آج انسان مال مال ،دولت دولت ،شہرت بس دنیاہی دنیا کے
سحر میں گُم ہے ۔اس دوڑ میں اس قدر آگے بڑھ چکاہے کہ پیچھے پلٹ کردیکھتاہی
نہیں ۔جائز ناجائز کی تمیز کیے بغیر فقط دولت کا حصول اس کا مقصد بن چکاہے
۔نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ دوسروں کا مال بھی اینٹھ لینا اس کے لیے
مسئلہ ہی نہیں ۔جس کو عام الفاظ میں مال غصب کرنا بھی کہتے ہیں ۔ایسی ایسی
خبریں سننے اور پڑھنے کو ملتی ہیں کہ بھائی نے بھائی کی جائیداد مکان غصب
کرلیا۔مال و جائیداد کے لیے بھائی نے بہن کو قتل کردیا۔
کسی چيز کوظلم وزیادتی سے لینا ۔فقھاء کی اصطلاح میں غصب کی تعریف ہے کہ
کسی کے حق پر زبردستی اورناحق قبضہ کرنے کوغصب کہا جاتا ہے ۔غصب کے حرام
ہونے پر مسلمانوں کا اجماع ہے ۔
ارشاد باری تعالیٰ سننے اور سمجھنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں :
وَ لَا تَاْكُل ُوْۤ ا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَ تُدْلُوْا
بِهَاۤ اِلَى الْحُكَّامِ لِتَاْكُلُوْا فَرِیْقًا مِّنْ اَمْوَالِ
النَّاسِ بِالْاِثْمِ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۠(پ۲،البقرۃ،آیت:۱۸۸)
ترجمہ :’’اور آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤاور نہ حاکموں کے پاس
ان کا مقدمہ اس لیے پہنچاؤ کہ لوگوں کا کچھ مال ناجائز طور پر کھالو جان
بوجھ کر‘‘
تفسیر خزائن العرفان میں اس آیت کے تحت بیان کیا گیا کہ :اس آیت میں باطل
طور پر کسی کا مال کھانا حرام فرمایا گیا خواہ لوٹ کر یا چھین کر چوری سے
یا جوئے سے یا حرام تماشوں یا حرام کاموں یا حرام چیزوں کے بدلے یا رشوت یا
جھوٹی گواہی یا چغل خوری سے یہ سب ممنوع و حرام ہے۔ مسئلہ : اس سے معلوم
ہوا کہ ناجائز فائدہ کے لئے کسی پر مقدمہ بنانا اور اس کو حکام تک لے جانا
ناجائز و حرام ہے اسی طرح اپنے فائدہ کی غرض سے دوسرے کو ضرر پہنچانے کے
لئے حکام پر اثر ڈالنا رشوتیں دینا حرام ہے جو حکام رس لوگ ہیں وہ اس آیت
کے حکم کو پیش نظر رکھیں حدیث شریف میں مسلمانوں کے ضرر پہنچانے والے پر
لعنت آئی ہے۔
اُم المؤمنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ
حضورِ پاک، صاحبِ لَولاک، سیّاحِ افلاک صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ
وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:جس نے بالشت بھر زمين کے معاملے ميں ظلم کيا
اسے 7زمينوں کا طوق ڈالا جائے گا۔
( صحیح البخاری ،کتاب المظالم ، باب اثم من ظلم شیئامن الارض ، الحدیث:
۲۴۵۳ ، ص ۱۹۳)
ايک قول کے مطابق اس سے مراد يہ ہے:اسے تکليف کا طوق پہنايا جائے گا نہ کہ
7زمينوں کا طوق بنا کر اس کے گلے ميں ڈالا جائے گا بلکہ قيامت کے دن اس کی
گردن پر ان کا بوجھ ڈالا جائے گا۔ جبکہ اَصح قول وہی ہے جوسیدنا امام بغوی
رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے بيان کيا ہے کہ اسے زمين ميں دھنسا ديا جائے گا تو
زمين کا وہ حصہ اس کی گردن ميں طوق کی طرح پھنس جائے گا۔
اے دوسروں کا مال غصب کرنے والو!!!چھین چھین کر دوسروں کے حقوق پر ڈاکہ
ڈالنے والو!!!اے بہن بھاءیوں کا حق مارنے والو!!ہوش کے ناخن لو!سدھر جاو!
