پشاور موڑ کے نئے مکیں

بارش بھی آزادی مارچ کے شرکاء کاکچھ نہ بگاڑسکی ،ان کی شوخی ،بے فکری ،اطمینان ،استقامت اوروابستگی میں ذرہ بھربھی لغزش نہیں آئی ،اسلام آبادمیں سردی کاموسم شروع ہوچکاہے اس موسم میں جب لو گ گھروں میں لحاف اوررضائیوں میں ٹھٹرتے ہیں وہاں پشاورموڑکے یہ نئے مکیں کھلے آسماں تلے اپنی دنیامیں مگن ہیں ، ان کے معمولات زندگی بدستورچل رہے ہیں ،جس میں کھیل بھی ہے اورسیروتفریح بھی ،درس و تدریس بھی ہے اور تلاوت قرآن بھی ،ذکرواذکارکی مجلس بھی ہے اورگپ شپ کی محفل بھی ،پلاسٹک شیٹوں سے بنے عارضی خیموں کی گپ شپ بھی ہے اورقہوے کی سوغات بھی ،نوجوانوں کی طرف سے روزوں کااہتمام بھی ہے اورپنج وقتہ نمازوں کے ساتھ ساتھ قیام اللیل بھی ،شرکاء کی شرارتیں بھی ہیں اورچاروں صوبوں کے کلچرکااظہاربھی ،نعرہ تکبیربھی ہے اورگونیازی گوکاترانہ بھی ۔
شرکاء کی بے فکری ،اطمینان ،صبر،تحمل ،برداشت قابل دید ہے وہ فولادکی طرح مضبو ط ہیں موسم کی سختی ان کے عزم اورجذبے کومزیدتواناکررہی ہے ،چہروں پرسجی مسکراہٹ ان کی کامیابی کاپیغام دے رہی ہے ،لوگ حیران ہیں کہ شہراقتدارمیں یہ کیسامہذب احتجاج ہورہاہے ،جس سے عام آدمی کوتکلیف نہیں پہنچ رہی البتہ حکومتی اقدامات نے شہریوں کوخوفزدہ کیاہواہے ،آزادی مارچ کے شرکاء نے پرزورمطالبہ کیاہے کہ حکومت میٹروبس سروس شروع کرے ہم تحفظ فراہم کریں گے مگراس حکومت نے قسم کھائی ہوئی ہے کہ عوام کوسہولت نہیں دینی ،احتجاج توویسے ہی بہانہ ہے۔اس شریفانہ احتجاج نے توحکومت کوبھی چکراکررکھ دیاہے ۔

اسلام آبادکے سخت ترین موسم میں جمعیت علماء اسلام کے تین کارکن اپنی جان کی بازی ہارچکے ہیں مگراس کے باوجودکارکنوں نے حوصلے نہیں ہارے ہیں ،کل میں نے ایک ویڈیودیکھی کہ سخت بارش میں جمعیت علماء اسلام کے متحرک ترین رہنماء علامہ راشدمحمود سومرونعرے لگاتے ہوئے دوڑنے کامقابلہ کررہے ہیں نوجوانوں کاخون گرم رکھنے کے لیے علامہ راشدمحمود سومرو جہاں جوشیلی تقریرکرتے ہیں وہاں وہ مختلف اقدامات کے ذریعے کارکنوں کومتحرک رکھتے ہیں راشدمحمود سومرو جمعیت علماء اسلام کاقیمتی سرمایہ ہیں کارکنوں میں ان کی مقبولیت کاگراف بڑھ رہاہے ،آزادی مارچ نے جمعیت علماء اسلام کوجہاں شہرت کی بلندیوں پرپہنچایاہے وہاں مختلف شخصیات کی صورت میں نئی قیادت بھی ابھرکرسامنے آئی ہے اوران کی صلاحتیں بھی نکھرکرعیاں ہوئی ہیں ۔اس احتجاج سے مذہبی سیاسی جماعتوں کانیاچہرہ دنیاکے سامنے آیاہے ،دنیااب یہ سوچنے پرمجبورہوگئی ہے کہ مذہبی جماعتیں بھی ایساپرامن اورمثالی احتجاج کرسکتی ہیں ؟

