اسلام کا تصور خلافت اور خلیفہ کے اوصاف وفرائض

لغوی معنی :
خلافت ،خَلَفَ یَخلُفُ بروز ن کَتَبَ یَکتُبُ سے مصدر کا صیغہ ہے جیسے کتابت ،حفاظت ،وقایت وغیرہ ۔اس کا مادہ خلف ہے جس کے معنی پچھلی جانب یابعد میں آنے والی نسل ۔ابن منظورافریقی اور امام راغب دونوں نے اسی طرح لکھا ہے "اَلخَلفُ ضِدُ قُدَام "خلف آگے اور سامنے کی ضد ہے (اسلامی سیاست ،گوہر رحمان )
قرآن کریم میں لفظ "خلف "اسی مفہوم میں ۲۲ مقامات پر آیا ہے ۔
ارشاد باری ہے "يَعْلَمُ مَا بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَمَا خَلْفَھُمْ ۚ " 22 (بقرہ )
وہ (پوری طرح) جانتا ہے وہ سب کچھ جو ان (لوگوں) کے سامنے ہے، اور وہ سب کچھ بھی جو کہ ان کے پیچھے ہے۔
اسی طرح دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا "فَالْيَوْمَ نُنَجِّيْكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُوْنَ لِمَنْ خَلْفَكَ اٰيَةً" 92۝ۧ(یونس)
ہم تیری لاش ہی کو بچائیں گے، تاکہ تو نشان عبرت بن جائے اپنے پیچھے آنے والوں کے لئے۔

خلافت کے معنی نیابت کے ہیں ،نائب منوب عنہ کی موت کی وجہ سے بھی بنا یا جاتا ہے اور اس کی زندگی میں بھی بنا یا جا سکتا ہے خلافت اور خلیفہ کے لیے منوب عنہ کی موت شرط نہیں ہے ۔

امام راغب لکھتے ہیں :۔"فلاں شخص فلاں کا خلیفہ بن گیا ہے یعنی اس کی طرف سے کام کرنے کا ذمہ دار ہوگیا ،خواہ اس کے ساتھ ،یا اس کے بعد ،اور خلافت کسی دوسرے کی نیابت کرنا ہے منوب عنہ کے غائب ہونے کی وجہ سے ،یا اس کی موت کی وجہ سے یا اس کے کمزور اور عاجز ہونے کی وجہ سے یا اس شخص کو بزرگی اور شرافت عطا کرنے کے لیے جسے خلیفہ اور نائب بنایا گیا ،اسی آخری وجہ یعنی خلیفہ کو شرافت عطا کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اپنے دوستوں کو زمین میں اپنا خلیفہ بنایا ہے ۔"(مفردات القرآٓن صفحہ ۱۵۵،اسلامی سیاست ،صفحہ ۱۰۹)

اصطلاحی تعریف
امام ابوالحسن ماوردی ؒ متوفی ۴۵۰ھ :
الامامۃ مو ضوعۃ لخلافۃ ِالنبوۃِفی حراسۃ ِالدین ِوسیاسۃِالدنیا
"امامت (اسلامی حکومت )بنائی جاتی ہے نبی کی نیابت کے لیے دین اسلام کی حفاظت کرنے اور دنیا کا نظم ونسق چلانے اور اس کی اصلاح کرنے میں "(الاحکام السلطانیہ صفحہ ۵،اسلامی سیاست صفحہ ۱۱۰)
ابن عابدین شامی ؒحنفی :
"وہ عمومی ریاست جودینی اور دنیوی امور میں نبی کی نیابت میں کام کرتی ہو"
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ :
خلافت وہ عمومی ریاست ہے جو اقامت دین کی جانب عملا متوجہ رہتی ہو "
خلاصہ یہ کہ "خلافت وہ عمومی ریاست ہے جو رسول اللہ ﷺ کی نیابت میں اقامت دین کا کام کرتی ہو "

