وطن عزیزمیں پند ونصائح کی مجالس میں اگرموجودہ حالات کے
تناظرمیں آئینہ دکھانے کی جسارت محض اس خوش گمانی کی نیت سے بھی کی جائے کہ
چہرہ کے بگاڑکوذرابناسنوارلیں توہرطرف سے اس آئینے کے ساتھ ساتھ آپ پربھی
پتھروں کی بارش شروع ہوجاتی ہے۔بے شماربودے دلائل کاسہارالیکر نیچا دکھانے
کی کوشش کی جاتی ہے اوربالآخرتان اس پرٹوٹتی ہے کہ غیروں کے خورشید
کاسہارالیکرہماری ظلمتوں کامذاق مت اڑائیں۔لیکن جوبات صحیح ہے اس کوغلط
کیسے کہوں؟گمراہوں کیلئے راستے کی کیاقید!جب اپنی گمراہی کوہی سیدھارستہ
سمجھ لیاجائے توسمجھانابیکار۔مجھے اپنی تمام ترخامیوں کا اعتراف ہے اورمیں
اس کابرملااعتراف بھی کرتارہتاہوں لیکن کیاسچ اورحق بات کہنے اورلکھنے سے
بھی منہ موڑلوں؟مجھے اپنے بارے میں ایساکوئی عارضہ بھی لاحق نہیں کہ آپ
میری تحریروں کوپڑھ کرمیرے بارے میں یہ گمان کریں کہ مجھے کسی دادوتحسین کی
خواہش ہے لیکن دل میں یہ آرزوہروقت تڑپائے رکھتی ہے کہ وطن عزیزکی قسمت بدل
جائے۔
کل ہی توہم نے کرتارپورراہداری پراپنی آنکھیں تک بچھادیں جس کے فوری جواب
میں بابری مسجدکی شہادت کے بعداسے مکمل طورپرسفاک ہندوؤں کے حوالے
کردیاگیا۔کیا اس کانوحہ لکھوں یااسے بقول سدھو ”یارکی جپھی” سے تشبیہ دوں ؟مدینہ
ریاست کانعرہ بنانے والے اللہ کے اس حکم کوبھی غور سے پڑھ لیں :اور جولوگ
اللہ کے نازل کردہ احکام وقانون کے مطابق حکم نہ دیں ،وہی
کافرہیں(المائدہ۔44)
ان گنت تعدادمیں فون،ای میلزاورخطوط کاتانتااس بات کی ہمت دلاتارہتاہے کہ
یہ مشن جاری وساری رہنابہت ضروری ہے ۔میں یہ تمام خطوط اورای میلزپڑھنے کی
بھی پوری کوشش کرتاہوں اورکچھ کے جوابات بھی دیتاہوں لیکن کچھ مراسلے ایسے
ہوتے ہیں کہ ان کو باربارپڑھنے کے باوجودان کاجواب دینے سے قاصررہتاہوں۔وطن
عزیز کے نوجوان عالم دین اورمجاہدمفتی محمدزبیرصاحب کے پاس شاید اس کاکوئی
جواب ہو!دن اوررات عجیب وغریب واہموں میں کٹ رہے ہیں۔
“بہت سمجھایاآپ کو،بے شماردلائل بھی سامنے رکھے لیکن آپ کسی کی سنتے
اورمانتے کب ہیں!شایدہماری آوازمیں اتنازرو نہیں کہ جس میں آپ کی آوازدب
کررہ جائے کہ نہ چاہتے ہوئے بھی آپ کوہماری صداسننی پڑے،نہ ہمارے قلم کی وہ
رفتاراور برق بازی جوآپ کے ارادوں کامنہ موڑسکے اورآپ کے ضمیری طوفان کوروک
سکے۔
جانتے ہیں کیوں روکناچاہتاہوں آپ کو؟آپ کی آوازکو؟آپ کے الفاظ کی آتش سے
