کل رات میں ایک عجیب خواب دیکھا

کل رات میں ایک عجیب خواب دیکھا کیا دیکھتا ہوں بہت سارے باریش بزرگ ایک باغ میں ایک درخت کے نیچے جمع ہیں سب کے سب نے سفید لباس زیب تن کیئے ہوئے ہیں لمبی سفید اور داڑھیاں انکے چہرے کو منور کیئے ہوئے ہیں آنکھوں سے روشنی نکل رہی ہے،

چہرے اسقدر پر نور نگاہ تاب نہ لاسکےانکے لباسوں سے ایک مسحورکن خوشبو آتی تھی، سرجھکائے بیٹھے تھے ہلتے لبوں سے محسوس ہوتا تھا جیسے کسی عظیم مقصد کے حصول کے لیئے کوئی ورد کررہے ہیں کہ اچانک انکی نگاہیں آسمان کی طرف اٹھیں

بے اختیار میں بھی آسمان کی طرف دیکھنے لگا کیا دیکھتا ہوں ایک سنہرے رنگ کا انتہائی خوبصورت قالین انتہائی مدہم رفتارسے اڑتا ہوازمین کی طرف آرہا ہے اس قالین کے چاروں طرف ریشم کی جھالریں جھولتی ہوئی دیکھی جاسکتی تھیں، قالین کو چاروں طرف سے جگنووں نے اپنے حصار میں لے رکھا تھا قالین پہ ایک بزرگ بیٹھے تھے جنہوں نےلباس تو سفید رنگ کا زیب تن کررکھا تھا لیکن سر پہ آسمانی رنگ کا امامہ باندھ رکھا تھا جگنووں کی ٹم ٹم چاند کی چاندنی نے بزرگ کی شخصیت میں چار چاند لگا رکھے تھے،قالین کے اطراف سے مختلف خوشبوئیں آرہی تھیں

ایسےلگتا تھا جیسے کوئی پھول باقی نہیں بچا جس نےاپنی خوشبو نچھاور نہ کی ہو،قالین زمین پہ اترآیا بزرگ کے قالین سے اٹھتے ہی سارے جگنوں بزرگ کے سامنے سےہٹ کر انکےدائیں بائیں اور پیچھے چلےگئےبزرگ نے بلند آوازسےسبکوسلام کیا سب نے انتہائی احترام سے انکے سلام کا جواب دیا، بزرگ نے جیسے ہاتھ کے اشارے سے سبکو بیٹھنے کہا دیکھتا ہوں چند جگنوں بزرگ کے ہاتھ میں موجود انگوٹھئیوں پہ آ بیٹھے جیسے بزرگ نے ہاتھ نیچے کیا جگنوں واپس اپنے مقام پہ چلے گئے، بزرگ نے ایک مختصرسا خطاب شروع کیا جو کچھ اس طرح سے تھا

میرے محترم دوستو میں اپکا شکر گزار ہوں کہ آپ میری درخواست پہ تشریف لائے آپکی تعمیراتی شہرت مجھ تک پہنچی بلکہ بہت خوب پہنچی میرے محترم دوستو آج ہم سب ایک عظیم مقصد کے حصول کے لیئے اس مقام پہ جمع ہوئے ہیں ہم سب پہ اس عظیم مقصد کو بوجھ ڈالا گیا ہے،

اورمجھے یقین ہیکہ ہم میں ہرایک اس عظیم مقصد کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، میرے محترم دوستو اس عظیم مقصد کی کامیابی سے جو راستہ نکلے گا وہ سیدھا جنت کی طرف جائیگا، عرش اور فرش والوں کی نگاہیں اس عظیم مقصد پہ مرکوز ہیں

