے آوازے
کسنا اور سب سے بڑھ کر معاشرتی اور اقتصادی مقاطعہ کرنا اور آپ ﷺ کے صحابہ
رضی اللہ عنہم کو بھی تکلیفیں دینا جنکی داستان بڑی دردناک اور طویل ہے؛ ان
کی بنیاد پر مسلمانوں کا مکہ میں رہنا محال ہو گیا تھا۔
تبلیغ دین میں دشواری
مکہ میں اس قسم کے حالات تھے کہ نہ تو مسلمان کھلم کھلا دین کی اشاعت کر
سکتے تھے اور نہ ہی آزادی سے اسلامی احکام کے مطابق اپنی زندگی گزار سکتے
تھے۔ اس مقصد کے لیے آپ ﷺ طائف بھی تشریف لے گئے تھے لیکن کامیابی نہ ہوئی۔
اب دین کی نشرواشاعت کا کوئی اور مرکز تلاش کرنا ضروری ہو گیا تھا۔
ہجرت کا فوری سبب
ہجرت کا فوری سبب کفار مکہ کا آپ ﷺ کے قتل کی ناپاک سازش کی تیاری تھا۔
قریش مکہ نے ابوجہل کی تجویز پر یہ فیصلہ کیا کہ ہر قبیلہ سے ایک ایک
طاقتور اور تجربہ کار نوجوان چنا جائے اور ایک رات انہیں آستانۂ مبارک پر
متعین کردیا جائے اور موقع پاکر یہ حضرت محمد ﷺ پر یکدم ٹوٹ پڑیں اور آپ ﷺ
کا کام تمام کر دیں (العیاذ باللہ) لیکن اللہ تعالی کے وعدے "والله يعصمك
عن الناس" کے مطابق وہ آپ کو کسی قسم کی ایذا دینے میں کامیاب نہ ہو سکے۔
مدینہ کی طرف روانگی
جس رات نبی آخر الزماں ﷺ اپنے آبائی وطن مکہ کو چھوڑ کر مدینہ منورہ کو
اپنا مستقر بنانے کے لئے روانہ ہوئے۔آپ ﷺ کے پرانے دوست جن کے لیل ونہار آپ
کے ساتھ گزرے تھے،جو آپ ﷺ کے مزاج سے بخوبی واقف تھے اور آپ ﷺ ان کے مزاج
کو اچھی طرح جانتے تھے۔وہ اس کٹھن سفر میں استقامت کا پہاڑ بن کر آپ ﷺ کے
ساتھ روانہ ہوئے۔اس تاریخی سفر میں کئی ایسے واقعات پیش آئے جن سے صدق و
وفا کے پیکر حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کی بے مثال وفا،
استقامت اور صبروتحمل کے نمونے نکھر کے سامنے آتے ہیں وہیں نبی اکرم صلی
اللہ علیہ وسلم کی برکات و عنایات اور فیاضی و سخاوت سے اپنے اور بیگانے
جام بھرتے نظر آتے ہیں۔یارانِ سفر جہاں جہاں سے بھی گزرے خوشبوئیں بکھیرتے
چلے گئے۔چناچہ ایک نئے دور کا آغاز ہو رہا ہے ہر شعبہ زندگی میں انقلاب
آفرین تبدیلیوں کا دور آنے والا ہے۔نئی صبح کے اجالوں سے منظرنامہ تحریر ہو
رہا ہے۔
کتب سیر و اَحادیث میں حضور نبی اکرم ﷺ کا ہجرت کے بعد مدینہ منورہ آمد کا
حال اس طرح بیان کیا گیا ہے:
تشریف آوری کی خبر مدینے میں پہلے پہنچ چکی تھی، تمام شہر ہمہ تن چشم
انتظار تھا، معصوم بچے فخر اور جوش میں چلتے پھرتے تھے کہ پیغمبر آرہے ہیں،
لوگ ہر روز تڑکے سے نکل کر شہر کے باہر جمع ہوتے اور دوپہر تک انتظار کرکے
حسرت کے ساتھ واپس چلے آتے، بالآخر انتظارکی گھڑیاں ختم ہوتی ہیں، کھجوروں
والی خوش نصیب بستی کا مقدر جاگ اٹھتا ہے، فضائیں درود وںسلام کی صداؤں سے
معمور ہو جاتی ہیں، منتظر لوگوں کا پورا وجود اپنی آنکھوں میں سمٹ آتا
ہے۔والئی کون ومکاں اپنے ہم سفر کے ساتھ جلوہ افروز ہوتے ہیں۔صحیح مسلم میں
ہے۔
فصعد الرجال والنساء فوق البیوت، وتفرق الغلمان والخدم فی الطرق، ینادون:
یا محمد! یا رسول اﷲ! یا محمد! یا رسول اﷲ!
