جئے مہاراشٹر ٹیلیویژن چینل پر گزشتہ دو ہفتوں سے ’ففٹی
ففٹی: تیرکمان ، کمل نشان‘ نام کا سیریل روزآنہ زور و شور سے چل رہا ہے۔
اس کی کہانی کا خلاصہ یہ ہے کہ شیر سنگھ ببلو نے دولت اور شہرت کی خاطر
کملا تائی نامی بیوہ کو شادی کا پیغام بھیجا ۔ کملا تھوڑا بہت نخرے دکھا کر
راضی ہوگئی۔ شادی سے قبل کملا کےوالد( جو سیاسی گلیارے میں دبنگ تاؤ کے
نام سے جانے جاتے ہیں) نے دہلی سے آکر یہ شرط رکھی کہ میری ناز و اندام کی
پلی بیٹی تمہارے گھر میں نہیں جائے گی بلکہ تمہیں ہمارے گھر میں آنا پڑے
گا۔ ببلو نے پوچھا کیا مطلب؟ تاو ہنس کر بولے بڑے بھولے ہو ۔ اتنا بھی نہیں
جانتے تمہیں ہمارا گھر داماد بننا پڑے گا۔ ببلو پریشان ہوگیا ۔ اس نے سوال
کیا لیکن آپ کے گھر میں میری کیا عزت اور وقعت ہوگی ؟ تاو ٔ بولے ففٹی
ففٹی کا فارمولا چلے گا ۔ ببلو بولا ففٹی ففٹی میچ تو کھیل کے میدان میں
ہوتا ہے۔ میں تو گھر کی بات کررہا تھا ۔ تاؤ بولے ہمارا گھر بھی کسی میدانِ
جنگ سے کم نہیں کیونکہ ہم ہمیشہ حالت جنگ میں رہتے ہیں ۔ اس لیےانہیں
اصطلاحات میں گفتگو کرتے ہیں ۔
تاو ٔ نے بڑی شفقت کے ساتھ ببلو کو یقین دلایا کہ شادی کے بعد ممبئی کی
میری ساری جائیداد تم دونوں میں برابر برابر منقسم ہوجائے گی ۔ جو کملا کو
ملے گا وہی سب تمہارے حصے میں بھی آئے گا ۔ یہ سن کر ببلو پہلے تو خوش
ہوگیا لیکن پھر اس کے دل میں ایک اندیشے نے جنم لیا ۔ اس وضاحت کی خاطر
پوچھا تاؤ اس لحاظ سے میں ایک دن شوہر اور دوسرے دن بیوی تو نہیں بن جاوں
گا؟ تاؤ ہنس کر بولے بہت دور اندیش ہو اس لیے سوچتے زیادہ ہو ۔ خیر جب تم
نے پوچھ ہی لیا ہے تو سنو ففٹی ففٹی کا مطلب یہ بھی ہے کہ ایک بچہ کملا
پیدا کرے گی اور دوسرے کو تم جنم دوگے ۔ حقوق سے لے کر ذمہ داریوں تک کہیں
بھی کوئی تفریق و امتیاز نہیں ہوگا۔ مکمل مساوات کا دوسرا نام ہے ففٹی ففٹی
۔ اس آخری بات نے ببلو کو قدرے بے چین کردیا اور وہ ڈر کر اپنے دوستوں سے
صلاح و مشورہ کرنے لگا۔
سیلنڈر والے کاکا نے شیر سنگھ کو کٹنگ چائے پلانے کے بعد بتایا دیکھو
ببلویہ بہت خطرناک عورت ہے ۔ تم شاید اس کے بارے میں بہت کم جانتے ہو۔ اس
کاایک شوہر حادثے کا شکار ہوکر فوت ہوچکا ہے۔ دوسرے نے زندگی سے بیزار ہوکر
خودکشی کرلی اور تیسرا پاگل خانے میں کملا کملا کرتا ہے۔ ان تینوں کے انجام
بد میں کملا تائی کا ہاتھ بتایا جاتا ہے ۔ اس لیے تم نے بہت بڑا خطرہ مول
لے لیا ہے۔ یہ سن کر شیر سنگھ ڈر گیا اور بولا تو کیا میں انکار کردوں؟
کاکا بولے نہیں اس کی ضرورت نہیں بلکہ ذرا ہوشیار رہنا ۔ تم چاہو توکملا