رسولِ بے مثال، بی بی آمنہ کے لال صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا
فرمانِ عالیشان ہے:جس شخص نے ایک بالشت زمين کے معاملے ميں کسی پر ظلم کيا
اللہ عزوجل (بروزِ قیامت )اُسے سات زمينوں تک گڑھا کھودنے کا پابند بنائے
گا، پھر لوگوں کے درميان فيصلہ ہو جانے تک اسے طوق ڈالاجائے گا۔(المسند
للامام احمد بن حنبل،حدیث یعلی بن مرۃ الثقفی،الحدیث: ۱۷۵۸۲ ، ج۶،ص۱۸۰)
فرمان مصطفی ﷺ ہے :’’جو کسی شخص کی زمين پر ظلماً قابض ہو ا جب وہ اللہ
عزوجل سے ملے گا تو وہ اس پر غضب فرما ئے گا‘‘
( المعجم الکبیر،الحدیث:۲۵،ج۲۲،ص۱۸)
آپ نے نا حق مال چھین چھین کر کھانے والوں کا انجام پڑھا ۔آئیے ہم آپ کو
ایک اور حدیث مبارکہ بیان کرتے ہیں ۔
شفیعُ المذنبین، انیسُ الغریبین، سراجُ السالکین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ
وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:’’جو زمين کے کسی ٹکڑے پر ناحق قابض ہوا اسے
7زمينوں کا طوق ڈالا جائے گا اور اس کا نہ کوئی فرض قبول ہو گا نہ
نفل۔(مسند ابی یعلیٰ الموصلی،مسند سعد بن ابی وقاص،الحدیث:۷۴۰،ج۱،ص۳۱۵)
حضرت سیدنا ابو حمید الساعدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ مَخْزنِ
جودوسخاوت، پیکرِ عظمت و شرافت صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا
فرمانِ عالیشان ہے:کسی مسلمان کے لئے جائز نہيں کہ اپنے بھائی کاعصا اس کی
رضا مندی کے بغيرلے لے۔
( الترغیب والترھیب ،کتاب البیوع ، الترھیب من غصب الارض ۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث:
۲۹۰۷، ج۲ ، ص ۴۱۱)
غاصب پرضروری اورلازم ہے کہ وہ اللہ تعالی کےہاں توبہ کرے اور غصب کی ہوئی
چیز کو اس کےمالک کوواپس لوٹا اوراس سے معافی و درگزر طلب کرے ، اس لیے کہ
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اسی کی طرف راہنمائی کی ہے ۔ جس نے بھی اپنے کسی
بھائی پر ظلم وزیادتی کی ہے اسے آج ہی اس کا کفارہ ادا کردے قبل اس
کےسانسوں کی تسلسل ٹوٹ جائے اور موت آ دبوچ لے ۔اوراگر غاصب نے غصب کردہ
زمین میں کوئ عمارت تعمیر کرلی یا پھر اس میں کوئ چيز کاشت کرلی تومالک کے
مطالبہ پر اس اکھیڑنا ضروری ہے ۔اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ
یہاں یہ بات بھی ذہن نشین کرلیں کہ :اگر اس چيز کےمنھدم کرنے یا اکھيڑنے سے
زمین کونقصان ہوتوغاصب پر اس نقصان کا بھی جرمانہ ہوگا اوراسی طرح اسے کاشت
کے آثار بھی ختم کرنے لازم ہیں تا کہ زمین کے مالک کو زمین صحیح سالم واپس
ہوسکے ۔
جو چیز میں اس دنیا میں قیمتی ہے؛ چور اچکے اس کی تاڑ میں ہوتے ہیں،
حالانکہ چوری ، کرپشن اور بد عنوانی کرنے والوں کو رسول اللہ ﷺ نے سخت وعید
سنائی اور کچھ پر لعنت بھی فرمائی، بلکہ دنیا میں چوری کرنے والے کا ہاتھ
کاٹنا لازمی قرار دیا، تا کہ کسی اور کو چوری اور بدعنوانی کی جرأت نہ ہو۔
چوری کی وجہ سے قیمتی ہاتھ بے وقعت ہو جاتا ہے۔ اسلام میں مال و جان کو
اتنا تحفظ دیا گیا ہے کہ آپ کسی کی اجازت کے بغیر اس کی کھونڈی تک نہیں لے
سکتے تو جس چیز کی قیمت اس سے زیادہ ہو تو وہ بنا اجازت لینا کیسا ہوگا؟
پبلک پراپرٹی اور کسی کی املاک کو آپ ہتھیا نہیں سکتے اگر کسی نے ایسا کیا
تو وہ کل قیامت کے دن ہتھیائی ہوئی چیز اٹھا کر لائے گا۔اگر کسی نے
بددیانتی کی اور وہ توبہ کر لے تو اللہ اس کی توبہ قبول فرما لے گا لیکن
عوام اور لوگوں کے حقوق انہیں واپس لوٹانے ہوں گے۔ دیارِ غیر میں کوئی بھی
شخص معاہدہ امن یعنی ویزے کے ذریعے داخل ہو تو وہاں کے امن و امان اور مال
و جان کا احترام لازمی ہوتا ہے نبوی سیرت ہمیں اسی بات کا درس دیتی ہے ۔
مال سائے کی طرح جانے والا ہے، جس چیز کو بھی لین دین میں استعمال کیا جاتا
ہے اس کے بارے میں لالچ پائی جاتی ہے، اس کی جانب گردنیں اٹھا کر للچائی
ہوئی آنکھوں سے دیکھا جاتا ہے، چوروں اور ڈاکوؤں کی نظریں اسی پر مرکوز
ہوتی ہیں۔چور اچکے کسی ایسے موقعے کی تلاش میں ہوتے ہیں کہ کب کسی کی آنکھ
لگے ۔ وہ کن انکھیوں سے تاڑتے ہیں کہ جیسے ہی پاسبان، نگران، نگہبان اور
مالکان غفلت کا شکار ہوں تو فوری خفیہ اور پوشیدہ انداز میں اس کی دولت پہ
حملہ کر دے۔ ایسے لوگ بے مروّت اور گھٹیا آدمی ہیں، یہ رذیل ، بد لحاظ،
ظالم اور دوسروں کے حقوق غصب کرنے والے ہیں۔
محفوظ گھروں کی دیواریں پھلانگنا۔ تجوریوں ، تالوں اور آہنی گلّوں کو
توڑنا، جیب کاٹنا، آستین پھاڑنا، کھجوروں، زرعی اجناس اور پھلوں کو باغوں
سے چوری کرنا صرف بد کار، سیاہ کار، شریر، چور، خیانت کار، دھوکے باز، اچکے
اوربداطوار شخص کا ہی کام ہے۔ یہ شخص رسول اللہ ﷺ کے فرمان کو سنے اور دل
کے گلدستے میں سجالے ۔عبرت حاصل کرے ۔۔ہاں عبرت !!
