موت بھی کتنی بے رحم ہے ‘ ایسے شخص کو خاندان اور
دوستوں کے درمیان سے نکال کر لے جاتی ہے جس کے بغیر زندگی کا تصور بھی نہیں
کیا جاسکتا ۔اس لمحے میں اپنے عزیز ترین بچپن کے دوست اور کلاس فیلو محمد
حسین کی بات کررہا ہوں جو 1958ء سے 1964ء تک میرے ساتھ بستہ کاندھے پر اٹھا
کر ملشیئے کا شلوار قمیض پہن کر سکول جایاکرتا تھا ‘وہ سکول جس میں بیٹھنے
کے لیے بینچ یا کرسیاں نہیں ہوا کرتی تھیں بلکہ ہم سب درخت کے سائے میں
بچھے ہوئے پھٹے پرانے ٹاٹوں کے اوپر بیٹھ کر ا ب پ ت اور اک دونی دونی دو
دونی چار پڑھا کرتے تھے ‘ گرمیاں میں ٹاٹ درخت کے نیچے اور سردیوں میں دھوپ
میں کھینچ لئے جاتے ۔میں جس سکول کی بات کررہا ہوں اس کا نام گورنمنٹ
پرائمری سکول تھا وہ واں رادھا رام کے قصباتی شہر کی واحد تعلیمی درسگاہ
تھی ۔ اس سکول کے ہیڈماسٹر محمدابراہیم صاحب تھے جبکہ ہماری جماعت کے ماسٹر
عبدالعزیزتھے جونئی آبادی کے رہنے والے تھے ‘ ہم جب غلطی کرتے تو وہ کان
پکڑ کر اس کو مروڑ کر پوچھتے ۔ دوبارہ سبق بھولو گے ۔ ایک دن وہ بہت غصے
میں تھے‘ انہوں نے مجھے دونوں کانوں سے پکڑ کر اٹھایا اور کہہ تمہیں نانی
کا گھر نظر آرہا ہے کہ نہیں ۔ مجھے تو سکول کے باہرتانگوں کا اڈہ نظر آرہا
تھا لیکن جان چھڑانے کے لیے میں نے کہہ دیا۔ ہاں مجھے نانی بھی نظر آرہی ہے
اور اس کا گھر بھی۔ تب جاکر میری جان چھوٹی ۔ چھٹی کے بعد محمد حسین جسے ہم
سب حسینی کہہ کر پکارتے تھے اور میرا بڑا بھائی اکرم ہم تینوں اچھلتے کودتے
اپنے گھر کی جانب چل پڑتے۔ کبھی کبھار شرارت کو دل چاہتا تو ہم تینوں ہی
خربوزوں کے کھیت میں گھس جاتے اور خربوزے کھا کر پیٹ بھر لیتے ‘ ہمارے سکول
کے جنوب مغربی حصے میں مالٹوں اور سنگتروں کا باغ تھا جس کے اردگرد کچی مٹی
کی بنی ہوئی چھوٹی سی دیوار بھی تھی یہ دیوار ہمارے راستے میں کبھی حائل نہ
ہوتی ۔ جب چاہتے درخت پر چڑھ کر خوب مالٹے اور سنگترے کھاتے اگر مالی دیکھ
لیتا تو دور سے ہی ہمیں برا بھلا کہتا ہوا پیچھا کرتا تو ہم چھلانگ لگاکر
مٹی کی اس دیوار کو عبور کرکے یہ جا وہ جا ہو جاتے ۔ حسینی کے والد" شرف
دین "واں رادھا رام ریلوے اسیٹشن پربطور کا نٹے والا تعینات تھے ان کا گھر
ہمارے کوارٹر کے بالکل ساتھ تھا اس وجہ سے دونوں خاندانوں کا میل ملاپ بہت
زیادہ تھا ۔ کوارٹروں کے سامنے پیپل کا ایک بڑا سا درخت تھا جس کے ارد گرد
گلا باسی بھی تھی جو پردہ کرنے والی خواتین کے لیے کسی نعمت سے کم نہ تھی ‘
جب ایک کمرے پر مشتمل کوارٹر میں سانس گھٹنے لگتا تو گرمیوں کی دوپہر اس
پیپل کے درخت کے نیچے ہی گزرتی۔ میری والدہ اور حسینی کی والدہ شریفاں بی
بی بھی چارپائی بچھاکر بیٹھ جاتیں ۔ باتوں کے ساتھ ساتھ کوئی سویٹر بننے
لگتی تو کوئی اڈے پر ازار بند کوتیار کرنے میں مصروف ہوجاتی ۔ ہمارے گھر
میں چرخہ بھی تھا جسے والدہ مہارت سے چلاتی تومیں اسے دیکھ کر حیرا ن ہوتا
