|
سکول میں ہر بچے کا خواب یہی ہوتا ہے کہ یہاں سے فارغ ہو کر میں ایسا کام
کروں گا کہ دنیا دیکھے گی۔ بچپن کے سوال ’بیٹا بڑے ہو کر کیا بنوں گے؟‘ کا
یہ وہ جواب ہے جو آپ کسی کو دیتے نہیں مگر سوچتے ضرور ہیں۔
پاکستان میں کروڑوں نوجوان ہیں۔ بہت سے سوچتے ہیں کہ اگلے بل گیٹس یا مارک
زکربرگ وہ بنیں گے۔ مگر پھر کیا بات ہے کہ پاکستان میں کاروباری جینیئس
پیدا نہیں ہوتے؟
لاکھوں نوجوان ہر سال پاکستان کی ورک فورس میں شامل ہوتے ہیں اور زیادہ تر
اپنی سی وی لیے نوکریاں ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں۔ اپنا کاروبار شروع کرنے کا
شاید ہی کوئی سوچتا ہے۔
تو پاکستان میں نوجوانوں کے لیے کاروبار شروع کرنے میں کیا چیلنجز ہیں؟
ماہرین ان کی تین اقسام بتاتے ہیں۔
پیچیدہ قوانین اور کمزور عدالتی نظام
مرتضیٰ زیدی نے دو سال قبل حکومت کی مدد کے ساتھ کراچی اور پشاور میں نیشنل
انکیوبیشن سنٹر قائم کیے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’جب کوئی نوجوان پاکستان میں کاروبار شروع کرنے کی سوچتا ہے
تو اس کے پاس بہت ساری معلومات نہیں ہوتی جیسا کہ (اس کاروبار سے منسلک)
حکومتی قوانین کیا ہے یا پالیسی کیا ہے۔ یا پھر یہ کہ اسے کس محکمہ سے کون
سی اجازت درکار ہے۔ کدھر سے ہم نے این او سی لینا ہے۔ اس کے بارے میں ایسا
کوئی ایک پورٹل نہیں ہے جہاں یہ ساری معلومات باآسانی مل جائیں۔‘
|
حسن رضا راولپنڈی شہر میں کاروبار کرتے ہیں اور ’دی انڈس
آنٹرپنیورز‘ نامی گروپ سے وابستہ رہے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ بہت سے ایسے قوانین ہیں جو شاید پاکستان بننے سے پہلے کے
ہیں۔
’آپ کو تین چار محکموں سے ایک کام کے لیے لائسنس یا این او سی لینے پڑتے
ہیں۔ ایک پچیس سال کے نوجوان کو یہ پتا بھی نہیں ہوگا کہ اگر میں نے ایک
کام شروع کرنا ہے تو میں کیا لائسنس لوں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ اگر ایک آئیڈیا این او سی اور لائسنسوں میں ہی پھنس گیا تو
وہ یا ناکام ہوگا یا اس میں تاخیر آئے گی۔
قوانین کی پیچیدگی اپنی جگہ، قانون کی عملداری بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔
حسن رضا کہتے ہیں کہ ’پاکستان میں آپ زبان پر کاروبار کرتے ہیں۔ اگر آپ
اپنے کسی وینڈر یا کسٹمر کے ساتھ کوئی معاہدہ کرتے ہیں اور وہ اسے توڑ دیتا
ہے تو آپ کے پاس کوئی ایسا طریقہ نہیں ہے کہ آپ قانون کا سہارا لے کر اس پر
بروقت عمل کروا سکیں۔ کوئی مؤثر اور جلد کام کرنے والا محتسب نہیں ہے۔
عدالتوں میں تو آپ کو کئی کئی سال لگ جاتے ہیں۔‘