خلافت کا ثبوت ازروئے قرآن
۱)وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِم" 55 (نور)
اﷲ نے وعدہ فرمایا ہے تم میں سے ان لوگوں کے ساتھ جو صدق دل سے ایمان لائے اور انہوں نے کام بھی نیک کیے کہ وہ ان کو ضرور بالضرور نوازے گا اس زمین میں خلافت و حکمرانی کے شرف سے جیسا کہ وہ نواز چکا ہے خلافت و حکمرانی کے اس شرف سے ان لوگوں کو جو گزر چکے ہیں ان سے پہلے۔
۲)" اَلَّذِيْنَ اِنْ مَّكَّنّٰهُمْ فِي الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ ۭ وَلِلّٰهِ عَاقِبَةُ الْاُمُوْرِ " 41(حج )
یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم ان کو زمین میں اقتدار بخشیں تو یہ قائم کریں گے نماز کو اور ادا کریں گے زکوۃ کو اور حکم دیں گے نیکی کا اور روکیں گے برائی سے اور اللہ ہی کے اختیار میں ہے سب کاموں کا انجام ۔

ان دونوں آیات سے خلافت کا ثبوت ہو رہا ہے ۔

خلافت کا ثبوت ازروئے حدیث
1۔حضرت معاذ بن جبل ؓ اور ابو عبیدہ بن جراح ؒ کی ایک روایت میں آیاہے کہ نبوۃ او ر خلافت کا دور اللہ کی رحمت کا ہوگا اور بادشاہت کا دور شراب نوشی اور فساد کا زمانہ ہوگا (مجمع الزوائدجلد ۵صفحہ ۱۸۹،اسلامی سیاست صفحہ ۱۲۹)
2۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ سات قسم کے لوگوں کو اللہ تعالی ٰ اپنے سائے میں جگہ دے گا اس روز جب اللہ کے سائے کے علاوہ کو ئی سایہ نہ ہوگا ان میں سے ایک عادل حکمران ہے (صحیح بخاری شریف کتاب الصلوۃ جلد ۱،صفحہ ۹۱،اسلامی سیاست صفحہ ۱۳۰)
3۔رسول اللہ ﷺنے فرمایا "انصاف کرنے والے اللہ کے پاس نور کے منبروں پر بیٹھے ہونگے "(مسلم شریف ،کتا ب الامارۃ ،اسلامی سیاست صفحہ ۱۳۱)

