بھارتی پنجاب کو بھارت کا اناج گھر اور روٹی کی ٹوکری کہا
جاتا ہے،اس کی سادہ سی ایک وجہ یہ ہے کہ پورے بھارت کو سب سے زیادہ اناج
پنجاب ہی مہیا کرتا ہے۔بھارت میں سب سے زیادہ زرخیزی بھی اسی پنجاب کے حصہ
میں آئی ہے،زمین کی زرخیزی اور کھیتی باڑی سے سکھ قوم کا مذہبی اور جذباتی
تعلق ہے،کیونکہ ان کے مہا گرو بابا جی نانک دیو نے عمر کے آخری اٹھارہ برس
جو کہ کرتار پور میں بسر کئے ان سالو ں میں انہوں نے صرف کھیتی باڑی ہی کی
اور اسی سے اپنا روزی روٹی کا سلسلہ چلایا اوران کے ہاں ٹھہرنے والے
مہمانوں کی مہمانداری بھی اسی کھیتی سے حاصل کردہ اناج اورپھلوں سے کی جاتی
تھی۔اسی نسبت سے آج بھی سکھ دھرم کے ماننے والے کھیتی باڑی کو بابا جی کی
تقلید اول خیال کرتے ہیں۔پنجاب بھارت کو گندم کا 20فی صد،کپاس کا 10.26فیصد
اور چاول کا 11فیصد پیدا کرتا ہے،جو کسی بھی ملک کی فلاح میں اہم کردار سے
کسی طور بھی کم نہیں ہے۔پنجاب میں سکھ مت سب سے بڑا مذہب ہے جو کہ پنجاب کی
کل آبادی کا 58فیصد لوگوں کا مذہب ہے۔دوسرے درجے پر ہندو مت ہے جس کے ماننے
والوں کی تعداد 38.5 فیصد ہے ان کے علاوہ مسلمان،مسیحیت،بدھ مت اور جین مت
اقلیتی برادری ہیں جن میں مسلمان تقریبا دو فیصد اور عیسائیت 1.3 فیصد
ہیں۔سکھوں کے مقدس مقامات سب سے زیادہ امرتسر میں ہیں اس کے بعد سکھوں کے
سب سے زیادمقدس اور معتبر مقامات پاکستان میں واقع ہیں۔
سکھ مذہب کے بانی بابا جی گرونانک کا جنم استھان اورآخری آرامگاہ پاکستان
میں ہونے کی مناسبت سے سکھوں کی سب سے زیادہ مذہبی عقیدت بھی پاکستان کے
گوردواروں سے ہی ہے۔ہر سکھ کی خواہش ہوتی ہے کہ زندگی میں جب کبھی بھی ان
کو موقع میسر ہو اوہ پہلی فرصت میں ہی پاکستان میں موجود تمام گورو گھروں
کی زیارت کریں۔حالیہ دنوں حکومت پاکستان کی جانب سے گورو دیو کی 550 ویں
برسی کے موقع پر کرتار پور راہداری کو سکھ یاتریوں کے لئے کھول دیا گیا جس
پر پوری دنیا کے سکھوں نے مسرت و انبساط کا اظہار فرمایا،جہاں سکھ حضرات
اپنے بابا جی کے اس گھرو گھر کی زیارت پر جوش و جذبہ کا اظہار فرما رہے ہیں
وہیں پر ہم اپنے روائتی مخالفت برائے مخالفت حسد کی آگ میں جلتے دکھائی دے
رہے ہیں۔چند روز سے جن خیالات اور خدشات کا اظہار مختلف طبقہ ہائے فکر کی
طرف سے خاص کر سوشل میڈیا کی مختلف ویب سائیڈز پہ کیا جارہا ہے ان میں
سرفہرست یہ بات شامل ہے کہ دراصل کرتار پور راہداری کی آڑ میں ،قادیانیوں
کو بڑے پیمانے میں پاکستان میں داخل ہونے کی اجازت دی جا رہی ہے،میرے ان سب
مسلمانوں سے ایک ہی سوال ہے کہ کیا کوئی بھی مسلمان آقائے نامدارﷺ کی خاک
پا کو بھی چھونے کی اجازت دے سکتا ہے،کیا ختم نبوت ﷺ پر ہمارا ایمان اتنا
ہی کمزور ہے کہ کوئی بھی ایرا غیرا ہمارے ایمان پر ڈاکہ ڈال کر چلا جائے گا
اور ہم خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہوں گے۔ارے مسلمان تو وہ ہے جو ختم نبوت
کے سلسلہ میں اپنے خواب میں بھی غلطی نہیں کرسکتا کیونکہ مکمل ایمان کے
بغیر ایمان کی تکمیل ہی ممکن ہی نہیں۔دوسری بات یہ کہ کیا ایسی سازشیں کھلے
عام کی جاتی ہے یا چوری چھپے،یقینا ایسے منصوبے رازداری سے طے کئے جاتے ہیں
نا کہ کھلے عام۔
لہذا ہمیں اپنے ہی مذہب یا حکومتی اداروں کے بارے میں منفی سوچ کو تبدیل کر
کے مثبت رویوں کو اپناتے ہوئے اس سوچ پر عمل پیرائی کو اپنے ایمان کا حصہ
بنا ناہوگا کہ بقول مولانا ظفر علی خان
نہ جب تک کٹ مروں میں خواجہ یثرب کی عزت پر
خدا شاہد ہے کامل میرا ایمان ہو نہیں سکتا
اگر سوچنا ہی ہے تو پھر یوں سوچو،کہ پنجاب کو بھارت سے کاٹ کر ہم انکی روٹی
کی ٹوکری کو خالی کرنے جارہے ہیں۔کشمیر کو جانے والا واحد زمینی راستہ
تحصیل پٹھان کوٹ کو بھارت سے جدا کر کے پاکستان کی شہ رگ کے حصول کو ممکن
بنانے جا رہے ہیں۔ہم چڑھتا پنجاب اور لہندا پنجاب کی سرحدوں کو ملا کر
تجارت،زراعت اور صنعتوں کے فروغ سے خوش حال پنجاب کی بنیاد رکھنے جا رہے
ہیں۔ہم تقسیم نہیں،تعظیم اور توڑنے نہیں بلکہ جوڑنے کے لئے کوشاں ہیں۔یہی
ہماری خارجہ پالیسی کے بنیادی اصول اور اساس اسلام ہے۔
|