پیکر خالی خلیفہ خدا حضرت انسان کو مٹی کے پتلے میں تخلیق
کر کے خدا ئے لازوال نے اپنی روح پھونک کر کر ہ ارض پر اتار دیا ‘ یہیں سے
افزائش نسل کا نہ ختم ہو نے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے روزِ اول سے آج تک
ہر روز دنیا کے چپے چپے پر انسان گاجر مولی کی طرح اگ رہے ہیں اور پھر گاجر
مولی کی طرح ہی مٹی کے ڈھیر میں اضافہ کر تے گئے خوش قسمت ہو تے ہیں وہ
انسان جن کو حق تعالیٰ اپنا عشق غور و فکر اور کھوج کی جبلت عطا کر تا ہے
یہ عشق اور کھوج پھر اُس انسان کو حرکت پر مجبور کر تی ہے یہ حرکت پھر جنون
کا روپ دھار کر انسان کو کوچہ تصوف کی پر خار وادی میں اتار دیتی ہے کائنات
میں چاروں طرف ان گنت اربوں نظاروں کو دیکھ کر مشتِ غبار خالقِ کائنات کے
عشق میں ڈوبتا چلا جاتا ہے یہ عشق پھر اُسے دنیا جہاں کے رنگوں طلبوں
چاہتوں ذائقوں سے بے نیاز کر دیتا ہے یہاں تک کہ خود ستاشی مادیت پرستی اور
اقتدار پرستی جو اس مادی انسان کے خمیر میں حشر بر پا کر ئے رکھتی ہے قرب
الٰہی کا مسافر اِن بیماریوں یا با طن میں چھپے ناگوں کو کچل ڈالتا ہے
بارگاہ حق میں حاضری کے لیے پھر خود کو کڑے مجاہدوں تزکیہ نفس عبادت ریاضت
کے ریگستانوں سے گزار کر پیکر نور میں ڈھالتا ہے پھر یہ پیکر نور اور خدا
کے درمیان حائل تمام حجابات اٹھتے چلے جاتے ہیں پھر یہ انسان خدا کا محبوب
بندہ بن جاتا ہے جس کے بارے میں خدا ئے ذوالجلال فرماتے ہیں جب تم میرے بن
جاتے ہو تو پھر تم تم نہیں رہتے تمہارا بولنا میرا تمہارا سننا میرا تمہارا
اٹھنا بیٹھناچلنا میرا پھر ایسا انسان سیف زبان ہو تا ہے نفوس قدسیہ میں
شامل ہو تا ہے ۔دنیا اور دنیا کی تر غیبات کو طلاق دے کر ہی انسان ایسا
باکمال کن فیکون کا مقام حاصل کر تا ہے ایسا پیکر خاکی جو مادیت سے لطافت
میں ڈھل چکا ہو تا ہے اُس کو پھر خالقِ کائنات لازوال شہرت اور مقام عطا کر
تا ہے ہواؤں فضاؤں کو حکم جاری کر دیتا ہے کہ یہ میرا خاص بندہ ہے پھر ایسے
نیک بندے کی محبت کائنات کے ذرے ذرے میں ڈال دیتا ہے پھر ایسا مقرب بندہ رب
تعالیٰ کے بہت قریب اور انعام یا فتہ ہو تا ہے پھر ایسے بندے کی دعائیں
قبول ہوتی ہیں پھر اِس کے منہ سے الفاظ ابھی پورے نکلتے بھی نہیں کہ خدا کی
کن فیکون کی چھڑی حرکت میں آکر ان الفاظ کو مکمل کر دیتی ہے یہ مقام خاص
انسان یا مٹی کے پتلے کو کب نصیب ہو تا ہے جب یہ مادی کھلونا خود کو مادیت
اور خود پرستی کے زنگ سے دھو کر صاف کر لے اپنی زندگی خدا اور اُس کی مخلوق
کی عبادت اور خدمت کے لیے وقف کر دے پھر خدا ایسے بندوں کو معاشروں ملکوں
