کچھ ہی دنوں میں سپریم کورٹ میں بابری مسجد کا فیصلہ آنے
والا ہے ، اس فیصلے کو لے کر ملک بھر میں چہ میگوئیاں جاری ہیں جبکہ عالمی
سطح پر بھی بابری مسجدکی ملکیت کے فیصلے پر نظریں بنی ہوئی ہیں ، ایسے میں
پولیس و وزارت داخلہ کی جانب سے ملک میں امن و امان بحال رکھنے کے لئے
احتیاطی تدابیر اختیار کئے جارہے ہیں ، جابجا عوام کو ہدایتیں دی رہی ہیں
وہیں ہمارے مسلم رہنمائوں کی جانب سے بھی باقاعدہ طورپر اخباری بیانات جاری
ہونے لگے ہیں اور ان بیانات کو سوشیل میڈیا و پرنٹ میڈیا میں خاصی بڑی جگہ
مل رہی ہے ۔ ہمارے اکابرین ، عمائدین و قائدین عوام سے گذارش کررہے ہیں کہ
وہ بابری مسجد کے فیصلے کو لے کر صبر و استقلال کا مظاہرہ کریں اور ہر گز
بھی مشتعل نہ ہوں ، شرپسندوں کی شرانگیزی پر نہ بھڑکیں اور اللہ کی بارگاہ
میں بہتری کے لئے دعائیں کریں ۔ مسجدوں سے لے کر جلسہ گاہوں تک یہی اپیل
ہورہی ہے کہ مسلمان صبر کریں ، امن برقرار رکھیں ۔ یقیناََاس ملک کا مسلمان
اب صابر ہوچکا ہے ، صبر اسکی رگوں میں دوڑ رہاہے ۔ شاید ہمارے عمائدین اور
قائدین نے اس بات پر غور ہی نہیں کیا ہوگا کہ 1992 اور 1993 کے فسادات کے
بعد سے ملک کے مسلمانوں میں بہت بڑا صبر آچکا ہے ۔ گجرات کے فسادات کے
دوران بھی مسلمانوںنے صبر کا مظاہرہ کیا ، مظفر نگر کے فسادات میں مسلمانوں
نے امن کا جھنڈا لہرایا ، آسام کے فسادات کے دوران مسلمانوںنے صبر استحکام
کے ساتھ اپنے مظاہروں سے قصورواروں کو جیل کی سلاخوں میں بھیج دیا ۔ مظفر
نگرفسادات میں قتل کئے جانے والے مسلمانوں کے قاتلوں کو موت کی سزا بھی تو
مسلمانوں کے صبر کی وجہ سے ہی ہوئی ہے ۔ ہم مسلمانوں نے ہر بار صبر ہی تو
کیا ہے ، پہلو خان ، محمد اخلاق ، حافظ جنید کی شہادت پر بھی ہم مسلمانوں
نے صبر کیا ۔ الہ آباد ، فیض آبادجیسے تاریخی شہروں کے نام بدلے گئے ، تب
بھی مسلمانوں نے صبر کیا ۔ ماب لنچنگ کے ملک بھر میں 70 مسلمانوں کی شہادت
ہوئی مسلمانوںنے صبر کیا ۔ مسلم لڑکوں کو لوجہاد کے نام پر پھنسایا گیا ،
مدھیہ پردیش میں جھوٹے انکائونٹر میں 8 نوجوانوں کا قتل ہوا تب بھی تو
مسلمانوں نے صبر کیا ہے ۔ ہمارے قائدین ،عمائدین نے اخباروں کی سرخیوں میں
رہنے کا یہ ایک اچھا مدعا اٹھا رکھا ہے کیونکہ انکے پاس ایسے مدعوں کے
علاوہ اور کوئی مدعہ ہی نہیں ہے ۔ ایک طرف بابری مسجد مقدمے سے جڑے ہوئے
صبر و استقلال کا درس دے رہےہیں تو دوسری جانب وہ لوگ بھی مسلمانوں کو دارہ
شکوہ اور عبدالکلام کی سوچ رکھنے کا سبق پڑھا رہے ہیں جنہوںنے ہمیشہ امت
مسلمہ کی فلاح و بہبودی سے زیادہ اپنے اپنے عقائد و مسلکوں کی بنیادپر امت
کو گمراہ کیا اور عہدوں و جیب بھرائی کی خاطر یہود و نصریٰ اور کفار الہند
کو اپنا عزیز بنایا ۔ یقینا اللہ نے قرآن مجید میں مسلمانوں کو صبر کرنے
کی تلقین دی ہے اور صبر کرنے والوں کو اللہ کا ساتھ ملنے کی تصدیق بھی دی
ہے لیکن بعض اوقات ایسا محسوس ہوتاہے کہ ہمارا علم ان اللہ مع الصابرین تک
ہی محدود ہوچکا ہے جبکہ انا فتحنا لک فتحامبینا اور اِنـ الذِین َاَمنُو وَ
ھَاجَرُو جہدو بااموالہم و انفسِہِم فی سبیل اللہ ۔ پر توجہ کم ہی ہوچکی ہے
۔ کاش کہ مسلمانوں صبر و حکمت کے علاوہ شجاعت و حکمرانی کا جذبہ بھی لے کر
آگے بڑھتے ۔
|