اہلیان کراچی وہ قلندر ہے جو حالات کے قدموں میں نہیں گرتا

اہلیان کراچی وہ قلندر ہے جو حالات کے قدموں میں نہیں گرتا اور یہ شعور بھی کسی نہ کسی کی مرہون منت ہے

شعوری اعتبار سے شہر قائد نے ایک بار پھر اپنی حثیت ثابت کردی ہے لیکن کچھ قلبی اور انقلابی شعور کی بیداری میں بھی اپنی پہچان بتانا ہوگی جس کے بعد ہمارے وطن پیارے پاکستان کو ترقی سے کوئی نہیں روک سکتا کیونکہ اہلیان کراچی وہ قلندر ہے جو حالات کے قدموں میں نہیں گرتااور یہ شعور بھی کسی نہ کسی کی مرہون منت ہے عوام شہر قائدکی طرزفکرومحبت پاکستان کے لیئے سب سے بھاری حق وسچ سرخرو اہل کراچی کی قلبی خواہشات کونظراندازکرنے کے باوجود انکے نظریات پرقفل بندی ہونے کے باوجود ریونیو دینے میں روایتی تاریخ رقم کردی شہر سب کا ہے لیکن اسکے مسائل صرف شہر قائد میں مستقل رہنے والوں کے لیئے ہیں وسائل د ینے میں بخل سے کام لینے کی اس طرزفکر میں تبدیلی ضروری کراچی زخموں سے چور چور ہونے کے بعد بھی ملک کو مضبوط کاندھےفراہم کرنے میں ایک بار پھر کامیاب ملک کیلئے ریونیوجنریشن کیلئے خدمات کو تسلیمات کہنے کے بجائے اور اس کی تجارتی حیثیت کو مزید بڑھانے کیلئے انفراسٹرکچر بہتر بنانے پر کوئی توجہ نہیں اہلیان کراچی کے احساس محرومی کو بام عروج پر پہنچا رہی ہے شہر قائد عوام کی طرز فکر ومحبت پاکستان کے لیئے سب سے بھاری حق وسچ اہل کراچی کی قلبی خواہشات کونظراندازکرنے کے باوجود انکے نظریات پرقفل بندی ہونے کے باوجود ریونیو دینے میں انہوں نے تاریخ رقم کردی کراچی سب کاہے لیکن کراچی کے مسائل صرف شہر قائد میں مستقل رہنے والوں کیلیئے ہیں وسائل د ینے میں بخل سے کام لینے کی اس طرزفکر میں تبدیلی ضروری ہے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی جانب سے کئے گئے سروے کے مطابق صرف تجارتی مراکز سے ٹیکس کی وصولیابی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آج بھی شہرقائد ٹیکس جمع کروانے کے لحاظ سے سب سے آگے ہے مگر سہولیات کا فقدان اس شہر کا نصیب بنتا جا رہا ہے کچرے جیسا معمول کا کام بھی شہر کے ادارے کرنے میں یکسر ناکام دکھائی دے رہے ہیں حد تو یہ ہے کہ کراچی جمع شدہ کچرے کے لحاظ سے ملک کا سرفہرست شہر ہے حالیہ سندھ حکومت کی صفائی مہم میں دس فیصد جمع شدہ کچرا اٹھا کر ٹھکانے لگایا گیا جبکہ ضرورت تھی کہ جب تک کراچی کا بیک لاگ ٹھکانے نہیں لگتا اسوقت تک صفائی مہم جاری رہنی چاہیئے تھی ایف بی آر کے اعداوشمار ملاحظہ کئے جائیں تو کراچی کی ملک کیلئے ریونیوجنریشن کیلئے خدمات کو تسلیمات کہنے کے بجائے اور اس کی تجارتی حیثیت کو مزید بڑھانے کیلئے انفراسٹرکچر بہتر بنانے پر کوئی توجہ نہیں دی جا رہی ہے جو کراچی کے باسیوں کے احساس محرومی کو بام عروج پر پہنچا رہی ہے کراچی کی صرف 6 مارکیٹس جس میں صدر.