احتجاج ہی ہمارا مقدر ہے؟

خدارا اپنے اوپر رحم کھائیں،اس امت بے چاری کے حال پر کچھ رحم کریں۔ نئی پود کی نئی امنگوں کا واسطہ ، انہی کی صلاحیتوں اور جوانیوں پر ہی کچھ ترس کھا لیں۔ ہم کب تک یوں ہی بے سمت اور بے مقصد چکراتے اور بھٹکتے رہیں گے ؟ہمیں کب یقین آئے گا کہ جلسوں اور جلوسوں سے ،نعرے لگا نے اور پتلے جلانے سے کچھ ہونے والا نہیں؟ان سے جذبات کی صرف وقتی تسکین اور تشفی ہی ہوسکتی ہے اور بس! قرآنِ کریم جلانے کی حرکت کوئی نئی بات نہیں ۔ اسلامی شعائر کی توہین اور تضحیک اب مغرب میں معمول کا حصہ ہے ۔ اب ہمیں اپنے طرزِ عمل پر نظرِ ثانی کر ہی لینی چاہئے ۔ مغرب اور دشمنان ِ اسلام کی خلاف نکالے گئے جلسے جلوسوں سے کیا پہلے کبھی ان کو کوئی نقصان پہنچا ہے یا کسی کو کوئی نکیل پڑی ہے ؟ایک ہزار ایک طریقے ایسے ہیں جن کے ساتھ واقعہ میں ملوث ممالک کو ٹف ٹائم دیا جاسکتا تھا مگر ان طریقوں سے استفادہ کے لیے قبلہ کے تعین اور ڈائریکشن کی درستگی درکار ہے جو بدقسمتی سے ہمارے ہاں دستیاب نہیں۔ دنیا کے کسی گم نام گوشہ میں بیٹھا دو ٹکے کا انسان ایک ذراسی تیلی لگا کر ڈیڑھ سو کروڑ انسانوں کے جذبات کو بھڑکاتا ہے اور دنیا کا ٹاپ پاپولر انسان بن جاتا ہے۔ خلوص سے کئے گئے ہمارے شور شرابے سے ہمیں تو کوئی فائدہ پہنچتا نہیں ، البتہ واقعہ میں ملوث بدبخت شہرت کے بلند ترین افق پر پہنچ جاتا ہے ۔ شہرت اور نام بنانے کا سب سے آسان اور سستا ترین طریقہ اِس وقت دنیا میں یہی ہے کہ کسی نئے اور منفرد انداز میں اسلام کے خلاف زبان درازی کی جائے اور اسلامی مقدسات کی توہین کردی جائے ۔ سلمان رشدی سے لے کر ٹیری جونز تک سبھی بدنصیبوں کا منتہائے نظر وہی کچھ تھا جو ہماری ہی نادانستہ محنت کے ثمر کے طور پر ان کو حاصل ہو چکا ہے ۔نیز دشمنانِ اسلام ایسی حرکتوں کے ساتھ ہماری بے بسی کا جو تماشہ دیکھنا چاہتے ہیں ، بے سلیقہ اشتعال اور اچھل کود کے ساتھ ہم ان کی تفریح ِ خاطر کا یہ سامان بھی انتہائی جوش وجذبہ اور صدقِ دل سے انہیں مہیا کردیتے ہیں۔

ایک بات تو طے ہے کہ قرآن کا بال بھی بیکا نہیں کیا جاسکتا ۔ سرورِ دوجہاں نے جس کتاب کی حفاظت اور اشاعت کے لیے پتھر کھائے اور اپنا تن من دھن سب کچھ اس کی اشاعت کے لیے وار دیا ، دنیا بھر کا کفر مل کر بھی چودہ صدیوں میں جس کتاب کا ایک حرف نہ بدل سکا ، جس کتاب کی حفاظت کا ذمہ زمین وآسمان کے مقتدرِ اعلیٰ نے اپنے ذمہ لے رکھا ہے ، کیا ناپاک پانی سے پیدا ہونے والے ٹیری جونز اور اس کے ہم نوا اپنی احمقانہ اور مجنونانہ حرکتوں کے ساتھ اس کتاب ِ پاک کے تقدس ، حرمت اور آفاق گیری میں کوئی کمی لاسکیں گے ؟”ایں خیال است ومحال است وجنوں“