آزادی مارچ کے لیے مختص جگہ پرعارضی فوڈ سٹریٹ قائم ہے ہرکسی کوآزادی ہے کہ وہ آکراپناکاروبارکرے ،کوئی بھتہ کوئی فیس نہیں جس کی وجہ سے جلسہ گاہ کئی لوگوں کے لئے روزگار کا وسیلہ بھی بن گئی ہے۔ جلسہ گاہ میں د ہی بھلے ،چنا چاٹ، سموسے، فروٹ چاٹ ، اور دوسری اقسام کے نت نئے کھانوں کے ٹھیلے لگے ہوئے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ موبائل اسیسریز، ٹوپیاں، چادریں، تسبیح اور بیجز بیچنے والے سبھی موجود ہیں۔ دھرنے کے اندر تو نسوار فروشوں کی بھی چاندی ہو گئی ہے۔رات کوگرم انڈے اورقہوے والے آوازلگارہے ہوتے ہیں گزشتہ رات جب میں جے یوآئی جموں وکشمیرکے سیکرٹری جنرل مولاناامتیازعباسی کے ہمراہ مولاناکے کینٹینرپرپہنچاتوگرم انڈوں کاایک تھیلہ وہاں بھی پہنچ چکاتھا امیروغریب سب کوایک ایک انڈہ دیاجارہاتھا ایسے میں سابق وزیراعلی کے پی کے اکرم درانی انڈے سے دودوہاتھ کررہے تھے میں نے سلام کیاتوکہنے لگے صبح سے کچھ کھانے کاموقع نہیں ملا۔
میں پیشہ وارانہ مصروفیت کے لیے روزہی پنڈال میں حاضری دیتاہوں حکومت اوراس کے اداروں کویہ فکرکھائے جارہی ہے کہ آزادی مارچ والے کھاکہاں سے رہے ہیں ؟کوئی بھی شخص جاکریہ مشاہدہ کرسکتاہے کہ کم و بیش ہر خیمے اور چٹائی پر 10 سے 15 افراد کے پاس ایک سلنڈر، چولہا، کھانے کا سامان اور ایک باورچی ضرور ہے جو اپنے ساتھیوں کی پسند ناپسند کا خیال بھی رکھ رہا ہے اور وسائل کے اندر رہتے ہوئے اپنی ضروریات بھی پوری کر رہا ہے۔شرکا کھانے پینے کا انتظام بھی خود ہی کر رہے ہیں۔؟دھرنے والوں کا کوئی ایک مینیو نہیں ہے۔ ہر خیمے اور ہر علاقے کا اپنا مینیو ہے۔ نان کے ساتھ آلو، چھوٹا بڑا گوشت، مرغی، کلیجی، لوبیا، دال، مکس سبزی اور علاقائی ڈشز بھی دستیاب ہیں۔ یہ کھانا باہر سے نہیں آیا بلکہ خود جمعیت کے کارکنان نے بنایا ہے۔مگربارش کے بعد جڑواں شہروں کے علماء کرام مولاناسعیدالرحمن سرور،مفتی زاہدشاہ ،مفتی عبداﷲ ،مفتی مسرت اقبال ودیگر متحرک ہیں وہ اپنے ساتھیوں کے لیے کھانے پینے ،خیموں ،پلاسٹک شیٹوں اورگرم بستروں کاانتظام کرنے میں مصروف ہیں ۔
شرکاء کی اس سے بڑی امن پسندی کی کیامثال ہوگی کہ جلسہ گاہ میں جہاں بڑی تعداد میں لوگ موجود ہیں وہیں اس صورت حال سے فائدہ اٹھانے کے لیے جیب کترے اوردوسرے جرائم پیشہ بھی پہنچ گئے ہیں، جوبھی جیب کترایاچورپکڑاجاتاہے تو شرکاء اسے روایتی انداز میں تشدد کا نشانہ بنانے کے بجائے پولیس کے حوالے کردیتے ہیں ، قومی اوربین الاقوامی میڈیاکے نمائندے ،مختلف اداروں کے،کھوجی ،، پنڈال میں جاکربوسونگھتے ہیں کہ کہیں کوئی منفی خبرملے تواسے بڑھاچڑھاکرپیش کریں مگروہ انصارالاسلام کے رویے سے متاثرہوکرواپس جاتے ہیں ۔پویس اورایف سی اہلکارجواس قسم کے مجمع سے فاصلے پررہتے ہیں مگراس بارایسی کئی تصاویرسوشل میڈیاپرآئی ہیں کہ پولیس اورایف سی اہلکارآزادی مارچ والوں کے ہمراہ کھاناکھارہے ہیں، کہیں باجماعت نمازپڑھ رہے توکہیں کشتی کامقابلہ کررہے ہیں ۔