میں شہرت یا فتہ معتبر کر دیناہے پھر ایسے انسانوں کو لازوال شہرت مقام عطا
کرتا ہے لوگوں کو ایسے پاک لوگوں کے حقیقی مقام سے روشنا س کرانے کے لیے
ایسے نفوس قدسیہ کے ہاتھوں مختلف کرامات کا اظہار کر تا ہے تا کہ مادیت
پرستی کے طلسم میں غرق انسانوں کو ایسے اہل حق کے مقام اور شان کا پتہ چل
سکے ، دنیا کی یہ ریت رہی ہے کہ جب بھی کسی انسان کو شہرت عزت مل جائے تو
بہت سار ت ڈھونگی دو نمبر لوگ اُن نیک لوگوں جیسا وضع قطع بنا کر لوگوں کو
درمیان آکر ویسا ہی برتا ؤ اظہار کر تے ہیں تا کہ لوگ ان سے متاثر ہو کر
انہیں بھی دلوں کا راجہ بنا لیں بزم ِ تصوف میں بھی ایسے ہی ڈھونگی جادوگر
ہمیں ہر دور میں ملتے ہیں جو سادہ لوح لوگوں کو اپنی جھوٹی کرامات دکھا کر
متاثر کر تے ہیں پھر انہیں لوٹ کر راہِ فرار اختیار کر لیتے ہیں سادہ لوح
لوگ اصل کے دھوکے میں آکر جعل سازوں جھوٹے مداریوں کو حقیقت سمجھ کر اِن کی
راہوں میں آنکھیں بچھاتے ہیں یہ لوگ تمام لوگوں کو تو دھوکا دے کر اپنا
مقصد حاصل کر لیتے ہیں لیکن جب اِن کا واسطہ اصل اہل حق سے پڑتا ہے تو پھر
اِن کی اوقات سامنے آجاتی ہے دیکھنے میں یہ بھی اصل اہل حق درویشوں کی طرح
ہو تے ہیں حقیقی صوفیا کی طرح بولنا چلنا جھوٹی عبادت کا ڈرامہ کر نا لیکن
حقیقت میں یہ اندر سے مکاری اور جعل سازی کر رہے ہو تے ہیں یا بعض اوقات
اگر تھوڑا سا حصہ کہیں سے مل جائے تو عقل کل سمجھ کر دوسروں کو ڈراتے ہیں
ایسا ہی ایک واقعہ ہمیں بابا فریدگنج شکر ؒ کی زندگی میں بھی نظر آتا ہے جب
بابا فرید گنج شکر ؒ ہانسی شہر چھوڑ کر مستقل طور پر اجودھن ( پاک پتن )
میں قیام پذیر ہو چکے ہو تے ہیں خدا کے رنگ میں رنگے جانے کے بعد اب آپ
مخلوق خدا میں خدا کا نور بانٹنے میں مصروف ہو تے ہیں اہل دنیا آپ ؒ کے
روحانی تصرف شان مقام سے بخوبی واقف ہو چکی ہو تی ہے خلق خدا ہزاروں لاکھوں
کی تعداد میں دن رات آپ ؒ کی بارگاہ میں دامن مراد پھیلا کر کھڑے نظر آتے
ہیں شہنشاہِ پاک پتن ؒ بے کسوں مجبوروں لاچاروں کی ظاہری باطنی مدد کر تے
نظر آتے ہیں دلوں کا مسیحا دن رات دکھی انسانیت کی خدمت میں مصروف نظرآتا
ہے حضر ت نصیر الدین چراغ دہلوی ؒ فرماتے ہیں کہ ایک روز وہ اپنے شہنشاہ
حضرت نظام الدین اولیاء ؒ کے دربار ِ حق میں حاضر تھے جو علم دانش معرفت کے
موتی بانٹ رہے تھے کہ حقیقی لوگوں کو دیکھا دیکھی مصنوعی جھوٹے لوگ بھی
ویسی وضع قطع اپنا کر لوگوں کو جب بے وقوف بناتے ہیں تو پھر ایک دن ایسے
مداریوں کا ٹاکرا جب کسی اصل اہل حق سے ہو جاتا ہے تو پھر اہل دنیا ان