یہ روایات بھی خلافت کے ثبوت پر دال ہیں ۔

خلیفہ کی صفات اور شرائط
امام قرطبی ؒ متوفی ۶۷۱ھ تفصیل کے ساتھ خلیفہ کی شرائط کو بیان کیا ہے جو تلخیص کے ساتھ درج ہیں ۔
۱)مسلمان ہو:
قران کریم میں "اولو الامر "کا مسلمان ہونا شرط قرار دیا گیا ہے ۔(نساء ۵۹)
غیر مسلموں کو راز دینے سے منع کیاگیاہے "يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا بِطَانَةً مِّنْ دُوْنِكُمْ لَا يَاْلُوْنَكُمْ خَبَالًا ١١٨ (آل عمران)
اے وہ لوگوں، جو ایمان لائے ہو، تم اپنوں کو چھوڑ کر دوسروں کو اپنا رازدار نہ بناؤ، وہ تمہاری خرابی (اور بربادی) میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھیں گے۔
جب غیر مسلموں کوشریک راز بنا نا جا ئز نہیں تو قائد کیسے بنا نا جائز ہوسکتا ہے ۔
۲)مرد ہو:
اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَي النِّسَاۗءِ 34؀(بقرہ)
مرد حاکم (وسرپرست) ہیں عورتوں پر۔
حضوراکرم ﷺ نے فرمایا وہ قوم کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی جس نے عورت کو حاکم بنا لیا ہو(بخاری ومسلم )
۳)عادل اور صالح ہو:
ارشاد ربانی ہے " وَاِذِ ابْتَلٰٓى اِبْرٰهٖمَ رَبُّهٗ بِكَلِمٰتٍ فَاَتَـمَّهُنَّ ۭ قَالَ اِنِّىْ جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِمَامًا ۭ قَالَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِىْ ۭ قَالَ لَا يَنَالُ عَهْدِي الظّٰلِمِيْنَ ١٢٤؀ ( بقرہ )
اور (وہ بھی یاد کرنے کے لائق ہے کہ) جب آزمایا ابراہیم کو ان کے رب نے چند باتوں کے ذریعے، تو ابراہیم ان کو بتمام (وکمال) بجا لائے، تب اللہ (تعالیٰ) نے فرمایا کہ میں تمہیں سب لوگوں کا پیشوا بناتا ہوں، ابراہیم نے عرض کیا، اور (کیا) میری اولاد سے بھی (یہی وعدہ ہے؟) فرمایا میرا عہد (و پیمان) نہیں پہنچتا ظالموں کو،یعنی ظالم لوگ مسلمانوں کی قیادت اور امامت کے مستحق نہیں ہیں ۔
۴)عالم دین ہو :
قرآن کریم میں اولو الامر کے لیے استنباط اور اجتہادی بصیرت کاحامل ہونا ضروری قرار دیا گیا ۔
ارشاد ربانی ہے :۔"وَاِذَا جَاۗءَھُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ اَذَاعُوْا بِهٖ ۭوَلَوْ رَدُّوْهُ اِلَى الرَّسُوْلِ وَاِلٰٓى اُولِي الْاَمْرِ مِنْھُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِيْنَ يَسْتَنْۢبِطُوْنَهٗ مِنْھُمْ ۭ وَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهٗ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّيْطٰنَ اِلَّا قَلِيْلًا " 83؀(نساء )
، اور جب پہنچتی ہے ان کے پاس کوئی خبر، امن کی یا خوف کی، تو یہ اسے فوراً پھیلا دیتے ہیں، حالانکہ اگر یہ لوگ اسے لوٹا دیتے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف، اور اپنے میں سے با اختیار لوگوں کی طرف، تو ضرور اس کی حقیقت کو پالیتے ان میں سے وہ لوگ جو بات کی تہہ تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اور اگر نہ ہوتی اللہ کی مہربانی تم پر، اور اس کی رحمت (وعنایت) تو تم لوگ ضرور پیچھے لگ جاتے شیطان کے، بجز تھوڑے سے لوگوں کے اور دوسرے مقام پر فرمایا عالم اور غیر عالم برابر نہیں ہیں ۔
ارشاد باری ہے " قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِيْنَ يَعْلَمُوْنَ وَالَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ ۭ اِنَّمَا يَتَذَكَّرُ اُولُوا الْاَلْبَابِ" Ḍ۝ۧ(الزمر)
۵)آزاد ہو :
یعنی کسی کا غلام ہمہ وقتی ملازم اور قیدی نہ ہو اور فرائض کی ادائیگی کے لیے فارغ ہو ۔
۶)بالغ ہو:
نابالغ اس بوجھ کو اپنی جسمانی کمزوری اور ذھنی کمزوری کی وجہ سے نہیں اٹھاسکتا۔
۷)عاقل ہو:
ظاہر ہے کہ دماغی طور پر مریض شخص کسی قوم کی سربراہی نہیں کرسکتا ۔
۸)سلیم الاعضا ء ہو :
جسمانی طور پر ناکارہ شخص یہ عظیم خدمت انجام نہیں دے سکتا۔
۹)دلیر اور شجاع ہو :
کمزور دل والا بزدل شخص نہ تو ملک کادفاع کرسکتاہے اور نہ امن قائم کرسکتاہے ۔
۱۰)معاملہ فہم اور ذی راے ہو:
حالات سے بے خبر شخص جو معاملہ فہم نہ ہو نظم ونسق قا ئم نہیں رکھ سکتا ۔(اسلامی سیاست صفحہ ۳۶۶،۳۶۵)

