شاہ خوباں صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی چشمان مبارک

(احادیث مبارکہ کی روشنی میں)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا حسن و جمال بے مثال۔۔ کہ دیکھنے والے کہے بنا نہ رہ سکے کہ آپ جیسا نہ کبھی پہلے دیکھا نہ آپ کے بعد کبھی کسی کو دیکھا ۔۔
لم یات نظیرک فی نظر مثل تو نہ شد پیدا جانا
جگ راج کو تاج تورے سر سو ہے تجھ کو شہ دوسرا جانا ۔
آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی چشمان مبارک کا حال بھی صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے نہایت فصیح انداز میں بیان فرمایا۔

چشمان مبارک باعتبار ہیئت:
حضرت علی المرتضی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی آنکھوں میں سیاہ حصہ بہت زیادہ سیاہ اور سفید حصہ بہت زیادہ سفید تھا آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی آنکھیں بڑی بڑی تھیں پلکیں طویل تھیں۔( امام مسلم و امام محمد)
حضرت علی المرتضی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا ہے کہ آپکی آنکھیں بڑی بڑی اور پلکیں لمبی تھیں اور آنکھوں میں سرخی تھی۔
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم اشکل العینین تھے راوی نے حضرت سماک بن حرب سے پوچھا اشکل العینین کیا ہوتا ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ گوشوں کا طویل ہونا ۔۔ بعض کے نزدیک اس سے مراد سفیدی میں سرخی کے لیے ہیں۔۔
امام مسلم وغیرہ نے لکھا ہے کہ اشھل العینین ہے یعنی سرخ و سیاہ آنکھوں والے ۔۔نہایہ میں بھی درج ہے کہ" کان أشهل العينين و كفته أشهل حمرة فى سواد" یعنی حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی دونوں چشم مبارک اشھل تھیں اور سیاہی میں سرخی کو اشھل کہا جاتا ہے۔
حضرت مقاتل بن حیان سے روایت ہے کہ رب تعالی نے حضرت عیسی علیہ السلام پر وحی کی "میرے معاملے میں کوشش کرو سستی نہ کرو " حتی کہ فرمایا "اس نبی کی تصدیق کرو جن کی آنکھیں خوبصورت اور بڑی ہوں گی۔
حضرت ام معبد سے روایت ہے کہ آپکی پلکیں مڑی ہوئی تھیں۔۔
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی مبارک آنکھیں سیاہ و سرخ تھیں۔
حضرت ابراہیم بن محمد رضی اللہ تعالی عنہ (جو حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی اولاد سے ہیں یعنی پوتے) حضرت علی المرتضی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کردہ طویل حدیث جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے حلیہء مبارک پر مبنی ہے میں چشمان مبارک کا حال ان الفاظ کے ساتھ بیان کیا ہے کہ "ادعج العینین و اھدب الاشفار" یعنی آنکھیں نہایت سیاہ اور پلکیں دراز تھیں۔۔ ( شمائل ترمذی ، حدیث نمبر 6)
"ادعج" گہری سیاہ آنکھ کو کہتے ہیں ۔
حضرت علی المرتضی سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی چشمان مبارک سیاہ تھیں اور پلکیں لمبی۔۔
ان ہی سے روایت ہے کہ حضور نبی مکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی آنکھیں بڑی بڑی تھیں ان میں سرخی تھی پلکیں لمبی تھیں داڑھئ مبارک گھنی تھیں۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی چشمان مبارک سیاہ تھیں۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی چشمان مبارک کی سیاہی کو سفیدی نے گھیرا ہوا تھا۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی آنکھیں سرمگیں تھیں ( أكحل العينين) اور پلکیں لمبی تھیں
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالی عنہ روایت کہ انہوں نے فرمایا : اھر تم حضور کی چشمان مقدس کو دیکھو گے تو کہو گے ان میں سرمہ لگا ہوا ہے حالانکہ ان میں سرمہ لگا ہوا نہیں ہوتا تھا۔
بساں سرمہ سہ کردہ خانہء مردم
دو چشم تو کہ سیاہ اند سرمہ ناکردہ
( یعنی آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی چشم مبارک بغیر سرمہ لگائے سرمگیں نظر اتی تھیں)۔
سرمگیں آنکھیں حریم حق کی وہ مشکیں غزال
ہے فضائے لامکاں تک جن کا رمنا نور کا
چشمان مبارک باعتبار بصارت:
صحیحین میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کیا تم دیکھتے ہو میرا قبلہ یہاں ہے؟ بخدا مجھ پر تمہارا رکوع و سجود مخفی نہیں ہے میں تمہیں اپنے پیچھے سے بھی دیکھ لیتا ہوں۔
