بتوں کی تجارت سے آج کے مذہب فروشوں تک

(sohail ahmad sameem, Abbottabad)

بتوں کی تجارت سے آج کے مذہب فروشوں تک
تحریر: سہیل احمد صمیم
سیرتِ رسول ﷺ میں ایک اہم واقعہ ملتا ہےکہ مشرکین و کفارِ مکہ نے نبی اکرم ﷺ کے سامنے دنیا کی ہر آسائش اور ظاہری کامیابی کی پیشکش/آفر رکھی۔ کہا کہ آپ چاہیں تو سرداری، دولت اور من پسند عورت سے نکاح کے مواقع سب آپ کو مل جائیں گے، بشرطیکہ ہمارے بتوں کو برا نہ کہیں۔ نبی کریم ﷺ نے دوٹوک الفاظ میں انکار کیا جس کا مفہوم یوں ہے۔
“اگر میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاند رکھ دیا جائے تب بھی میں اس مشن سے باز نہ آؤں گا۔”
یہ جواب صرف ایک انفرادی استقامت کی مثال ہی نہیں بلکہ ایک نظامِ فکر کی بنیاد تھا۔ اگر اس انکار کو سمھجا جائے تو کئی تاجرانِ مذہب و ملت، مسلک و فرقہ پر ایک کاری ضرب پڑ سکتی ہے۔ یہ انکار کئی بڑے اہم اور درج ذیل سوالات کو جنم دیتا ہے۔
1. کفارِ مکہ اس قدر بضد کیوں تھے کہ ان کے بتوں کو برا نہ کہا جائے؟
2. کیا یہ محض عقیدے کا مسئلہ تھا یا اس کے پیچھے کچھ اور تھا؟
3. کفارِ و مشرکینِ مکہ کی ایسی کیا مجبوری تھی کہ انہیں یہ آفر کرنی پڑی؟ کیونکہ نبی پاک کسی کو زبردستی تو مسلمان نہیں کرتے ہیں ۔ یعنی جو نہیں ہونا چاہتے وہ داخل اسلام نہ ہوں۔
4. کیا لوگوں کا اسلام میں داخل ہونا مسئلہ تھا یا کوئی اور ڈر؟
آئیں اس گتھی کو سلجھاتے ہیں۔
تاریخی مطالعے سے یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ مکہ میں کعبہ بتوں سے بھرا ہوا تھا۔ پورے عرب سے لوگ ان بتوں کی زیارت کے لیے آتے تھے۔ قافلے رکتے، بازار سجتے، نذرانے اور تجارت ہوتی، رہائش کا بندوبست کیا جاتا۔ یعنی وہ بت محض عقیدے کی علامت نہیں تھے بلکہ سردارانِ مکہ کی معیشت کا سب سے بڑا ذریعہ تھے۔
لہٰذا نبی اکرم ﷺ جب ان بتوں کے خلاف بات کرتے تھے (یعنی ان کی اصل حقیقت کھولتے کہ یہ بت تمہیں کچھ دے نہیں سکتا۔ دینے والی ذات صرف اللہ پاک کی ہے) تو دراصل سردارانِ مکہ کی “تجارتِ مذہب” پر ضرب لگتی تھی۔ ان کے خدشات یہ تھے کہ اگر لوگ بتوں سے دل موڑ لیں گے تو نہ صرف زائرین کم ہو جائیں گے بلکہ وہ کاروبار بھی ٹوٹ پڑے گا جس پر ان کی سرداری اور معاشی اجارہ داری کھڑی تھی۔ یعنی اصل مسئلہ تھا مال و دولت جو وہ مذہب کے نام پر چلا رہے۔ ان کو اصل تکلیف کسی کے مسلمان ہونے سے اتنی نہیں ہوتی تھی جتنی معاشی نقصان پر۔ اسی بدولت وہ خود کی اصلاح بھی نہیں چاہتے تھے۔
آج کا مذہبی منظر، تجارت اور مذکورہ واقعہ ۔
اب آئیے اس حقیقت کو آج کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔ کیا فرق ہے؟ آج بھی “بت پرستی” نئے ناموں اور نئے لباس میں زندہ ہے۔ کوئی مسلک فروش ہے جو اپنے مریدوں کو ڈرا کر چندہ اور نذرانے وصول کرتا ہے۔ کوئی مذہب فروش ہے جو دین کو “برانڈ” بنا کر بیچتا ہے؛ جلسے، فنڈز اور چندے اس کا کاروبار ہیں۔ کوئی ملت فروش ہے جو فرقہ وارانہ نعرے لگا کر عوام کو تقسیم کرتا ہے تاکہ اس کے حلقے بھرے رہیں۔ یہ لوگ دراصل وہی کردار ادا کر رہے ہیں جو قریش کے مشرک سردار ادا کر رہے تھے۔ ان کے معبد اور منبر آج کے بازار ہیں۔ جس طرح مشرکین قریش اپنے بتوں کی حقیقت سننے پر تیار نہ تھے، یہ بھی خود پر تنقید برداشت نہیں کرتے۔ ان کے لیے مذہب ایک روحانی پیغام نہیں بلکہ ایک معاشی سرمایہ ہے۔
جب بھی کوئی اصل توحید، اصل مساوات اور اصل دیانت کی بات کرتا ہے تو ان کے کاروبار پر بجلی گرتی ہے۔ وہ شور مچاتے ہیں، فتوے دیتے ہیں، دشمنی پر اتر آتے ہیں۔ کیونکہ اصل مسئلہ عقیدے کا نہیں، بلکہ دکان کے بند ہونے کا ہے۔
نبی اکرم ﷺ نے سچائی کو دنیاوی پیشکشوں کے بدلے فروخت نہ کیا۔ یہ پیغام آج بھی تازہ ہے۔ دین کو دکان بنانے والوں کو للکارنا ہی اصل وفاداری ہے۔
اگر ہم مشرکین قریش کی اس پیشکش کے پیچھے چھپی معاشی مجبوری کو سمجھ جائیں تو ہمیں آج کے ہر مذہب فروش اور مسلک فروش کی حقیقت کھل کر نظر آ جائے گی۔ یہ بھی طے ہے کہ جیسے اُس وقت بت ٹوٹے تھے، ویسے ہی آج کے مذہبی کاروبار بھی ایک دن اپنی حقیقت کے بوجھ تلے ڈھے پڑیں گے۔

 

sohail ahmad sameem
About the Author: sohail ahmad sameem Read More Articles by sohail ahmad sameem: 2 Articles with 72 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.