خلافت کے لیے قریشی ہونے کی شرط
جمہور اہل سنت نے خلافت کے لیے قریشی ہونا شرط قرار دیاہے اور اس کی دلیل وہ احادیث جن میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا "ائمہ اور خلفاء قریش میں سے ہونگے "(بخاری مناقب قریش ،مسلم کتاب الامارۃ ،)
نیز ابن حجر عسقلانی ؒ نے ائمہ اربعہ کا اجماع نقل کیا ہے کہ خلیفہ قریشی ہونا چاہیے (فتح الباری ،اسلام کا سیاسی نظام مولانا محمد اسحاق سندیلوی صفحہ ۷۸،نیشنل بک فا ؤنڈیشن اسلام آباد)
ابوبکر باقلانی ؒ وغیر ہ اور بعض حضرات نے اس شرط کا انکار کیا ہے کہ آپ ﷺ کا یہ ارشاد فرمانا ،خبر ہے ،انشاء نہیں ہے ،یعنی آپ نے خبر دی ہے کہ خلیفہ (اکثر )قریش سے ہونگے ،اور دوسرا یہ اس ماحول کے ساتھ خاص ہے اس وقت قریش کا غلبہ تھا تو سیاسی لحاظ سے یہ بہتر تھا کہ ان کی امامت ہوتی اور اس صورت میں تمام قبائل ان کی ماتحتی کو خندہ پیشانی سے قبول کر لیتے ،لیکن آج اسلام دنیا کے کناروں تک اور مختلف قوموں کے درمیان پھیل چکاہے اب ہرقوم میں قریشی کا پایا جانا ضرور ی نہیں ہے لہٰذا ان کے نزدیک یہ شرط نہیں ہے ۔

بہرکیف اگر قریشی اقامت دین اور عدل وانصاف سے رو گردانی کرلے تو پھر غیر قریشی کو خلیفہ بنانا جائز ہے تمام فقہا ء کا اس پر اجماع ہے کہ خلافت کے لیے محض قریشی ہونا کافی نہیں ہے بلکہ دوسری شرائظ کی رعایت بھی ضروری ہے ۔تاہم اگر دو شخص ان مطلوبہ شرائط کو پورا کرتے ہو ں ان میں اسے ایک قریشی ہو اور دوسرا غیر قریشی تو قریشی کو ترجیح حاصل ہوگی ۔
(مزید تفصیل دیکھیے ،اسلام کا سیاسی نظام صفحہ۷۹،محمد اسحاق سندیلوی،اسلامی سیاست صفحہ ۳۶۶،گوہر رحمان ،تقریر ترمذی،مفتی محمدتقی عثمانی مدظلہ جلد دوم صفحہ ۳۱۶)

خلیفہ کے فرائض منصبی
خلیفہ کا اصل فرض منصبی اقامت دین اور نفاذ شریعت ہے اورعوام کے حقوق کا تحفظ کرنا اور ان کی بہبود کی تدابیر کرنا بھی اس کی ذمہ داری ہے ۔
ماوردی ؒ نے (الاحکام للماوردی صفحہ ۱۷) اور ابو یعلی ٰ نے (الاحکام لابی یعلی صفحہ ۲۸،۲۷) ) میں ان فرائض کا بہترین خلاصہ بیان کیا ہے ۔

1۔حفاظت دین ،دفاع دین اور تعلیم دین
2۔شرعی قوانین کا نفاذ اور عدل وانصاف کا قیام
3۔مال ،جان ،اور آبرو کی حفاظت اور امن وامان کا قیام
4۔شرعی سزاؤں کا نفاذ اور مجرمون کی سرکوبی
5۔فوج اور اسلحہ کاانتظام کرنا اور دارالاسلام کادفاع کرنا
6۔کفار محاربین کے خلاف قتال وجہاد کا انتظام
7۔سرکاری خزانے کی حفاظت اور اسلام کے مالیاتی نظام کا قیام
8۔قومی خزانے پر امانت دار ما ہرین کا تقرر کرنا
9۔تنخواہوں کا منصفانہ نظام قائم کرنا اور بروقت ادائیگی کرنا
10۔عوام کی حالت سے براہ راست با خبر رکھنا (اسلامی سیاست صفحہ ۳۷۰،۳۶۹)