جھوٹے مداریوں کا اصل روپ دیکھ لیتے ہیں پھر یہ ندامت کے جہنم میں جھلستے
نظر آتے ہیں پھر بد نامی ان کا مقدر بن جاتی ہے حضرت نظام الدین ؒ فرماتے
ہیں کہ ایک دن میں اپنے مرشد بابا فرید گنج شکر ؒ کے دربار میں حاضر تھا
ایک مجذوب نما ملنگ اچانک دربار میں اجازت کے بغیر آگیا اُس کا انداز غیر
مہذب اور گستاخانہ تھا ملنگ خود کو بہت بڑا بزرگ درویش ظاہر کر رہا تھا آتے
ہی گرج دار آواز میں بولا اے فرید تم بھی درویش میں بھی درویش ہوں تمہارا
فرض ہے میری خدمت کرو احترا م کرو ملنگ کے لہجے سے حقارت اور غرور ٹپک رہا
تھا جسے اہل مجلس اور مریدین برداشت نہ کر سکے اُس ملنگ کو سختی سے منع کیا
کہ تم اپنے لہجے کو مہذب رکھو تم نہیں جانتے تم کن کے سامنے کھڑے ہو کر اِس
طرح بات کر رہے ہو تو بابا فریدؒ نے مریدوں کو روکا اور کہا سختی سے بات نہ
کرو جو اِس کے اندر ہے وہی زبان پر ہے ملنگ ابھی بھی نارمل نہ ہوا بلکہ
مسلسل گستاخانہ جملوں سے اپنی کرامات کا اظہار کر تا رہا تو بابا فریدؒ نے
مریدوں سے کہا اِس کو کچھ پیسے دے دو تاکہ چلا جائے رقم لے کر ملنگ نے جیب
میں ڈال لی اب حاضرین نے سمجھا کہ یہ چلا جائے گا کیونکہ اُس کو رقم مل چکی
تھی لیکن وہ جانے کی بجائے اور بھی گستاخ ہو گیا میری نظر میں اِن سکوں کی
کو ئی اہمیت نہیں یہ تو تمہارا دل رکھنے کے لیے میں نے رقم قبول کر لی ورنہ
اگر میں اپنی جھولی ابھی الٹ دوں تو کرہ ارض سونے چاندی سے بھر جائے زمین
کے سارے خزانے زمین اگل دے تم لوگ نہیں جانتے میں کون ہوں اب بابا فرید ؒ
ملنگ سے مخاطب ہو ئے آپ کو نذر دے دی ہے اب آپ یہاں سے چلے جائیں اپنی
جھولی کسی اور جگہ جا کر الٹ دیں ہمیں ضرورت نہیں ہے اب ملنگ نے بابا فریدؒ
کی کنگھی کی طرف اشارہ کیا کہ وہ مجھے دے دو پھر میں تجھے بہت بر کتیں دے
کر جاؤں گا بابا فرید مہذب لہجے میں بولے مجھے جو برکتیں چاہئیں تھیں وہ
میرا مرشد مجھے دے گیا اب مجھے کسی چیز کی ضرورت نہیں تو گستاخ ملنگ بولا
تیرا مرشد تجھے کیا دے گیا برکتیں تو میں تقسیم کر تا ہوں سارے خزانوں کا
مالک تو میں ہوں اپنی تحقیر تو بابا فرید ؒ برداشت کر رہے تھے جب مرشد کریم
ؒ کا نام آیا تو چہرے پر جلال کی آگ روشن ہو گئی جامیں نے تجھے اور تیری
کرامتوں برکتوں کو غرق کیا ملنگ پر دیوانگی طاری ہو چکی تھی خدمت گاروں نے
درگاہ سے نکالا تو دریا کی طرف دوڑنے لگا جا کر چلتے دریا کے تیز پانی میں
چھلانگ لگا دی تیز موجوں سے سنبھل نہ پایا غوطہ کھایا تو باہر نہ آیا دریا
غرق ہوا بابا فریدؒ کا جلال اُسے بھسم اور غرق کر گیا ۔
|