بچنے کیلئے۔بارہاچاہاکہ آپ کی چیخوں سے بے بہرہ رہوں مگرکیسے؟ کچھ دنوں
کیلئے آپ کے مضامین پڑھنے پرخودساختہ پابندی لگائی لیکن اس ارادہ پربھی
قابونہ رکھ سکا کہ بازگشت سے اب پیچھاچھڑانامشکل ہوگیاہے۔
خودتوآپ مضطرب بھی ہیں،طوفان بھی،کرب کامیدان بھی اورباضمیربھی،انہی امراض
کانتیجہ آپ کی تحریریں بھی ہیں مگر…….! آپ کیوں نہیں سمجھتے؟بھینسوں کے آگے
بین بجانے سے کیاحاصل؟برسوں سے لکھنے کامرض پال رکھاہے آپ نے،بے شمار
مضامین اورکتابیں بھی لکھ ڈالیں،لوگوں کوبے کل کیااورخودبھی ہوئے،قلم کودن
میں چین آیانہ رات کو……مگر اونٹ نہ اِس کروٹ بیٹھا نہ اس کروٹ۔
میرامشورہ اب تومان لیں!چھوڑیئے،اب الفاظ کے زہرنے اپناکام
کرناچھوڑدیاہے۔آپ کچھ بھی کہیں،بے ضمیروں پراثرنہیں ہوتا اور باضمیر وں پر
اثر کاکیافائدہ!میرایہ سچ آپ کوبھی کڑوالگے گاورنہ کوئی
توبدلاہوتا۔کیاکہا”بدلاہے”!دن یارات کاموسم یا نظام؟انسانوں کوبدلئے ناں……ہاں
یہ بھی سچ کہا!بھلاانسان ہیں کہاں؟ورنہ خالدبن ولیدسے لیکرمحمدبن قاسم تک
انسان ہی توتھے۔ہاں آدمیوں کی بھیڑضرورہے کہ دم لینایہاں محال ہورہاہے!
بھیڑ بھی ہے اورمرے ہوئے ضمیروں کی لاشوں کاتعفن بھی!اب اسی تعفن سے مزید
اموات کاسلسلہ چل نکلاہے۔
آدمیوں کی بھیڑسے انسانوں کی تلاش؟کیاخوب ہیں آپ!نمک کی کان سے مٹھاس کی
تلاش کررہے ہیں!ہاں آپ اوردوسرے اہل قلم جوبے چین روحوں کی مانندہیں وہ بھی
توپورے انسان نہیں آدھے ضرورہیں۔پوارانسان توعافیہ صدیقی کوکہتے ہیں جس نے
قلم کی بجائے تلوارکواپنے ہاتھوں کی زینت بنایا۔ہاں وہی عافیہ صدیقی جس
کیلئے آپ کے کئی مضامین نے ہم کوہلکان کر دیا،خودبھی بے چین رہے اورہم سب
کوبھی رلاتے رہے،جانتے ہیں ناں آپ اس پتلی دھان پان کی لڑکی کویہ پیغام
بھیجنامت بھولئے کہ اب محمدبن قاسم کاخواب دیکھناچھوڑدے۔عافیہ صدیقی کویہ
پیغام بھی ضروردیں کہ جب قصر سفید کے گھمنڈ ی فرعون کی جیل سے تمہاری روح
کواپنے جسم سے رہائی ملے تواس مْردوں کی زمین پرمت آنا،ہاں یہی پاکستان
جواب مْردوں کی زمین ہے۔
کیا کریں گی یہاں آکر؟وہ زندہ لاش ہی سہی،مگریہ توخودمْردوں کی بستی ہے ….ہم
انہیں وہ ماہ وسال،زندگی کی وہ بہاریں، جو انہوں نے سسکتے بلکتے ہوئے
تنہاگزاردیں،کہاں سے لاکردیں گے؟خدارا!آپ وہاں سے آزادہوتے ہی روح کوبھی
آزادکروا لیجئے گا!
