مقصد ِمیلا دِرسول ﷺ اور حقوق النبیﷺ

میلاد عربی زبان کا لفظ ہے جس کا معنی ہے پیدائش یا ولادت ،ہر کوئی جانتا ہے کہ رسول اﷲ ﷺکی میلاد یعنی ولادت ربیع الاول کے مہینے میں ہوئی۔ حضرت امام شافعی ؒ نے حضورپرنورﷺ کی ربیع الاول میں ولادت باسعادت کو کچھ اس طرح بیان کیا کہ ربیع فی ربیع فی ربیع ٭نور فوق نور فوق نور٭(ترجمہ) ایک بہار میں دوسری بہار اور دوسری میں تیسری بہاراور نور کے اوپر نور اور پھر نورہے۔ اس شعر میں پہلے ربیع (بہار)سے مراد حضورﷺ ہیں اور دوسرے ربیع سے مرادموسم بہار اور تیسرے ربیع سے مراد خود ربیع الاول کامہینہ ہے اس طرح سے تین ربیعیں یعنی تین بہاریں اور کئی انوارات جمع ہو گئے ،حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ فرماتے ہیں’’ میں اس شعر پر اضافہ کر کے یوں کہتا ہوں’’ظھور فی ظھور فی ظھور ٭سرور فی سرور فی سرور‘‘
حضور آئے تو انسانوں کو جینے کاشعور آیا ٭ حضورآئے تو گلشن میں بہار آئی ،نکھارآیا،

پھر نبی کریم ﷺ ایک ولادت باسعادت ربیع الاول میں ہوئی اورایک ولادت باسعادت اس کے چالیس سال بعد ہوئی ،پہلی ولادت جسمانی اور دوسری ولادت روحانی تھی ،پہلی ولادت محمد بن عبداﷲ کی حیثیت سے اور دوسری محمد رسول اﷲ کی حیثیت سے ،پہلی ولادت میں جمال اور دوسری ولادت میں کمال،پہلی ولادت میں صورت مبارکہ کا ظہور اور دوسری ولادت میں سیرت مبارکہ کا ظہور ہوا۔الغرض دونوں ولادتیں پورے عالم کے لئے بہت بڑی نعمت ہیں لیکن عام طورپرلوگ جسمانی ولادت کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں اور اسی ولادت کے ذکر کو ’’ذکر میلاد‘‘ کہتے ہیں حالانکہ یہ تو میلاد کا ابتدائی درجہ ہے حقیقی درجہ تو چالیس سال بعد روحانی ولادت کا ہے کیونکہ پہلی ولادت بھی دراصل دوسری ولادت ہی کے لئے ذریعہ تھی اور مقصود دوسری ولادت (نبوت) تھی، پہلی ولادت ہمارے لئے خوشی ،فخر اور شکر کا باعث اور موقع ہے اور دوسری ولادت(نبوت) میں ہمارے لئے عملی نمونے موجود ہیں جن کی پیروی کا حکم دیا گیا اور اسی کو حضور انورﷺ کی خالص اور گہری محبت کامعیار قرار دیا گیا جس کو اپناکر سچے عاشقان رسول ﷺصحابہ کرام رضی اﷲ عنھم نے اﷲ تعالی سے اسی دنیا میں رضااور رحمت کے پروانے حاصل کئے،بلا شبہ حضور ﷺ کی ولادت اور آپ کا وجود مبارک پورے انسانوں بلکہ تمام عالم کے لئے رحمت اور نعمت ہے مگر وہ آپ کی بعثت اور میلاد کے مقاصد کی وجہ سے ہے اور ان مقاصد کو قرآن پاک میں سورۃ آل عمران میں بڑے واضح لفظوں میں بیان کیا گیا جن کو ہم مقاصد ِمیلا د رسولﷺ یا بعثت مصطفیﷺبھی کہہ سکتے ہیں اور وہ یہ ہیں (۱)قرآن مجید کی تلاوت (۲)تزکیہ نفس(۳)تعلیم کتاب (۴)حکمت ودانائی کی تعلیم دینا ‘‘لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم اس مہینہ میں خاص طور پر حضور ﷺ کی ولادت مبارکہ کا ذکر کرنے کے ساتھ ساتھ ان مقاصد کابھی ذکر کریں اگرچہ خود ذکر ولادت رسولﷺ عبادت اور باعث برکت ہے لیکن اس موقع پر مقاصد میلاد رسولﷺ کو بھی نہیں بھولنا چاہیے کیونکہ ان مقاصد کو بیان کرنا اور ان پر عمل کرنا بھی میلا د النبیﷺ کا ایک اہم حصہ ہے چنانچہ ایک بزرگ مولانافضل الرحمٰن صاحب گنج مراد آبادی ؒ سے کسی نے پوچھا میلاد النبیﷺ کے بارے میں ؟ تو انھوں نے جواب میں ارشاد فرمایا تھا کہ’’ ہم تو ہر وقت میلاد النبی ﷺمیں مشغول ہوتے ہیں ،اس لئے کہ ہر وقت کلمہ ’’لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ‘‘ پڑھتے ہیں،اگر آپ ﷺ پیدا نہ ہوتے تو ہم یہ کلمہ کہاں پڑھتے‘‘ بہر حال اگر ہم اس مہینہ کی فضیلت اور برکت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اس بات کا عزم کرنا پڑے گا کہ ہم اپنے ہر ہر عمل میں حضور وﷺکا اتباع کریں گے،ہر قسم کے صغیرہ اور کبیرہ گناہوں سے پرہیز کریں گے اور نماز جو میرے نبی ﷺ کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے اس کی پابندی کرکے اپنے نبی ﷺ کی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچائیں گے کسی صورت میں بھی نماز نہیں چھوڑیں گے ،ناجائز اور حرام آمدنی کے ذرائع چھوڑ دیں گے، ہر قسم کی فرقہ وارانہ نفرت اور تعصب کو با لائے طاق رکھ کرایک کلمہ ،ایک قرآن،ایک کعبہ کی طرح ایک امت بن جائیں گے اور ہر قسم کی بدعات ، منکرات اور رسومات چھوڑ کر سنتِ مصطفی ﷺ کی شاہراہ پر چلیں گے اور حضور ﷺ کے تمام حقوق بجالائیں گے۔کیونکہ مخلوقات میں سب سے بڑا حق ہم پر حضور ﷺ کا ہے۔ محسنِ کائنات حضرت محمد ﷺ کے ہم پر چار بڑے اور بنیادی حقوق ہیں(۱) آپ ﷺ کی رسالت کا اعتقاد رکھنے کے ساتھ ساتھ آپ کی اطاعت و اتباع کی جائے(۲)آپ ﷺ کی محبت کا دل مٰیں ہونا(۳)آپ ﷺ کی عظمت،ادب واحترام کا بجا لانا(۴)آپ ﷺ پر کثرت سے درودو سلام پڑھنا ، اس لئے اس ربیع الاول میں ہم اپنا محاسبہ کریں کہ ہم ان میں سے کون سے حقوق ادا کر رہے ہیں اور کہاں ہم سے کوتاہی ہو رہی ہے ،جہاں کوتاہی ہو رہی ہے وہاں سچے دل سے توبہ کریں اگرآج ہر مومن ان حقوق کو ادا کر نا شروع کردے تواس مومن کا ہر لمحہ ربیع الاول اور بہار ہے اور وہ صرف ایک مہینہ کے لئے نہیں بلکہ پوری زندگی میلا د النبی ﷺ میں مشغول ہے۔ کیونکہ حضور پرنور ﷺ کی میلا د یعنی پیدائش یا بعثت(تشریف آوری) کا یہی مقصد ہے۔
قلب میں سوز نہیں ،روح میں احساس نہیں کچھ بھی پیغام محمد ﷺکا تمھیں پاس نہیں ،(علامہ اقبالؒ)