ؒجوشیلے کارکنوں کااصرارہے کہ ڈی چوک جاناہے مگرقیادت نے ان کے آگے بندھ باندھاہواہے قیادت کوکارکنوں پراورکارکنوں کواپنی قیادت پربھرپوراعتماد ہے ،کچھ قوتوں کی کوشش تھی اورہے کہ آزادی مارچ والے کسی طرح مشتعل ہوں انہیں بھی لال مسجدیاتحریک لبیک کی طرح کچل دیاجائے ،اب بھی کچھ لوگوں کی خواہش ہے کہ کسی طرح ٹکراؤہوجائے ،کہیں سے لاٹھی گولی کی خبرآجائے مگرمولانااوران کی جماعت کے افرادبڑی مہارت سے اس سازش کوناکام بنارہے ہیں جمعیت علماء اسلام نے مستقبل میں سیاست کرنی ہے توانہیں اسی طرح پرامن رہ کرآگے بڑھناہوگا ۔

آزادی مارچ کے ساتھ ساتھ ڈرائنگ روم سیاست بھی گرم ہوگئی ہے مذاکرات کے دورچل رہے ہیں حکومتی اعصاب شل ہوچکے ہیں ،پرامن احتجاج کے ذریعے بھی حکومت گھٹنے ٹیکنے پرمجبورہے آج اگرایمپائرکاسہارہ ہٹادیاجائے تویہ حکومت دھڑام سے زمین پرآگرے گی ۔حکومت کے اتحادی بھی کھل کرحکومت کے ساتھ کھڑے نظرنہیں آتے ،مولانانے الیکشن کے جعلی ہونے کااپنابیانیہ قوم کے سامنے رکھ دیاہے ،ن لیگ اورپیپلزپارٹی کی کمزوری کے بعد مولانانے حکومت پرایساکاری وارکیاہے کہ حکومت ڈگمگاکررہ گئی ہے ،حکمرانوں کی کشتی ہچکولے کھارہی ہے ،حکومت کے پاس اس آزادی مارچ کوختم کرنے کے لیے ایسی کوئی دلیل نہیں کہ جس کی بناء پروہ طاقت کے زورپراسے ختم کرسکیں ،حکومت نے ایسی کوئی حماقت کی تویہ اس کے اقتدارمیں آخری کیل ثابت ہوگا۔

جمعیت علماء اسلام کے کارکن اس کی پرواہ نہیں کررہے کہ ن لیگ اورپیپلزپارٹی والے اس سے آگے جانے کوتیارنہیں ،جے یوآئی کے کارکن باشعورہیں انہیں معلوم ہے کہ کون آزادی مارچ کوکیش کروارہاہے ،کون پس منظرمیں کیاکھیل کھیل رہاہے ؟مگرایسے میں جب ن لیگ اورپیپلزپارٹی کی قیاد ت کینٹینرپرآکرتقریرکرتی ہے توکارکن ان کابھی بھرپوراستقبال کرکے سیاسی شعورکامظاہرہ کرتے ہیں ،انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ مولانااعصاب کی جنگ جیت چکے ہیں اب انہیں مذاکرات کی میزپرمات دینے کی کوشش کی جارہی ہے مگرمولانامذاکرات کی میزپردلائل کے زورجنگ جیتناجانتے ہیں اسلام آبادکے ڈرائنگ روموں میں یہ ریہرسل چل رہی ہے ،ہرکوئی مولاناکے درپرسلامی دے کراپنی قیمت بڑھارہاہے مولانااوران کے کارکنوں کومعلوم ہے کہ کون ان سے کتنامخلص ہے ؟اورکون کیاکھیل کھیل رہاہے ؟




 

Umer Farooq
About the Author: Umer Farooq Read More Articles by Umer Farooq: 129 Articles with 96088 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.