مجھے رنگینی صحن چمن سے خوف آتاہے
یہی ایام تھے جب لٹ گئی تھی زندگی اپنی
تاہم اپنے قلم کے کرتب دکھائیں،شاید عوام اسی سے بہل جائیں اورچپ چاپ
مہنگائی،ناانصافی اورعریانی وفحاشی اور سدھو کی تعریف کے سیلاب میں ڈوب
جائیں…..بے فکررہیں بڑااجروثواب ملے گا اس کا….!!!
فقط آپ کا خوابیدہ ضمیر
آنکھ کھلی توپسینے سے شرابورکانپتاجسم دیکھ کربھی یقین نہیں آرہاکہ یہ خواب
تھا۔
گردش دہرہی کیاکم تھی جلانےکو
توبھی آپہنچاہے دہکتے ہوئے رخسارکے ساتھ
“بہت سادہ ہوتم!میں کہاں سے باضمیرہوگیاہوں،کہاں کی بے چینی اوربے کلی،کون
ساکرب!میں توایلیٹ کلاس سے ہوں، مزے اڑا رہاہوں،دنیاکی تمام آسائشوں سے لطف
اندوزہورہاہوں۔کبھی ایک لمحے کیلئے بھی ایسے کسی کرب سے نہیں گزرا جس سے تم
ہر روزوطن عزیزپاکستان میں گزرتے ہو۔ہاں!یہ تم نے صحیح کہا،الفاظ کی بازی
گری آتی ہے مجھے اورمیں مداری کی طرح قلم سے ہرروزکرتب دکھاتاہوں اور ہاں!
مجھ میں توخودآگ نہیں توپھرمیرے الفاظ میں کہاں سے آگئی یہ آگ!
بہرحال آئینہ دکھانے پرتم بڑ ے خوش نظرآرہے ہو،میں بھی تمہارابڑامشکورہوں
“بہادر ہمیشہ باوقارموت کاسامناکرتے ہیں “اورمیں کہاں سے باوقارہو گیا
۔ہاں!ہاں میں نے کہیں یہ ضرورپڑھاتھاکہ:جوگی کسی کواپنے ساتھ چلنے
پرمجبورنہیں کرتے،وہ صرف خواہشات دریافت کرتے ہیں،کسی کومحل بنانے کی خواہش
ہوتومنع نہیں کرتے ۔اپنے اگلے پھیرے میں بھی صرف خواہش جانناچاہتے ہیں،کسی
بھی خواہش کااظہارکیاجائے توکامیابی اورخوش رہنے کی دعائیں دیکراپناراستہ
لیتے ہیں ،لیکن اگرکوئی ان کادامن تھام کرخودہی چیخ چیخ کرکہے کہ میری ساری
خواہشیں توپوری ہوگئیں مگرمیں اب بھی بے چین ہوں ،پہلے سے کہیں زیادہ
مضطرب!……تواسے سکون کاراستہ دکھادیتے ہیں۔
میں کہا ں جاؤں؟میں کیاکروں؟کائنات لامحدودہے۔میں یہاں لمحے بھرکوچمکنے کے
بعدبجھنے والاہوں،اب میں کچھ کرنا چاہتا ہوں لیکن……..اس طرف سے زمین
کھودکرادھرنکل جاؤں،اس طرف سے کھودکرواپس اس طرف نکل آؤں……اپنی موجودہ حالت
سے نجات ممکن نہیں!اس لئے براہ کرم میرے سہانے خوابوں کو تو برباد مت کرو!
یہ آنکھ کابادل تو برستاہی نہیں ہے
اورعمرکے دریامیں روانی ہے بہت کم
وہ دن جوگزرنے تھے،گزرہی گئے آخر
اب مہلت گریہ ہے نہ ہے فرصت ِماتم
|