میرے محترم دوستوہم نے اس عظیم مقصد کی کامیابی ہرگز یقینی بنانا ہے اسکے لیئے چاہے ہمیں اپنی جانوں کا نذرانہ ہی کیوں نہ دینا پڑے،انکے اس مختصر خطاب کے باقی سارے بزرگ حضرات نے انہیں اپنے مکمل تعاون کا یقین دلایا،میں درخت کی اوٹ میں کھڑا حیرت سے یہ سب دیکھ رہا تھا مجھے اپنے اردگرد کا ہوش بھی نہ رہا تھا کہ اچانک قالین والے بزرگ کی نگاہ مجھ پہ پڑی اور مجھے پکارا اے آدم ذاد ہمارے پاس آو ڈرنے کی ہرگز ضرورت نہیں ، میں انکی اس حوصلہ افزائی کے بعد انکے پاس چلا گیا اور انہیں سلام کیا وہ مجھے سے مخاطب ہوئے

اے ادام زاد کہاں سے تعلق ہے اور کہاں سفر کرنے کا ارداہ ہے ، میں عرض کیا میرے محترم بزرگ میرا تعلق برِ آعظم ایشیا کےایک اسلامی ملک پاکستان سے ہے اور برِ آعظم ایشیا کے دوسرے ملک ہندوستان کے کرتارپور باڈر کی طرف جارہا ہوں تاکہ اپنے سکھ بھائیوں کو خوش آمدید کہہ سکوں

بزرگ نے حیرت سے مجھے دیکھا اور بولے ہمارے روحانی علم نے جو ہمیں جانکاری دی ہے اسکے مطابق تو ہندوستان مسلمانوں کا ازلی دشمن ہے اس نے کشمیر نامی ایک خطے کے مسلمانوں پہ ظلم ڈھا رکھے ہیں اور آپ کرتار پور باڈر جارہے ہیں

میں عرض کیا اے میرے محترم بزرگ روحانی علوم اور سیاسی علوم میں واضع فرق ہوتا ہے جو ہندوستان کرتار پور باڈر سے جڑا ہے وہ ہمارہ دوست ہے اور جو ہندوستان کشمیر سے جڑا ہے وہ ہمارہ دشمن ہے میرا جواب سن کروہ حیرت میں پڑگئے اور کہنے لگے ہم سیاسی

علوم کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں اگر آپ کے پاس وقت ہوتو ہمیں سیاسی علوم کے فضائل سے آگاہی دیں میں نے عرض کیا روحانی علوم میں پسِ پردہ چیزیں بھی سامنےنظر آتی ہیں جبکہ سیاسی علوم میں سیدھا دکھا کے الٹا مارنے کی تربیت دی جاتی ہے

جن چیزوں کو پسِ پردہ ڈالنا ہوتا ہے انہیں سیاسی علوم میں پہلے نمبرپر لانے کی تعلیم دی جاتی ہے، روحانی علوم میں آپ اپنی بات سے پھر نہیں سکتے جبکہ سیاسی علوم میں اپنی بات سے کیسے پھرنا اسکی تربیت دی جاتی ہے، میری سیاسی علوم پہ گرفت دیکھ بزرگ کے منہ سے بےاختیار نکلا میں پناہ مانگتا ہوں اللہ کی سیاسی علوم سے جو نہائت رحم کرنے والا ہے،میں بزرگ سے مخاطب ہوا اور کہا کیا مین جان سکتا ہوں آپ لوگ کون ہیں کہاں سے تشریف لائے ہیں اور کس مقصد کے حصول کے کہاں کے سفر کا ارادہ رکھتے ہیں

بزرگ نے جواب دیا میں ہیکل سلیمانی سے آیا ہوں اور باقی حضرات کوہِ قاف کے مختلف علاقوں سے سفر کرکے آئے ہیں ہم جنات ہیں ہمیں حضرت سیلمان علیہ سلام نے پشاور کے سفر پہ جانے کا حکم دیا تاکہ ہم پشاور میٹرو مکمل کرکے پشاور کے مسلمانوں عذاب سے نجات دلا سکیں تھا

 

Zahoor Ali
About the Author: Zahoor Ali Read More Articles by Zahoor Ali: 7 Articles with 3664 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.