اللہ کے مَحبوب، دانائے غُیوب، مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیوب صلَّی اللہ تعالیٰ
علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:جس نے زمين کا بالشت بھر ٹکڑا ناحق لے
ليا قيامت کے دن اسے 7زمينوں تک دھنسا ديا جائے گا۔( صحیح البخاری ،کتاب
المظالم ، باب اثم من ظلم شیئا من الارض ، الحدیث: ۲۴۵۴ ، ص ۱۹۳)
زیادتی کرنے سے باز آ جاؤ، شیطان کے پیروکار نہ بنو؛ کیونکہ تمہارا بھائی
بھی اسی طرح محترم ہے جیسے تم محترم ہو، تمہارے بھائی کا مال بھی اسی طرح
حرمت والا ہے جیسے تمہارا مال ہے، اس کے گھر کی عزت آبرو بھی اسی طرح ہے
جیسے تمہارے گھر اور اہل خانہ کی عزت آبرو ہے، تو کیا تم یہ پسند کرو گے
کہ کوئی تمہارے مال، اہل و عیال ، گھر اور بچوں سے اسی طرح زیادتی کرے جیسے
تم نے دوسروں سے زیادتی کی ہے؟ اگر تم اس حرکت کو اپنے لیے پسند نہیں کرتے
تو لوگ بھی اپنے مال و جان کے بارے میں یہ حرکت پسند نہیں کرتے۔
میرے دوست ،سوشل میڈیا پر وقت صرف کرنے والے ساتھیو!!
پیشی کا دن یاد کر! ا س کی ہولناکی یاد کر! انتہائی بلند بالا ذات کے سامنے
کھڑے ہونے کو یاد کر! جس دن ثروت اور دولت کچھ بھی کام نہیں آئے گا! اس دن
کو یاد کر جب زنجیروں اور بیڑیوں سے جکڑ دیا جائے گا!!!آج اور ابھی توبہ
کرلیں ۔نہ کبھی کا حق غصب کریں گے اور نہ ہی غصب کرنے میں کسی کی مدد کریں
گے ۔
نوٹ:آن لاءن بزنس عروج پر ہے ۔لیکن نہایت مہنگے دام اور حصول کا طریقہ اس
قدر مشکل کے صارف کو پریشانی ہوتی ہے ۔ہم جہاں آپکی فکری بالیدگی اور ترقی
اور شعور کے خواہاں ہیں وہاں مالی اعتبار سے بھی آپ کی مالی خیر خواہی کا
پاس بھی رکھنے کا مصمم ارادہ رکھتے ہیں ۔آپ ہمالین سالٹ لیمپ کے ساتھ
ساتھ۔اب آپ خوبصورت وال کلارک ،بچوں کے آءٹمز ،بہترین اور معیاری شوز اور
پشاوری کھیڑی کے ساتھ ساتھ اسکولز بیگ اور یونیفارم کے آڈر بھی بُک
کرواسکتے ہیں ۔نہایت ہی آسان طریقہ کار۔آپ ہمیں اپنا آڈر بک کرواءیں اور
ہم سے بکنگ آڈر نمبر لے لیں ۔اس ترتیب کے حساب سے پروڈکٹ ہم آپ تک
پہنچادیں گے ۔ہم نے یہ عزم کیا ہے کہ اپنے پیاروں کے کندھوں پر مہنگاءی کے
اس بوران میں ہم کچھ آسودگی کا باعث بن سکیں ۔
یادرہے !ہم جو بھی آن لاءن کام کررہے ہیں ۔۔اس کماءی اور آپ کے تعاون سے
ایک مناسب رقم فلاحی کاموں پر صرف کرتے ہیں ۔چنانچہ اس کارواں میں آپ
ہمارے دست راست بنیں ۔
رابطہ نمبر:03462914283
وٹس ایپ::03112268353
ای میل:[email protected]
|