|
|
مرتضیٰ زیدی بتاتے ہیں کہ جب انھوں نے اپنی کمپنی کا آغاز کیا تو ایک مرتبہ
ایک ڈیل کے سلسلے میں وہ مذاکرات کر رہے تھے۔ ’جب میں نے اصرار کیا کہ
ہمارا معاہدہ ایسا ہونا چاہیے تو انھوں نے آگے سے مجھے کہا کہ آپ جو مرضی
لکھوا لیں، اگر ہمارا کوئی مسئلہ ہوا تو پانچ سال عدالت میں پیشی نہیں لگنے
دوں گا!‘
سرمایہ کاری تک آسان رسائی
چلیں اگر آپ نے پاکستان کے پیچیدہ عدالتی نظام کو پار کر بھی لیا تو آپ کو
کاروبار شروع کرنے کے لیے پیسے کہاں سے ملیں گے؟
حسن رضا کہتے ہیں ’اگر پاکستان میں آپ کو کسی بینک سے رجوع کرنا پڑے تو
یہاں شرحِ سود اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ آپ کی کاسٹ آف ڈونگ بزنس بہت بڑھ جاتی
ہے۔ اور پھر قرضہ دینے کا بینک کا معیار یہ ہے کہ جس کے پاس پہلے پیسے ہوں
اسی کو قرضہ دو۔‘
‘ کوئی چیز گروی رکھے بغیر کسی نوجوان کو بینک سے کاروبار کے لیے قرضہ نہیں
ملتا۔ یعنی آپ کو آخر کار اپنے ماں باپ، بہن بھائی یا کسی رشتے دار کے پاس
ہی جانا پڑتا ہے۔ آپ کو کوئی بینک آئیڈیا یا کیش فلو کی بنیاد پر کہ اس
کاروبار میں دم ہے، کوئی قرضہ نہیں دیتا۔‘
مگر پاکستان میں وینچر کیپیٹلسٹ (یعنی انویسٹر یا سرمایہ کار) تھوڑے سہی،
موجود تو ہیں۔ کیا نوجوانوں کی وہاں بات بنتی ہے؟
مرتضی زیدی کہتے ہیں ’جب کوئی سرمایہ کار آپ کے ساتھ بیٹھتا ہے تو وہ یہ
کہتا ہے کہ میں آپ کے بزنس کا 70 سے 90 فیصد حصہ لے لوں گا۔ وہ یہ نہیں
سوچتا کہ بزنس کے بانی جس کا آئیڈیا ہے اس کا اگر حصہ زیادہ ہوگا تو وہ
زیادہ محنت سے زیادہ دل لگا کر کام کرے گا۔ اور اگر کاروبار کامیاب ہو گیا
تو سرمایہ کار کا چھوٹا حصہ بھی بڑا ہو جائے گا۔‘
|
|
غیر ہنر مند ورک فورس
چلیں ایک مرتبہ پھر اچھا گمان کرتے ہیں۔ آپ کے پاس اچھا آئیڈیا بھی ہے،
قوانین بھی آپ سمجھ گئے ہیں، اور پیسے بھی اکھٹے کر لیے ہیں۔ تو پھر کیا آپ
کو پاکستان میں ہنر مند ملیں گے کام کرنے کے لیے؟
شفیق اکبر، گرانا گروپ آف کمپنیز کے سی ای او ہیں۔ انھوں نے گذشتہ تین برس
میں متعدد نئی کمپنیاں پاکستان میں لانچ کیں ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’اس مارکیٹ میں ہیومن ریسور بہت موجود ہے۔ مگر اچھے کام
کرنے والے نہیں ملتے۔‘
رومر پاکستان کی سب سے پہلی کار رینٹل ایپ ہے۔ رومر کے سی ای او محمد ہادی
کہتے ہیں پاکستان میں کاروبار شروع کرنے میں ایک بڑا چیلنج کلچر کا ہے۔
’پاکستان میں ابھی سٹارٹ اپ کلچر قائم نہیں ہوا ہے۔ اور لوگ اتنی تیزی سے
