نبی کریمﷺ کی ولادت باسعادت کی خوشیاں تمام مومنین
جوش و خروش سے منا رہے ہیں۔ نبی کریم ﷺ کو اس دنیا میں نبی آخرزماں بنا کر
بھیجا گیا۔آپ کی ذات بابرکات کی فضیلت اور اہمیت کو بیان کر نا ناممکن ہے۔
اس کے اوپر لاتعداد کتب موجود ہیں۔لیکن آج میں جس بارے میں آپ سے بات کرنا
چاہتا ہوں وہ اس دن کو منانے کے حوالے سے ہیں۔ یہ دن بہت اہمیت کا حامل ہے
اور ہر کوئی اسے اپنے طریقے سے مناتا ہے۔لیکن یہ میرے محترم و مکرم نبی کی
سالگرہ ہے کسی عام آدمی کی نہیں۔ اس سالگرہ کو عزت و توقیر سے منانا
چاہیے۔پہاڑیوں اور مکانوں کو سجانے کے حوالے سے جو بھی کام کیا جاتاہے اور
کیک کاٹے جاتے ہیں۔ لنگر تقسیم کئے جاتے ہیں۔ پکوان پکائے جاتے ہیں۔ سب
اپنی اپنی جگہ درست ہیں۔لیکن ہمیں اس سب کے پیچھے کارفرما نیت دیکھنی بہت
ضروری ہے۔ یقینا اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور جو بھی کام اس دن کیا
جائے گا اگر اس کی نیت ثواب کی ہے تو یقینا میرا اﷲ اس کی جزا ضرور دے گا۔
اگر اس میں نیت ثواب کے علاوہ کچھ اور ہے تو یقینا گنا ہ اور عذاب بھی ملے
گا۔ عام طور پر اس بابرکت رات کو بہت سے لوگ اپنی فیملیز کے ساتھ باہر
نکلتے ہیں اور سجائی گئی گلیوں اور پہاڑیوں کو دیکھتے ہیں۔اس دوران جو کچھ
بھی ہوتا ہے لوگ اس بات سے بخوبی واقف ہیں۔لیکن اس کی وجہ سے وہ جو اپنا
ثواب ضائع کرتے ہیں اور نمازیں ضائع کرتے ہیں۔بد نگاہی کرتے ہیں۔ان سب
چیزوں کا نتیجہ ان کو بھگتنا تو ہو گا۔
اصل میں تو ہمیں ذیادہ سے ذیادہ عبادت کرنی چاہیے اور درود پاک پڑھنا
چاہیے۔لیکن ہم لوگ ایسا نہیں کرتے۔ اپنے درجے آخرت میں بلند کرنے ذیادہ
ضروری ہیں بجائے اس کے کہ ہم اپنے گھروں پر چراغا ں کرکے اپنے گھر کو روشن
کریں ۔
نبی کریم ﷺ کی تعلمیات پر عمل کرنا اور ان کی احادیث کو پھیلانا صدقہ جاریہ
ہے۔ اپنی زندگی ان کی بتائی ہوئی تعلیمات پر ڈھالنا ہی سب سے اہم ہے۔ پانچ
وقت نماز کا اہتمام کرنا۔ زکوۃ دینا۔ صدقہ کرنا۔ ہمسایوں کا خیال
رکھنا۔دوسروں پر صلہ رحمی کرنا۔ بڑوں کا احترام کرنا اور چھوٹوں سے پیار
کرنا تو جیسے ہمارے معاشرے سے مفقو دہی ہو کر رہ گیا ہے۔ ہم لوگ اپنی
زندگیوں کے اندر اس قدر کھو چکے ہیں کہ ہمیں یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ
ہمارے ہمسائے میں کون رہتا ہے۔ اس نے کچھ کھا یا پیا بھی ہے یا بھوکا سو
گیا ہے۔ اگر بازار میں چلنے والی عورتیں ہماری بہو بیٹیاں نہیں ہیں تو
ہماری اپنی بہو بیٹیاں اور مائیں بھی تو انہیں بازاروں میں جاتی ہے۔ جن
بھوکی نظروں سے آپ دوسروں کی عورتوں کو دیکھتے ہیں انہی بھوکی نظروں سے لوگ
بھی آپ کی ماؤں بہنوں اور بیٹیوں کو دیکھتے ہیں۔
جشن عید میلاد النبی کو مناتے ہوئے نبی کریمﷺ کی تعلیمات کو زندہ کرنا ہی
اصل کام ہے ۔ہم لوگ صرف ان باتوں کو مانتے ہیں اور عمل کرتے ہیں جن میں
ہمارا اپنا فائدہ ہوتا ہے۔ پہلے والی قومیں بھی تو یہی کرتی تھی ۔تو پھر ان
کے ساتھ اﷲ نے کیا حشر کیا۔ ان پر اس دنیا کے اندر ہی اندوہناک عذاب آئے۔
انسان کو ناشکرہ کہا گیا ہے۔ کہ جب انسان کو تما م آسائشات میسر ہوتی ہیں
تو اﷲ اس کے دماغ سے محو ہو جاتا ہے اور جیسے ہی کوئی ایک مصیبت آن پڑتی ہے
تو اﷲ کی یاد بھی آجاتی ہے۔انسان صرف مشکل میں اﷲ کو یادکرتا ہے اور پھر اس
کی زبان پر حرف شکایت بھی آجاتا ہے۔ لیکن جب اﷲ اس پر اپنی رحمتوں کی برسات
کرتا ہے تو اس ﷲ کا شکر ادا کرنا بھی یا د نہیں رہتا۔
ہمار ے نبی کریمﷺ سراپا رحمت ہیں اور ان کی آمد کی خوشی منا نی بھی چاہیے
لیکن اپنے آپ کا محاسبہ بھی ضروری ہے کہ کہیں ان سب چیزوں میں پڑھ کر آپ
ذکر بنی اور فکر نبی سے دور تو نہیں ہوگئے۔
|