ہے روئی سے دھاگہ کیسے بن جاتا ہے یہی دھاگہ بعد میں ازار بند بنانے کے کام
آتا ۔ اس وقت گھر میں سالن صرف ایک ہی وقت پکایا جاتا تھا حالانکہ گوشت آٹھ
آنے کلو تھا پھر بھی ہم اسے خرید نہ پاتے جب کبھی گوشت کھانے کو دل کرتا تو
دو آنے کاایک پاؤ گوشت لے آتے ۔ بوٹیاں والد اور بڑے بھائی کھا جاتے میرے
اور ماں کے مقدر میں ہانڈی کے نیچے لگا ہوا سالن ہی آتا ۔ حسینی کی ماں جب
ساگ پکاتی تو پلیٹ میں ڈال کر ہمارے گھر دینا نہ بھولتی ۔یہی روٹین ہمارا
بھی تھا۔ میرے والد کی تنخواہ اس وقت 80روپے تھی جبکہ حسینی کے والد بھی
اتنی ہی تنخواہ لیتے تھے جب تنخواہ کے پیسے ختم ہوجاتے تو میں اور حسینی
کوارٹروں کے پیچھے دور دور تک پھیلے ہوئے کھیتوں میں گھس جاتے ‘جو بھی
ہمارے ہاتھ آتا ہم توڑ کر گھر لے آتے ۔ سوئی گیس کا تو اس وقت تصور بھی
نہیں تھا اسلئے شام ڈھلے کھانا پکانے کے لیے لکڑیاں لانے بھی ہماری ہی ذمہ
داری ہوتی ۔ جب کبھی فراغت کے لمحات میسر آتے تو حسینی اور میں ریلوے
اسٹیشن کے مسافر خانے میں جاکر بنٹوں اور اخروٹوں سے دل بہلاتے ۔ریلوے
کوارٹروں کے اور بچے بھی ہمارے ساتھ شامل ہوجاتے ۔ حسینی کا نشانہ مجھ سے
تیز تھا وہ اکثر مجھ سے جیت جاتا لیکن جب میرا بڑا بھائی اکرم کھیلتا تو وہ
حسینی سے سارے اخروٹ جیت جاتا۔
پھر ایک دن حسینی کے والد شرف دین جنہیں حقہ پینے کی وجہ سے دمے کی بیماری
لاحق تھی‘ اچانک فوت ہوگئے ‘قانون کے مطابق کوارٹر خالی کرنا پڑتا ہے ۔ چند
ریلوے ملازمین نے مل ملا کر حسینی کو کانٹے والا بھرتی کروا دیا تاکہ
کوارٹر پر قبضہ جاری رہ سکے۔اس دور میں ریلوے کاایک کمرے کا کوارٹر بھی
غنیمت تصور کیاجاتاتھا ۔ والد کے انتقال کے بعدچھوٹے بہن بھائیوں اور والدہ
کی دیکھ بھال حسینی کے کندھے پر آپڑی ۔حسن اتفاق سے انہی دنوں میرے والد
صاحب نے ڈویژنل سپرنٹنڈنٹ آفس لاہور کے کلرک کو کچھ دے دلاکر اپنی ٹرانسفر
لاہور کینٹ کروالی ۔ یہ ٹرانسفر اس لیے کروائی گئی کہ میرے دونوں بڑے بھائی
کو حصول تعلیم کے لیے رینالہ خورد اور پتوکی جانا پڑتا تھا ‘ جیسے ہی وہ
دونوں گھر سے سکول کے لیے نکلتے تو والدہ انکی واپسی تک پریشان رہتیں‘والدہ
کی پریشانی کو ختم کرنے کے لیے والد صاحب نے نہ صرف لاہور کینٹ ٹرانسفر
کروا لی بلکہ انہوں نے اپنی زندگی کو ہمارے بہترین مستقبل کے لیے داؤ پر
لگا دیا ۔وقت گزرتا رہا ہم لاہور شہر میں ایسے مگن ہوئے کہ ہمیں واں رادھا
رام کے دوست ہی بھول گئے۔
جب ہم کبھی کبھی عارف والا نانی کے گھر جانے کے لیے واں رادھا رام سے گزرتے
تو والدہ سمیت ہماری سب کی یہی خواہش ہوتی کہ حسینی ہمیں مل جائے ۔
اگرحسینی ہمیں نظر آ جاتا تو اس کی کوشش ہوتی کہ ہم اس کے ہاں ایک دو دن
ٹھہر کے پھر آگے جائیں لیکن اگلی بار آنے کا وعدہ کرکے ہم چلے جاتے ۔ پھر
وہ وقت بھی آیا جب میرے والد اور والدہ بھی اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ دونوں