کام نہیں کرتے جتنے دوسرے ممالک میں کرتے ہیں۔ باہر تو یہ ہوتا ہے کہ لوگ
اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے دفتر میں بیٹھے رہتے ہیں اور جب تک کام ختم نہیں ہوتا
تب تک گھر نہیں جاتے۔ پاکستان میں شاید ابھی بھی نائن ٹو فائیو ذہنیت ہے۔‘
مگر اس حوالے سے محمد ہادی بہت ناامید نہیں ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’آپ یہاں دس لوگ رکھیں تو نو کا پیشہ وارانہ مزاج درست
نہیں ہو گا۔ مگر آخری دسواں ایسا ملے گا کہ وہ ہیرا ہو گا اور باقیوں کی
کمی کو پورا کر دے گا۔
اس حوالے سے حسن رضا کہتے ہیں کہ ’ہم یونیورسٹیوں میں انٹرپنیورشپ یعنی
ذاتی کاروبار کرنے کے کورسز پڑھاتے ہیں۔ مگر ان کو پڑھانے والے اساتذہ نے
خود کبھی کوئی کمپنی نہیں چلائی ہوتی، انھیں کیا پتا کہ ایک کاروبار کرنے
کے مسائل کیا ہوتے ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ’پھر ہمارے تعلیمی اداروں نے ڈگریوں پر توجہ دی ہے، ہنر پر
نہیں۔ ہم کتابی باتیں سیکھا کر بچوں کو مارکیٹ میں بھیج دیتے ہیں۔‘
|
|
ان مشکلات کا حل کیا ہے؟
پاکستان میں کاروباری کلچر میں بہتری کے لیے ماہرین کہتے ہیں کہ تین چار
بنیادی نسخے ہی کافی ہیں۔
مرتضی زیدی کا کہنا ہے کہ ’حکومت کو چاہیے کہ وہ قوانین کو سمجھنے میں
آسانی پیدا کرے۔ کوئی ایسا پورٹل یا دفتر ہونا چاہیے جہاں کوئی بھی نوجوان
جائے اور اس کو اپنے کام کے حوالے سے تمام تر سوالات کے قانونی جواب مل
جائیں۔‘
’دوسرا، حکومت کی سکیموں کا ویژن بہتر ہونا چاہیے۔ کامیاب جوان پروگرام
جیسی سکیم میں آپ ہزاروں لوگوں کو چھوٹے چھوٹے قرضے دے رہے ہیں۔ اس کی
بجائے آپ کہیں کہ میرٹ کی بنیاد ہر ہم ایک ہزار لوگوں کو جدت پسند آئیڈیا
کی بنیاد پر بڑا قرضہ دیں گے۔ تاکہ آپ کامیاب کمپنیاں پیدا کریں جن کی
مالیت ایک دن اربوں تک پہنچے۔ ابھی تو لوگ قرضہ لیتے ہیں، کم شرحِ سود کی
وجہ سے اس کا فائدہ اٹھاتے ہیں، کوئی گاڑی لے لیتا ہے تو کوئی سیاحت میں
خرچ کر دیتا ہے۔‘
حسن رضا کہتے ہیں کہ ایک اور اہم حل ہماری یونیورسٹیوں کا صنعت سے بہتر
رشتہ ہے۔ ’ہم بات ضرور کرتے ہیں ان دونوں کی قربت کی مگر کیا آپ نے دیکھا
ہے کہ کوئی پروفیسر اور طلبہ فیکٹریوں میں بار بار آ رہے ہوں، کام کی نوعیت
کو سمجھ رہے ہوں۔‘
’ہمارے تعلیمی اداروں میں طلبہ کو تعلیم مت دیں، ہنر سکھائیں۔ انھیں کہیں
کہ چھٹیوں میں فیکٹریوں میں کام کریں تا کہ جب تک وہ فارغ التحصیل ہو کر
مارکیٹ میں آئیں تو ان کے پاس کوئی ہنر ہو جو ان کے لیے بھی سود مند ہو اور
انٹرپنیور کو بھی فائدہ پہنچائے۔‘
|