آج کل مقابلے کا دور ہے۔ یہ مقولہ صرف کسی کاروبار میں
ترقی ہی کےلیے استعمال نہیں ہوتا بلکہ اب تو شخصی ترقی کےلیے بھی نہایت
ضروری ہوگیا ہے۔ چاہے ہمیں کسی جگہ نوکری کرتے ترقی کرنی ہو یا پھر نوکری
کی تلاش کرنی ہو، دونوں باتوں میں بے حد مسابقت کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ ہر
بندہ ہی آگے نکلنا چاہتا ہے۔ سب کچھ جلدی پا لینا چاہتا ہے۔ مگر ہم یہ بھول
جاتے ہیں کہ لگی بندھی کوشش و روٹین سے ایسا ممکن نہیں ہے۔
اگر ارادے میں نیک نیتی ہو تو کسی بھی مقصد کا حصول مشکل تو ہوتا ہے مگر
ناممکن نہیں۔ اچانک سے کہیں ایسے اسباب میسر آجاتے ہیں کہ بندہ حیران رہ
جاتا ہے۔ مگر شرط وہی کہ نیت سچی ہو، کوشش میں انفرادیت ہو تو منزل آسان
ہوجاتی ہے۔ اسی حوالے سے ایک منفرد واقعہ پچھلے دنوں پڑوسی ملک میں پیش آیا
جس میں بےروزگاری اور کم آمدن کے مارے لوگوں کےلیے حوصلہ افزا سبق ہے۔
مہاراشٹرا کے علاقے پونا میں ایک خاتون ’’گیتا‘‘ کو یک دم اپنی اچھی آمدن
والی نوکری سے ہاتھ دھونا پڑا۔ اب اس کی نوکری بھی کوئی ہائی فائی قسم کی
نہیں تھی، نہ ہی کسی ایسے پیشے کے ساتھ وابستہ تھی کہ جس کی بہت مانگ ہو
بلکہ وہ تو گھروں میں کام کاج کرنے والی معمولی ماسی تھی۔ تبھی اس خاتون نے
دوبارہ کہیں لگ جانے کی بہت کوشش کی مگر کہیں بات نہیں بن رہی تھی۔
آخرکار جب دوست کے توسط سے اسے ایک گھر میں ملازمت ملی تو اس نئی مالکن نے
گیتا کو کہیں مزید کام دلانے کےلیے کچھ ایسے منفرد انداز سے مدد کی کہ
تھوڑے ہی عرصے میں اس خاتون کو نوکری دینے والوں کا تانتا بندھ گیا۔
اس مالکن نے صرف یہ کیا کہ اپنی نئی ماسی کو وزیٹنگ کارڈ بنوا کر دے دیے۔
جس پر اس کا اور اس کے کام کا تعارف نہایت منفرد انداز میں بیان کیا گیا
تھا۔ ان کارڈز کو نہ صرف سیکیورٹی گارڈز کے ذریعے دیگر گھروں میں تقسیم کیا
گیا بلکہ اس مالکن نے سوشل میڈیا پر بھی پوسٹ کردیا۔ اب آپ نیک نیتی اور اس
منفرد کوشش کا نتیجہ چیک کریں کہ گھروں میں کام کرنے والی اس ماسی کا
وزیٹنگ کارڈ سوشل میڈیا پر اتنا وائرل ہوا کہ ملک بھر سے انہیں ہزاروں کالز
موصول ہوئیں اور کام کی پیشکش کی گئی۔ آپ خود اندازہ لگائیں کہ اس چھوٹی سی
منفرد کوشش سے گیتا کو نہ صرف جلد ہی روزگار میسر ہوا بلکہ اچھی شہرت بھی
بونس کے طور پر وصول ہوگئی۔
تو جناب اس واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ قسمت بھی ہمارا تب بہترین ساتھ دیتی
ہے جب ہم بھی اپنی جدوجہد کو بہترین سے ادا کرتے ہیں۔ کچھ ایسے ہی واقعات
پہلے بھی دیکھنے میں ملے جب 2016 میں ایک سلیم نامی پاکستانی نوجوان نے 28
صفحات کی منفرد سی وی بنائی تھی۔ وہ بھی جب سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تو اس
کو بھی جلد ہی بہترین جاب مل گئی تھی۔ اسی طرح 2018 میں ڈیوڈ نامی امریکن
ویب ڈیولپر نوجوان نے کالج تعلیم مکمل کرنے کے بعد جاب کی کوشش کو مزید
بہتر بنانے کےلیے ’’سیلیکون ویلی‘‘ اسٹریٹ میں آتے جاتے ہر شخص کو اپنی سی
وی دینا شروع کردی تھی۔ جس کے نتیجے میں جلد ہی کسی ادارے میں ملازمت حاصل
کرلی۔
تو جناب! ہمارے پاکستانی نوجوانوں کو چاہیے کہ پریشانی روزگار میں مزید
پریشان ہوکر ہمت ہار جانے کے بجائے اپنی کوششوں کا تنقیدی جائزہ لیں۔ اپنے
آپ کو مختلف انداز میں سامنے لائیں۔ اچھے لوگوں سے مشورہ کرتے اپنے کام و
کوشش میں منفرد پن لائیں۔ ہمیشہ خود کو بھیڑ سے ممتاز بنانےکی کوشش کریں۔
اپنی سی وی، کور لیٹر، دفتری خط و کتابت، بات چیت اور کام وغیرہ میں
انفردیت لائیں، کیونکہ اکثر صرف منفرد طریقہ سے پیش کیے جانے والا کاغذ کا
چھوٹا سا ٹکڑا ( وزیٹنگ کارڈ) بھی حالات بدل دینے کی بڑی طاقت رکھتا ہے۔
|