آج جب کہ ہر طرف نفرتوں کی آگ دہک رہی ہے ،تعصبات کے بت پوجے جارہے ہیں،مظلوموں اور مجبوروں کی عزت وآبرو ،جان ومال پامال کر کے ظلم کے محلات بلند کیے جا رہے ہیں ،خود غرضی اور خدافراموشی اپنے عروج پر پہنچی ہوئی ہے، دین سے دور ہو کرمال ودولت کو اکٹھا کرنے میں قارون کے ساتھ مقابلہ کیا جا رہا ہے ،ظلم و بربریت میں فرعون اور نمرود کو پیچھے چھوڑنے کی کوشش کی جارہی ہے ایسے حالات میں اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ ہم سب آپس کی نفرتوں اور تعصبات کو بھلا کر ایک امت بن جائیں اور ساری دنیا کے انسانوں کو نبی رحمت ﷺ کے جھنڈے تلے جمع کریں اوران کے پیغام امن اورمحبت کو ساری دنیا میں عام کر دیں اوراس ماہ ربیع الاول میں ہم یہ عہد کریں کہ ہم آقائے دوجہاں ﷺ کی سیرت کو سیکھ کر اور اس پر عمل کر کے اپنی فرمانبرادری اور عقیدت اور محبت کا عملی ثبوت پیش کریں گے کیونکہ سرکار دو عالم ﷺ کا ارشاد پاک ہے ’’کہ جس نے میری اطاعت کی اسی نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی وہ جنت میں میرے ساتھ ہو گا‘‘۔
 

Tanvir Ahmed
About the Author: Tanvir Ahmed Read More Articles by Tanvir Ahmed: 21 Articles with 20370 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.