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ نے فرمایا اے لوگو! میں تمہارا امام ہوں، مجھ سے قبل رکوع اور سجود نہ کیا کرو، میں تمہیں اپنے آگے سے اور اپنے پیچھے سے دیکھ لیتا ہوں( رواہ مسلم)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا میں اپنے پیچھے سے اس طرح دیکھتا ہوں جس طرح اپنے آگے سے دیکھتا ہوں۔
حضرت مجاہد نے کہا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم اپنے پیچھے صفوں میں اس طرح دیکھ لیتے تھے جس طرح اس شخص کو دیکھتے تھے جو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے آگے ہوتا تھا۔
کتاب الشفاء میں قاضی عیاض علیہ الرحمة نے لکھا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کہکشاں کے گیارہ ستارے دیکھ لیتے تھے اما سہیلی نے لکھا ہے کہ کہکشاں کے بارہ ستارے دیکھ لیتے تھے امام قرطبی نے اسماءالنبی میں پہلے قول پر یقین کیا ہے۔
ابو نعیم رحمة الله علیہ نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ اپنی پشت کی جانب سے بھی تم کو دیکھتا ہوں۔۔
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ تمہاری ملاقات کی جگہ حوض کوثر ہے اور میں اس کو یہاں سے دیکھ رہا ہوں ۔( صحیحین)
حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ تعالی عنہ نےفرمایا بے شک میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے امام بیہقی نے کتاب الرؤیت میں روایت کیا ہے کہ " بے شک اللہ نے چنا حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خلت سے، حضرت موسی علیہ السلام کو کلام سے ، اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ عسلم کو دیدار سے۔"
حضرت ابن ہالہ کی حدیث ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم جب توجہ فرماتے تھے تو پوری طرح فرماتے تھے اور آپکی نگاہ جھکی ہوتی تھی آسمان کے مقابلے میں زمیں کی طرف طویل نظر فرماتے اور آپ کا زیادہ تر دیکھنا آنکھ کے کنارے سے ہوتا ہے۔۔( مسند احمد، جامع ترمذی ، المستدرک)
صحیح مسلم میں حضرت ثوبان رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا بے شک اللہ نے میرے لیے زمین کو سمیٹا ( یعنی سمیٹ کر مثل ہتھیلی کر دیا) یہاں تک کہ میں نے ساری زمین اور اسکے مشرقوں اور مغربوں کو دیکھ لیا۔۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنھما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا بے شک اللہ نے میرے لیے دنیا کے حجابات اٹھا دیے تو میں دنیا اور جو کچھ بھی اس میں قیامت تک ہونیوالا ہے سب کو ایسے دیکھ رہا ہوں جیسے کہ اپنی اس ہتھیلی کو دیکھ رہا ہوں۔(مواہب ، ص: ۲۰۴، ج: ۷)
مواہب میں علامہ زرقانی علیہ الرحمة فرماتے ہیں کہ پس معنی یہ ہیں کہ آپکا روشن دن اور اندھیری رات میں دیکھنا برابر ہے اس لئے کہ جب اللہ نے آپ کو باطن کئ اطلاع اور دل کی باتوں پورا پورا ادراک عطا فرما دیا تو ایسا ہی آپکی آنکھوں کو بھی ظاہر و باطنی ادراک عطا فرمادیا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اپنی پیٹھ کے پیچھے سے بھی اسی طرح دیکھتے تھے جیسا کہ اپنے آگے سے دیکھتے تھے۔
مدارج النبوت میں ہے کہ جس طرح اللہ تبارک و تعالی نے جس طرح آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے قلب اطہر کومعقولات کے علم و ادراک میں وسعت اور احاطہ عنایت فرمایا ہے اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے حواس لطیف میں بھی محسوسات کے ادراک میں احاطہ فرمایا ہو اور شش جہت کو ایک ہی جہت بنا دیا ہو۔ واللہ اعلم

• شش جہت سمت مقابل ، شب و روز ایک ہی حال
دھوم والنجم میں ہے آپ کی بینائی کی

ماخذ : صحیح بخاری (کتاب الصلوة)، صحیح مسلم (كتاب الصلوة)، سبل الہدی والرشاد( ج: دوم)، مدارج النبوت(ج:اول)، دلائل النبوة (ج: اول)، شمائل ترمذی،المواہب اللدنیہ (ج: دوم)، خصائص الکبری (ج: اول)، کتاب الشفاء( ج: اول) ، ضیاءالنبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم (ج: پنجم)، سیرت مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم
 

Aalima Rabia Fatima
About the Author: Aalima Rabia Fatima Read More Articles by Aalima Rabia Fatima: 48 Articles with 86654 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.