بڑے بھائی محمدرمضان اور محمد اکرم بھی داعی اجل کو لبیک کہہ چکے ہیں ۔ان
کے بعد واں رادھا رام جانے کا تصور ہی دھندلا چکا تھا ۔میں اکیلا تو کبھی
سفر نہیں کرتا ۔ایک گھٹنے کے آپریشن کے بعد مزید رکاوٹیں کھڑی ہوگئیں ‘ میں
صرف ایسے گھر /شہر جاسکتا تھا جہاں مجھے واش روم میں کموڈ کی سہولت میسر
آتی۔ واں رادھا میں ایسے واش روم کا تصور بھی نہیں تھا ۔
جب میں آنکھیں بند کر کے واں رادھا رام کا تصور کرتا تو ایک ایک منظر میری
آنکھوں میں قطار در قطار فلم کی طرح چلنے لگتا ۔ جن کوارٹروں میں ہم رہا
کرتے تھے ‘ جس سکول میں میں نے کچی پکی پہلی دوجی تیجی اور چوتھی جماعت تک
پڑھا تھا وہ کہاں بھول سکتا ہے ۔ وہ ریت کے گھروندے جنہیں ہم پاؤں رکھ کر
بنایا کرتے تھے وہ ریت کا ٹیلا بھی میری چشم نم میں ہر لمحے موجود ہوتا ۔
ریت کے اس ٹیلے کے ساتھ ہی ایک چھوٹی سی مسجدہوا کرتی تھی جس میں چند گینگ
مین نماز پڑھا کرتے تھے اس کی صفائی میں اور حسینی کیا کرتے تھے ‘ شام ہونے
سے پہلے تالابوں کے اردگرد اگی ہوئی جھاڑیوں کو کلہاڑی سے کاٹ کر گھر لانا
ہماری ہی ذمہ داری میں شامل تھا جس کو مٹی کے چولہے میں جلا کر گھر کا
کھانا بنایا جاتا ۔ کوارٹروں کے پیچھے وہ تانگے والا اڈہ ۔ وہاں سے تانگے
پر بیٹھ کر مغرب کی جانب ہم بڑی نہر کے کنارے پر لگنے والا میلہ دیکھنے
جاتا کرتے ۔ جنوب کی جانب اکٹھی دو نہریں بہتی تھیں جنہیں جوڑیاں نہریں
کہاجاتاتھا۔ وہاں بھی سال میں ایک بار میلہ لگتا۔ میں اور حسینی ریلوے لائن
کے ساتھ ساتھ چلتے چلتے وہاں پہنچ جاتے پھر میلے کی رونقوں سے لطف اندوز
ہوتے ۔ دونوں نہروں کے اردگرد دوکانیں سجی ہوتیں جن میں بطور خاص ہمارے لیے
حیران کن چیزوں پڑی دکھائی دیتیں ۔ریلوے اسٹیشن سے شمال کی جانب ایک ریلوے
پھاٹک تھا جہاں اب فلائی اوور بن چکا ہے ‘جب بھی ریل گاڑی آنے کا وقت ہوتا
تو پھاٹک کو چند منٹ پہلے بند کردیا جاتا ۔چونکہ یہاں سے گزرنے والی سڑک جی
ٹی روڈ کہلاتی تھی اس لیے دونوں جانب بسوں اور گاڑیوں کا ہجوم جمع ہوجاتا
۔ہم تینوں بھائی اور حسینی بھی سکول سے واپسی کے بعد اس پھاٹک پر پھل فروٹ
اور سگریٹ بچاکرتے تھے ۔ تاکہ والد صاحب کی کم تنخواہ میں کچھ اضافہ ہوسکے
۔
حسن اتفاق سے میرا ایک دوست سید ندیم احمد پتوکی پوسٹ آفس میں پوسٹ ماسٹر
کی حیثیت سے تعینات ہوا ۔ یہ دوست کم بھائی زیادہ ہے ۔ اس نے مجھے کتنی بار
پتوکی آنے کی دعوت دی لیکن میں لاہور سے نکل نہ سکا ۔ ایک دن میں نے اس شرط
پر پتوکی آنے کی دعوت قبول کرلی کہ وہ اپنی گاڑی پر مجھے واں رادھا رام بھی
لیکر جائیں گے ۔ سید ندیم احمد نے فورا حامی بھر لی۔ پھر ایک دن میں اور
میری اہلیہ بس پر سوار ہوکر پتوکی جا پہنچے ۔ سیدندیم احمد نے جہاں پتوکی
شہر کی سیر کروائی وہاں مجھے لے کر واں رادھا رام جا پہنچے جہاں پوسٹ ماسٹر
نے ہمارا استقبال کیا اور ہم تینوں ریل بازار سے ہوتے ہوئے اسٹیشن پر پہنچے