تائی کے قدیم شناسا گھڑی والے بابا سے مل لو اور وہ جہاندیدہ انسان ہیں ۔
ان کی صلاح پر عمل کرنا سب ٹھیک ہوجائے گا ۔ انہیں توڑ جوڑ کا بڑاتجربہ اور
بڑی مہارت حاصل ہے۔
شیر سنگھ گھڑی والے بابا کی خدمت میں پہنچ گیا اور ان کے چرن چھوکر اپنی
بپتا سنا ئی ۔ بابا بولے سمسیا گمبھیر ہے لیکن چنتا کی کوئی بات نہیں ۔ وقت
کا مرہم سارے زخم بھر دیتا ہے۔ ببلو نے جھٹ کہا جی ہاں بابا سمجھ گیا ۔ اسی
لیے آپ نے اپنی پارٹی کا نشان گھڑی رکھا ہے۔ بابا ہنس کر بولے بہت تیز
ہوگئے ہو خیر لیکن یاد رکھو اس کمل کے پھول میں ترشول چھپا ہوا ہے۔ اس لیے
تمہارے تیر کمان سے اس کا کچھ بھی نہیں بگڑے گا ۔ ببلو بولا میں کملاسے
اپنا تعلق بگاڑنا نہیں سنوارنا چاہتا ہوں ۔ گھڑی والے بابا نے ہنس کر کہا
بیٹا یہ اہم نہیں ہے کہ تم کیا چاہتے ہو؟ ببلو نے چونک کر پوچھا تو پھر کیا
اہم ہے؟ بابا بولے بیٹا اہم یہ ہے کہ کملا کیا چاہتی ہے ۔ اس لیے کہ گھر
داماد کے ساتھ تو وہی ہوتا ہے جو زوجہ چاہتی ہے۔ ببلو نے گھبرا کر پوچھا
اسی لیے میں نےصلاح لینے کی خاطر حاضر ہوا ہوں ۔ بابا بولے بیٹا میرا مشورہ
تو یہ ہے شروع سے ہی کملاکو قابو میں رکھنا ورنہ وہ سر پر سوار ہوجائے گی
اور جیناحرام کردے گی ۔ ببلو نے یہ نصیحت گانٹھ سے باندھ لی۔
شب عروسی کے اگلے دن بابا کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے رعب جھاڑنے کے لیے
ببلو نے دھمکی آمیز انداز میں نہانے سے قبل مطالبہ کیا فوراً تولیہ لاؤ
ورنہ ! ۰۰۰۰ کملا یہ لہجہ سن کر چونکی مگر نظر انداز کر کے تولیہ پکڑا دیا۔
اس کے بعد اسی کڑک دار لہجے میں ببلو بولا صابن اور شمپو رکھ دو ورنہ!۰۰۰۰۰
کملا نے ناراضگی کے ساتھ کہا پہلے ہی سے رکھا ہے۔ ببلو پھر بولا گیزر چلا
دو ورنہ؟ ۰۰۰۰۰۰۰اب معاملہ کملا کی برداشت کے باہر ہوگیا اور اسے وہ پرانا
لطیفہ بھی یاد آگیا ۔ اس نے چڑ کر جواب دیا ورنہ کیا ؟ ( یعنی کیا کرلو
گے؟)۔ کملا کو توقع تھی کہ ببلو ڈر کر بولے گا ورنہ ۰۰۰۰۰ ورنہ میں ٹھنڈے
پانی سے نہا لوں گا۔ کیا کہا نہا لوں گا؟ کملا نے بھڑک کر پوچھا ۔ ببلو
سمجھ گیا آج دوسرا دن ہے ۔ اسے تاؤ کی ففٹی ففٹی والی تقسیم یاد آگئی ۔
اس سے پہلے کہ وہ جواب دیتا معاف کرنا ٹھنڈے پانی سے نہا لوں گی ۔ گھڑی کا
الارم بجا اور چانٹے کی آواز گونجی ۔ کملا نے مڑکر دیکھا تو وہ سونوساس کا
ہاتھ تھا ۔
اس کہانی کا مہاراشٹر میں جاری اقتدار کی رسہّ کشی سے کوئی تعلق نہیں ہے
لیکن اگر کسی کو لگتا ہے تو کوئی کیا کرسکتا ہے۔
|