یعنی مرد و زن گھروں پر چڑھ گئے اور بچے اور خدام راستوں میں پھیل گئے، سب
بہ آواز بلند کہہ رہے تھے:
یا محمد! یا رسول اللہ!یا محمد! یا رسول اللہ!
اپنے آقا ﷺ کی سواری دیکھ کر جاں نثاروں پر کیف و مستی کا ایک عجیب سماں
طاری ہوگیا۔ اِمام رویانی کےمطابق اہالیانِ مدینہ جلوس کی شکل میں یہ نعرہ
لگا رہے تھے:
جاء محمد رسول اﷲ صلی الله علیه وآله وسلم.
”اﷲ کے رسول حضرت محمد مصطفی ﷺ تشریف لے آئے ہیں۔‘‘
معصوم بچیاں اور اَوس و خزرج کی عفت شعار دوشیزائیں دف بجا کر دل و جان سے
محبوب ترین اور عزیز ترین مہمان کو اِن اَشعار سے خوش آمدید کہہ رہی تھیں:
صحیح مسلم میں اس کی منظر کشی یوں کی گئی ہے۔
طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَیْنَا
مِنْ ثَنِیَّاتِ الْودَاعِ
وَجَبَ الشُّکْرُ عَلَیْنَا
مَا دَعَا ِﷲِ دَاعٍ
أَیُّهَا الْمَبْعُوْثُ فِیْنَا
جِئْتَ بِالْأَمْرِ الْمَطَاعِ
”ہم پر وداع کی چوٹیوں سے چودھویں رات کا چاند طلوع ہوا، جب تک لوگ اللہ کو
پکارتے رہیں گے ہم پر اس کا شکر واجب ہے۔ اے ہم میں مبعوث ہونے والے نبی!
آپ ایسے اَمر کے ساتھ تشریف لائے ہیں جس کی اِطاعت کی جائے گی۔ “
یہ داخلہ عجب شاندار تھا، گلی کوچے تحمید و تقدیس کے کلمات سے گونج رہے
تھے، مرد، عورت، بچّے، بوڑھے آپ ﷺ کا جلوہ دیکھنے کے لیے سراپا چشم بن گئے
تھے۔ مسرت اور انبساط کا یہ عالم تھا کہ خواتین جمال نبوی کے دیکھنے کے لئے
چھتوں پر چڑھی ہوئی تھیں۔
انصار کا ایک عظیم الشان گروہ ہتھیار سجائے ہوئے آپ ﷺ کے دائیں بائیں اور
آگے پیچھے آپ ﷺ کے جلو میں چل رہا تھا۔ہر شخص کی تمنا اور آرزو یہ تھی کہ
کاش آپ ﷺ میرے ہاں قیام فرمائیں، ہر طرف سے یہی والہانہ اور محبت سے بھرپور
نیاز مندی کی استدعا تھی۔ لیکن حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے مقدر
کا ستارہ چمکتا ہے اور اللہ کی جانب سے مامور اونٹی ان کے گھر کے سامنے
بیٹھ جاتی ہے۔
نتائج
سرکار دوعالم ﷺ اور آپکے جانثار ساتھیوں کی مدینہ کی طرف ہجرت سے اسلام پر
بہت سے نتائج و اثرات مرتب ہوئے جنہیں مختصر طور پر بیان کیا جاتا ہے۔
حضور کی تشریف آوری سے شہر کا ماحول ہی بدل گیا۔ پہلے یہاں کی آب و ہوا صحت
کے لیے سازگار نہ تھی۔ بخار اور دیگر متعدی بیماریاں وبا کی صورت میں
پھوٹتی رہتی تھیں۔ پانی خوش ذائقہ نہ تھا؛ اس وجہ سے اسے یثرب کے نام سے
یاد کیا جاتا تھا۔ حضور اکرم ﷺ کے تشریف لانے سے صرف اسکا نام ہی تبدیل
نہیں ہوا بلکہ آب و ہوا بھی خوشگوار ہوگئی، مزاج بدل گئے، جانی دشمن باہم
شیر و شکر ہو گئے۔
مہاجرین جب مکہ مکرمہ سے اللہ تعالی کی رضا کے لئے اپنے اہل وعیال، خویش و
اقارب او گھر بار چھوڑ کر مدینہ پہنچے تو آپ ﷺ نے دنیائے کائنات میں محبت و
مودت کا محیرالعقول کارنامہ سرانجام دیا۔مہاجرین و انصار کو مواخات (بھائی
بندی) کا حکم دیا تاکہ وطن اور اہل و عیال سے جدائی کا غم اور پریشانی