۔ یہ وہی ریل بازار تھا جہاں چاچا موج دین سے ہم سودا لیا کرتے تھے ( چاچا
موج دین بھی اب اﷲ کوپیارا ہوچکا ہے )۔یہ بازار اب بھی خوبصورت دکھائی دے
رہا تھا ۔ریلوے اسٹیشن کی عمارت کا آدھا حصہ نئی ریلوے لائن کی زد میں
آچکاتھا ۔ وہ دو کنویں جہاں سے ہم پینے کاپانی لایا کرتے تھے وہ کنویں بھی
اپنا وجود کھو چکے تھے ۔ کسی ٹرین کے یہاں نہ رکنے کی وجہ سے وہ مسافر خانہ
کھنڈرات میں تبدیل ہوچکا تھا ۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ میرے وہ
تمام خواب ریزہ ریزہ ہوچکے تھے جو میں اپنی آنکھوں میں سجا کر یہاں لایا
تھا ۔دکھ اور افسوس کی حالت میں ہم واپس پتوکی پہنچے ‘ ایک رات وہاں گزار
کر واپس لاہور چلے آئے ۔
دو تین سال ہی گزرے ہوں گے کہ نویدظفر سے فیس بک پر دوستی ہوگئی اس نے
بتایا کہ میں پتوکی ریلوے اسٹیشن میں اسسٹنٹ اسٹیشن ماسٹر ہوں ۔ہمارے گھر
میں کموڈ والا واش روم بھی ہے اور مہمان خانہ الگ تھلگ ہے ۔ میں نے جب واں
رادھا رام جانے کی خواہش کا اظہار کیا تو وہ فورا مان گئے ۔چنانچہ ایک
مرتبہ پھر ہم خیبر میل کے ذریعے پتوکی جا پہنچے لیکن اس کی پیشگی اطلاع
محمد حسین کو کردی تھی وہ میری آمد کا سن کر بہت خوش ہوا ۔نوید ظفر کے
ہمراہ جب واں رادھا رام ( نیا نام حیبیب آباد) پہنچے توپہلے ہم محمد حسین
کے گھر گئے وہاں سے اسے لے کر اس سکول میں پہنچے جہاں میں پڑھتا
رہاہوں۔سکول کے ہیڈماسٹر اور تمام اساتذہ نے ہمارا گرمجوشی سے استقبال کیا
اور سکول کے بارے میں بریفنگ دی ۔ مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ اب یہ سکول
پختہ چاردیواری اور پختہ کمروں پر مشتمل تھا جہاں بچوں کے لیے الگ الگ کلاس
روم بھی تھے۔ہم نے کچھ وقت سکول میں گزارا اور چند یادگاری تصاویر بھی
بنوائیں پھر اجازت لے کر محمدحسین کے گھر چلے آئے ‘ وہاں کچھ وقت گزارنے کے
بعد واپس پتوکی آگئے ۔
4نومبر 2019ء کی صبح حسینی کے بیٹے اخترحسین نے مجھے اطلاع دی کہ آپ کے
دوست اور میرے ابو محمد حسین اس دنیا میں نہیں رہے تو بے ساختہ آنکھوں سے
آنسو بہہ نکلے ۔مرحوم کے ساتھ گزارے ہو ئے لمحات ایک بار پھر قطار در قطار
میرے آنکھوں میں اترنے لگے میں دیر تک نماز کے مصلے پر بیٹھا روتا رہا کہ
محمد حسین عرف حسینی بھی ہمیں چھوڑ کر ایسی دنیا میں جا بسا جہاں سے کوئی
واپس نہیں آتا ۔
بے شک ہم اﷲ کے لیے ہیں اور اسی کی جانب جانے والے ہیں ۔
اختر حسین نے بتایا کہ ایک ماہ پہلے ان کے والد کو فالج کا اٹیک ہوا تھا
پھر ان کے دماغ کی شریان پھٹ گئی وہ حبیب آباد سے لاہور کے جنرل ہسپتال لے
کر آئے جہاں وہ کتنے ہی دن زیر علاج رہے لیکن جب انسان کا وقت پورا ہوجاتا
ہے پھر کوئی بھی علاج کام نہیں آتا ۔میرا دوست محمد حسین واں رادھا رام (
حبیب آباد) میں ہی پیدا ہوا تھا اور اسی شہر کے نواحی قبرستان میں اپنے
والدین کی آغوش میں جاسویا ۔
|