خلیفہ کے حقو ق
امام ماوردی او رابو یعلی ؒ نے لکھا ہے کہ "جو حکمران رعایا کے ان حقوق کا خیال رکھتا ہو ،جن کا ذکر ابھی گزرا تو عوام پر اس کے دو حق واجب ہوجاتے ہیں ایک یہ کہ اس کی اطاعت کی جائے اور دوسرا یہ کہ اس کی مدد کی جا ئے جب تک کہ اس کی حالت میں تبدیلی نہ آئی ہو (احکام ماوردی صفحہ ۱۷،احکام لابی یعلی صفحہ ۲۸)
بدرالدین ابن جماعہ ؒ متوفی ۷۳۳ھ انے اپنی کتاب "تحریر الاحکام فی تدبیر الاسلام "میں لکھا ہے کہ خلیفہ کے امت پر دس حقوق ہیں جن کا ادا کرنا واجب ہے ۔
1۔خلیفہ کی ظاہر اور پوشیدہ دونوں حالتوں میں خیرخواہی کرنا ۔
2۔اس کی مدد کرنا۔
3۔دل وجان سے اس کی تابعداری کرنا ۔
4۔اس کا احترام کرنا ۔
5۔سچی بات سمجھانا اور غلطیوں پر متنبہ کرنا ۔
6۔اس کو سازشیوں سے باخبر رکھنا
7۔اس کو حکام اور عما ل کے طرز عمل سے با خبر رکھنا ۔
8۔عوامی بہبود کے کاموں میں اس کی مدد کرنا ۔
9۔لولوں کی اس کی امداد اور اس سے محبت کرنے پرآمادہ کرنا ۔
10۔زبان،مال اورعمل سے اس کا دفاع کرنا ۔ (اسلامی سیاست صفحہ ۳۷۱)

خلیفہ کے اختیارات
خلیفہ کے اختیارات تین قسم کے ہوتے ہیں ۔
۱)انتظامی اختیارات :
امیرالمومنین کے انتظامی اختیارات کا دائرہ بہت وسیع ہے وہ ہر محکمہ کا افسر اعلیٰ ہے ،وہ پوری فوج کو برخاست کرسکتا ہے ،بڑے سے بڑے حاکم کو معزول کرسکتا ہے ،اس کی نافرمانی ،سیاسی جرم ہونے کے علاوہ دینی وروحانی جرم بھی ہے ،جس کی سزا آخرت میں بھگتنی پڑے گی لیکن خلیفہ کے ان وسیع اختیارات کے باوجود اس کے لیے ضروری ہے کہ اس کا کوئی حکم یا فیصلہ شریعت اسلامیہ کے خلاف نہ ہو۔
چنانچہ خلیفہ کو جو انتظامی اختیارات حاصل ہیں وہ درج ذیل ہیں ۔
1۔ضوابط بنانے کا اختیار
2۔ماتحتوں کی کاروائی کی منظوری ونامنظوری اور انہیں حکم دینے کا اختیار
3۔نصب وعز ل کا اختیار
4۔احتساب ومواخذہ کا اختیار
5۔جنگ اور صلح کا اختیار
6۔مشورہ لینے اور اسے رد کرنے کا اختیار
7۔استصواب اور تفتیش کا اختیار
۲)قانونی اختیارات :
1۔خلیفہ کو مجلس تشریعی میں اپنی جانب سے کوئی بھی مسودہ پیش کرنے کا اختیار ہے کہ جس پر ایوان غور کر کے اس کے متعلق اپنی رائے دے ۔
2۔ہنگامی قانون سازی کا اختیار ۔
3۔عمومی اورخصوصی نگرانی ۔
4۔بین الاقوامی مسائل میں حکمت عملی وضع کرنا ۔
۳)عدالتی اختیارات :
1۔اعلی عدالتوں میں قاضی القضاۃ کاتقرر ۔
2۔خلیفہ کی عدالت سب سے بڑی عدالت ہے اسے ہرمقدمہ کی اپیل اور سماعت دونو ں کا اختیار ہے ۔
3۔عدالتی ضوابط کااختیار ۔
4۔فوری انصاف کی فراہمی ۔ (تٖفصیلی مطالعہ کے لیے دیکھیے ،اسلام کاسیاسی نظام ،صفحہ ۱۷۴تا۱۹۴مولانا محمد اسحاق سندیلوی)
ghazi abdul rehman qasmi
About the Author: ghazi abdul rehman qasmi Read More Articles by ghazi abdul rehman qasmi: 31 Articles with 284400 views نام:غازی عبدالرحمن قاسمی
تعلیمی قابلیت:فاضل درس نظامی ،الشہادۃ العالمیہ،ایم اے اسلامیات گومل یونیورسٹی ڈیرہ اسماعیل خان،
ایم فل اسلامیات بہاء الدی
.. View More