انصار کی الفت اور موانست سے بدل جائے۔ضعیف اور کمزور کو قوی اور زبردست کی
اخوت سے قوت حاصل ہو، انصار نے جس طرح مواخات کا حق ادا کیا اور جس مخلصانہ
ایثار کا ثبوت دیا اس کی نظیر ملنا ناممکن ہے۔
مکہ میں سماجی لحاظ سے ایک ثقافتی اکائی کے طور پر مسلمانوں کا وجود تو تھا
لیکن یہ اکائی کسی مؤثر حیثیت کی حامل نہ تھی۔ دیگر عرب قبائل مسلمانوں کے
وجود کو تسلیم بھی نہیں کرتے تھے۔ لیکن ہجرت کے بعد مدینہ میں مسلمان ایک
سیاسی قوت کے طور پر ابھرے۔حضور اکرم ﷺ نے مدینہ کے داخلی استحکام پر توجہ
فرمائی اور اپنی سیاسی گرفت کو مضبوط بنایا۔
میثاق مدینہ نے مسلم اور غیر مسلم کو ایک نظم کا پابند بنا کر شہر کے دفاع
کے لئے تیار کیا۔غیر مسلموں کا حضور ﷺ کو اپنا حاکم تسلیم کر لینا سیاسی
محاذ پر مسلمانوں کی ایک بہت بڑی فتح تھی۔
مدینہ منورہ میں یہود کی کافی تعداد تھی یہاں انکے مدرسے اور علمی مراکز
تھے اور خیبر میں بھی ان کی پوزیشن کافی مضبوط تھی یہ لوگ لوگ اہل کتاب تھے
اور سرزمین حجاز میں مشرکین کے مقابلے میں علمی فوقیت اور امتیاز حاصل
تھا۔لیکن جب آپ ﷺ ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو حسدو بغض کی آگ اور مشتعل
ہوگئی اور وہ سمجھ گئے کہ اب ہماری علمی برتری ختم ہوگئی ہے اس لیے انہوں
نے حق کی عداوت میں پچھلوں کی اتباع کی۔ قرآن کریم ان کی شرارتوں اور فتنہ
پردازیوں کے بیان سے بھرا پڑا ہے اس لیے آپ ﷺ نے ان سے معاہدہ کیا تھا کہ
فریقین اطمینان و سکون سے رہ سکیں اور عظیم مشن کے حصول میں رکاوٹیں کھڑی
نہ ہوں۔
مدینہ دفاعی اعتبار سے بھی بہت محفوظ مقام تھا جس کے تین اطراف پہاڑ اور
ایک طرف نخلستان تھے۔ مکہ سے جانے والے تمام تجارتی قافلے اس راستے سے
گزرتے تھے، آب و ہوا اور پیداوار کے لحاظ سے بھی یہ مقام خاصی اہمیت رکھتا
تھا۔
ہجرت مدینہ کے بعد مدینہ منورہ میں مسجد نبوی ﷺ کی تعمیر ترجیحی بنیادوں پر
ہوئی۔کیونکہ اس نئی تحریک کو اپنا دعوتی کام جاری رکھنے اور آئندہ کی
منصوبہ بندی کے لیے اپنے ہیڈکوارٹر کی اشد ضرورت تھی۔ مسجد نبوی نہ صرف
عبادت گاہ تھی بلکہ تمام انتظامی، سفارتی اور عدالتی نوعیت کے مسائل بھی
یہیں ہوتے تھے۔ یہیں وفود ٹھہرائے جاتے، یہیں جوانوں کو تربیت دی جاتی اور
یہیں فلاح و بہبود کے امور طے کیے جاتے۔
مندرجہ بالا نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ سرکار مدینہ ﷺ کی مدینہ کی طرف ہجرت
سے اسلام کی نئی تاریخ شروع ہوئی، مسلمان ہر لحاظ سے مستحکم ہوئے، انکو
علیحدہ تشخص ملا، اس سر زمین پر پہلی نظریاتی اسلامی ریاست قائم ہوئی اور
اسلام تیزی سے چہار دانگ عالم میں پھیلنا شروع ہوا۔
مصادر و مراجع
صحیح مسلم
سیرۃ النبی، شبلی نعمانی
ضیاء النبی، پیر کرم شاہ الازہری
رحیق المختوم، صفی الرحمن مبارکپوری
سیرت الرسول، ڈاکٹر محمد طاہر القادری
|