عدل حق، برابری، یکسانیت اور راست کے معنی میں مستعمل
ہوتا ہے ۔ دنیا کا کوئی بھی نظام عدل سے خالی ہونے پر نظام کہنے کے لائق
نہیں ہے ۔ نظام کہتے ہی ہیں سیدھی راہ کو۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کا سارا
نطام عدل پر قائم ہے ،بالفاظ دیگر عدل وانصاف کے بغیر اسلام کا ادنی تصور
بھی باقی نہیں رہ سکے گا۔ قیامت کے دن اللہ تعالی عدل کے ذریعہ ہی بندوں کے
اعمال کاپورا پورا بدلہ دے گا۔
دنیا چونکہ امتحان وآزمائش کی جگہ ہے ،یہاں گھر سے لیکرملک تک اور اسٹیشن
سے لیکر عدالت ہرجگہ ہمیں کبھی عدل نظرآتاہے اور کبھی اس کے برخلاف ظلم
دکھائی دیتا ہے بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ دنیا کی اکثر جگہوں میں عدل
کم اور اکثر ظلم وجور ہی نظر آتا ہے۔ نبی ﷺ نے دین کے تمام امور میں میانہ
روی اختیار کرنے کا حکم دیا ہے یہ عین عدل ہے ۔عبادت کریں اعتدال کے ساتھ
جس میں جسم کے ساتھ کسی قسم کی ناانصافی نہ ہو، تجارت ومعاملات کریں بھلائی
کے ساتھ جس میں ظلم نہ ہو، غرض یہ کہ اسلام کی تمام تعلیمات عدل پرمبنی ہیں
کیونکہ یہ من جانب اللہ ہے ۔ غیراللہ کی جانب سے نظام زندگی اور سیادت
وقیادت کے لئے جیسابھی دستور بنالیا جائے اس میں عدل نہیں ہوگا، عدل ہوگا
بھی تو برائے نام ہوگا۔ قرآن میں اللہ تعالی نے اس بات کی طرف اشارہ کردیا
ہے کہ اگر یہ کتاب(قرآن) اللہ کے علاوہ دوسروں کی جانب سے ہوتا توتم اس میں
بہت زیادہ اختلاف پاتے ۔ جب حال یہ ہے کہ انسانوں کا بنایاہوا کوئی بھی
دستور اختلاف سے خالی اورعدل پر مبنی نہیں ہوسکتا ہے تو پھر حکومت وعدالت
کے اس دستور کے ذریعہ انسانیت کو کیسے عدل ملے گا؟
اللہ تعالی دنیا میں قرآن کی شکل میں عادلانہ نظام زندگی اور دستور حیات
بھیج کر انسانوں پر بڑا کرم کیا ہے، اس دستور کو دنیا کے جس خطے میں نافذ
کیا جائے وہاں امن وامان ہوگا، امیر وغریب میں یکساں سلوک ہوگا، عدل وانصاف
کے سایہ میں لوگ بے خوف ہوکر زندگی گزارسکیں گے ، کوئی بلاوجہ کسی پر
زیادتی کرنے سے بچے گا ،ظالم کو اس کے کئے کی سزا اورمظلوم کو پورا پورا
انصاف ملے گاحتی اس خطہ میں رہنے والے حیوانوں کے ساتھ بھی احسان وسلوک کیا
جائے گا۔
الحمد للہ انسانوں میں کائنات کے سب سےبڑے عادل ومنصف حضرت محمد ﷺنے اللہ
کا عادلانہ پیغام اپنی امت تک عدل وانصاف کے ساتھ پہنچایا ، آپ ﷺنےزندگی کے
ہر موڑ پر اپنی امت کو نہ صرف عدل کا دامن تھامنے کا حکم دیا بلکہ عدل
وانصاف کے باب میں ایسی مثال پیش کیں جس کی نظیر دنیا پیش کرنے سے قاصر
ہے۔اس کا اندازہ صحیح بخاری کے ایک واقعہ سے لگاسکتے ہیں کہ ایک بڑے خاندان
کی عورت فاطمہ بنت اسود نے چوری کرلی ، اسلام میں ایسے مجرم کی سزا ہاتھ
کاٹنا ہے ۔ بڑے خاندان کی ہونے کی وجہ سے لوگوں کو فکر لاحق ہوگئی کہ اگر
اس کا ہاتھ کاٹ لیا جائے تو اس کےساتھ پورے خاندان کی رسوائی ہے اس لئے
لوگوں نے اس معاملہ میں رسول اللہ ﷺ سے سفارش کی سوچی ،چنانچہ اسامہ بن زید
اس عورت کی سفارش کے لئے نبی کے پاس آئے ۔ نبی نے اس وقت اسامہ بن زید اور
اپنی پوری امت کو ایسی تعلیم دی جس کے مثال قیامت تک کوئی حاکم ،جج، وکیل ،
لیڈر اور رہنما نہیں پیش کرسکتا۔ آئیے جانتے ہیں کہ آپ نے کیا فرمایا؟:
پچھلی بہت سی امتیں اس لیے ہلاک ہو گئیں کہ جب ان کا کوئی شریف آدمی چوری
کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اور اگر کوئی کمزور چوری کرتا تو اس پر حد قائم کرتے
اور اللہ کی قسم! اگر فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی چوری کرے تو
میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ ڈالوں۔
بھلا دنیا کا کون سا حاکم اپنی بیٹی کو چوری کی سزا کے طور پراس کا ہاتھ
کاٹ سکتا ہے ؟ یقینا کوئی بھی نہیں ۔ ہاں وہ حاکم ایسا کرسکتا ہے جو اسلام
کا سچا پیروکا رہوگا اور اللہ سے بہت زیادہ ڈرنے والا ہوگا۔
تاریخ گواہ ہے کہ نبی ﷺ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے خلفائے راشدین نے اپنے
عہدمیں لوگوں کے ساتھ ویسا ہی عدل کیا جس کی تعلیم اللہ اور اس کے رسول نے
دی ہے ۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کے اختلاف ومعاملہ حل کرنے کے لئے
قاضی منتخب کئے اور آپ کے بعد دوسرے خلفاء بھی منصب قضااوردارالقضاء بحال
رکھے ، قضاۃ کو باقاعدہ تنخواہ دی جاتی ہے تاکہ غیرجانبدار ہوکر عدل پر
مبنی فیصلہ کرسکیں ۔ خلفائے راشدین کے بعد بھی اسلام کے نام لیوا دین پر
عمل کرنے، تعلیمات الہیہ کی اشاعت کرنے اور لوگوں کے درمیان معاملات کرنے
میں عدل کا دامن تھاما۔
محمد ﷺنے عادل حکمران کی حوصلہ افزائی کی ہے اور عدل کے ساتھ حکمرانی کرنے
والوں کے بلند درجات کا ذکر فرمایا ہے ۔نبی ﷺکی ان تعلیمات سے جہاں ایک طرف
مسلم حکمراں کو عدل کرنے میں ترغیب ملتی ہے وہیں ظلم وزیادتی کے بھیانک
نتائج سے خوف کھاتے ہوئے کسی کی حق تلفی اور جانبداری سے اللہ سے ڈرمحسوس
کرتا ہے۔
ہندوستان کے مسلم حکمرانوں کی بات کی جائے جنہوں نے ہندواکثریت ملک پر
سیکڑوں سال حکمرانی کی تو بلاتردد کہا جائے گا کہ ان سبھوں نے بلاامتیاز
سبھی ہندوستانیوں کے ساتھ انصاف سے کام لیا۔ خاص وعام اورخصوصاانصاف کے لئے
ان کے درباروں میں"دیوان عام " ہوتا جہاں ہرکسی کی فریاد سنی جاتی بلکہ
کتنے حکمرانوں کے یہاں زنجیرعدل ہوتا جسے ہلاکر مظلوم اپنی آواز بآسانی
بادشاہ تک پہنچاسکتا تھا ۔زنجیرعدل کا مطلب یہ تھاکہ ہرکسی مظلوم سے بادشاہ
آگاہ رہے اور اسے مکمل انصاف دے سکے۔
ان حکمرانوں کی غیرمسلموں کے ساتھ رواداری، عدل وانصاف، حقوق ومراعات اور
احسان وسلوک ہندوستانی تواریخ کا روشن باب ہے۔ آج کئی مسلم بادشاہ جن میں
ظہیرالدین بابربھی ہیں کو ہندوستانی حکومت ظالم بادشادکی شکل میں پیش کرتی
ہے،یہ سراسر زیادتی، تاریخ کے ساتھ کھلواڑ اور آج کے مسلمانوں کے ساتھ ظلم
وناانصافی ہے ۔
9/نومبر2019 بروز سنیچر ہندوستان کی سپرم کورٹ نے بابری مسجد قضیہ میں
ناانصافی کرتے ہوئے یہ فیصلہ سنایا ہے کہ یہ مسجد رام جنم بھومی ہے اس جگہ
ہندو رام مندر تعمیر کرے گا۔ ہم کو ان سے ہے وفا کی امید ، جونہیں جانتے
وفا کیا ہے۔
بابر کیا ،کوئی بھی مسلم حاکم نہ کسی ہندوکا گھر جلایا، نہ کہیں گرودوارہ
توڑا، نہ مندر منہدم کرکے اس پر مسجد بنائی ، نہ ناحق خون بہایا حتی کہ کسی
کو جبرا مسلمان نہیں بنایا۔ بابر نے تو اپنی اولاد ہمایوں اور بنارس کے
حاکم ابوالحسن کومندر ڈھانے سے خصوصی طور پر منع کیا تھا۔ خیر بابری مسجد
کے سلسلے میں جوہونا تھا سو ہوگیا، عدالت کا فیصلہ شاید اب بدلہ بھی نہیں
جاسکتا ، بابری مسجد کی جگہ رام مندر تعمیرہوکر رہے گاتاہم یہ تاریخ کبھی
نہیں مٹ پائے گی کہ بابری مسجد توڑ کر اس کے ملبے پر رام مندر بنایا
گیاساتھ ہی عدالت کی یہ سچی بات بھی یاد رہے گی کہ بابر ی مسجد کی تعمیر کے
وقت کوئی مندر نہیں توڑا گیا تھا۔
اب سوچنا یا کرناکیا ہے؟ اوپرمیں نے بتایا ہے کہ اللہ کے دین کے علاوہ کسی
دستور میں عدل ممکن نہیں ہے ، اس سے ہم مسلمانوں کو ایک سبق ملتا ہے کہ
دنیا میں عدل چاہتے ہیں تو پھرہمٰیں اللہ کے دین کی طرف آنا ہوگااور کتاب
اللہ کو ہی اپنا دستور بنانا پڑے گا۔
|