طارق روڈ۔ کلفٹن گولیمار.فیڈرل بی ایریا ۔ڈی ایچ اے اور جوہر مارکیٹس دیگر شامل ہیں ٹیکس کی مد میں 30.87 ارب روپے جمع کروا رہی ہیں اور ٹیکس فائلرز کی تعداد 85020 ہے اور اگر کراچی کی دیگر مارکیٹس کو اس میں شامل کرلیا جائے تو ٹیکس فائلرز کی تعداد لاکھوں اور ٹیکس کی رقم اربوں سے کھربوں تک پہنچ جائے گی دیگر شہروں میں جس میں لاہور فیصل آباد راولپنڈی اور اسلام آباد بھی شامل ہیں ٹیکس فائلرز کی تعداد انتہائی کم ہونے کے ساتھ افسوسناک حد تک ٹیکس وصولیابیاں بھی انتہائی کم ہیں ماسوائے اسلام آباد کے جہاں 4 بازاروں سے 1.93 ارب روپے ٹیکس وصول ہورہا ہے لاہور تجارتی حب میں کافی آگے جاچکا ہے اور ملک کا دوسرا بڑا شہر ہے کی 4 بڑی مارکیٹس سے 567 ملین روپے ٹیکس وصول ہورہا ہے جبکہ ٹیکس فائلر کی تعداد صرف 3925 ہے جبکہ محدود اندازے کے مطابق چار بڑی مارکیٹس جس میں انارکلی مال حفیظ سینٹراور لبرٹی شامل ہیں ٹیکس وصولی اربوں میں ہونی چاہیئے لیکن نان فائلرز کی وجہ سے یہ معاملہ درست سمت میں نہیں جا رہا ہے جبکہ ایف بی آر کی کارکردگی بھی نامناسب دکھائی دے رہی ہے مختصرا یہ کہا جائے کہ کراچی زخموں سے چور چور ہونے کے بعد بھی ملک کو مضبوط کاندھے فراہم کر رہا ہے لیکن جب جسم زخم خوردہ ہو تو کب تک کراچی اپنے ناتواں کاندھوں پر یہ بوجھ اٹھائے رکھے گا ضرورت ہے کہ کراچی کے زخموں کو بھرنے کیلئے مارکیٹس سے ہونے والی ٹیکس وصولی کو ہی ایماندارانہ بنیاد پر شہر پر لگا دی جائیں تو کراچی پھر دوڑنے کے قابل ہو جائے گا اور ٹیکس فائلرز اور ٹیکس وصولیابیاں ملک کی مناسبت سے ہوسکتی ہیں جس طرح کراچی سہولیات کی فراہمی سے دور ہوتا جا رہا ہے اس طرح خدانخواستہ کاروبار ہی نہ رہے تو ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے کیا یہ بہتر راستہ نہیں ہے کہ کراچی کو ارباب اختیار صرف ایک سال کیلئے اسپیشل کیس کے طور پر لے کر اس ہی شہر کی ٹیکس ریکوری کو انفراسٹرکچر کی بہتری پر لگا دیں ایک مرتبہ ایسا کر دیا گیا تو کراچی وہ ٹیکس اس ملک کیلئے جنریٹ کر کے دے سکتا ہے جس کا تصور صرف معیشت کے ماہرین ہی سمجھ سکتے ہیں ضرورت اس امرکی ہے کہ شہرکراچی میں بھانت بھانت کے نظریات مسلط کرنیکاسلسلے پر مشتمل تجربات اب بندہوجانے چاہیئے مسلسل تجربات نے شہر قائد کوویژن سے عاری شہرمیں تبدیل کردیاہے۔

 

Syed Mehboob Ahmed Chishty
About the Author: Syed Mehboob Ahmed Chishty Read More Articles by Syed Mehboob Ahmed Chishty: 34 Articles with 29538 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.