ایک سیدھے سادے مسلمان کو اپنے ان انقلابی واعظوں کے بھول پن پر حیرت کیوں نہ ہو جو یہ چاہتے ہیں کہ غیر مسلم آج کے بعد اسلامی شعائر کا احترام کرنا شروع کردیں ۔ اپنے دل پہ ذرا ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ ایک ایسا آدمی جس کے نزدیک قرآن (نعوذباللہ )سیاہ اور آڑھی ترچھی لکیروں پر مشتمل کاغذات کا ایک پلندہ ہے ، بلکہ اس سے بھی دو قدم آگے ”دہشت گردی“ اور” انتہاپسندی“ سکھانے والی ایک طلسماتی کتاب ہے ، وہ اگر قرآن کو قرآن سمجھے یا اس کے ساتھ ادب واحترام والا رویہ اختیار کرے تو آخر کیوں؟؟؟ہمارا المیہ یہ نہیں کہ ہمارے دور میں ٹیری جونز جیسے شیطان سانس لے رہے ہیں۔ ہمارا المیہ صرف اور صرف یہ ہے کہ ہمارے منتخب حکمران جنہوں نے اس طرح کے افسوس ناک واقعات پر سنجیدگی کے ساتھ اسٹینڈ لینا تھا ، امہ کے جذبات کی نمائندگی کرنی تھی اور اسلام کے علانیہ دشمنوں کو پناہ دینے والے ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات اور سفارتی آداب وشرائط پر نظرِ ثانی کرنا تھی، وہی بدل گئے ، انہوں نے منافقت کا لبادہ اوڑھ لیا، امہ سے زیادہ کفر کے مفادات کے نگہبان بن گئے اور چند ٹھیکریوں کے عوض اپنا سب کچھ فروخت کر ڈالا۔ ہر ایسے واقعہ کے بعد ہم اپنی جو قوت مغرب کے خلاف احتجاج کے لیے صرف کرتے ہیں ، اگر دنیا کے ڈیڑھ ارب مسلمان مل کر اپنا یہی زور او آئی سی کے خلاف اور اپنے ہی حکمرانوں کے خلاف لگا لیتے تو تھوڑے ہی سہی ، لیکن بہرحال بہتر نتائج ظاہر ہوتے ۔ ہمارے تمام مسائل کی جڑ یں ہمارے اپنے اندر پھیلی ہوئی ہیں۔ اس لیے دائیں بائیں ٹامک ٹوئیاں مارنے کی بجائے پوری یک سوئی کے ساتھ ہمیں اپنی داخلی خرابیوں اور کمزوریوں کے خلاف ہی احتجاج کے لیے کمر بستہ ہونا چاہئے ۔ ان داخلی اسباب و وجوہات کے علاج اور حل کے لیے مستعد ہونا چاہئے جن کی وجہ سے ہم مسلسل انحطاط اور تنزلی کی کھائی میں نیچے سے نیچے گرتے چلے جارہے ہیں، اپنی خودی اور عزت کی بحالی کے لیے وہ کر گزرنے میں دیر نہیں کرنی چاہئے جو سو فی ص ہمارے بس میں ہے ۔ یقین کیجئے کہ یہ جہان چیز ہے کیا، لوح وقلم تیرے ہیں۔ اندرونی رکاوٹوں کا ادراک کیے بغیر خارجی حملہ آوروں کی گردن زنی صرف اور صرف خواب ہے ۔ اس خواب سے جتنا عرصہ جی چاہے لطف اندوز ہولیجئے ،مگر اس بات کو نوشتہ دیوار سمجھئے کہ کامیابی کا راستہ اً دھر سے ہی ہوکر گزرتا ہے ۔

ہمارے ملک کے سینیٹرز نے بھی ٹیری جونز کے اقدام کی سخت مذمت کرتے ہوئے امریکا سے اس کی پھانسی کا مطالبہ کیا ہے ۔ کاش کہ یہ مہربان امریکا سے اس کی پھانسی کا مطالبہ کرنے کی بجائے اپنے ہی حکمرانوں پر امریکی مفادات کی جنگ سے کنارہ کش ہونے کے لیے دباؤ ڈالتے اور سخت تنقید کا نشانہ امریکا کو بنانے کی بجائے او آئی سی کو یا مسلم حکمرانوں کو بناتے جن کا سارا زور مسلمانوں میں نام نہاد اعتدال اور برداشت کے کلچر کو فروغ دینے کے لیے صرف ہورہا ہے مگر ہماری فہم وفراست کو داد دیجئے کہ ہم کمند ہی اس دیوار پر ڈالتے ہیں جو ہماری اپروچ سے باہر ہوتی ہے تاکہ دیوار کی بنیر تک رسائی نہ پاسکنے کا قصور وار اس کی اونچائی کو قرار دے کر اپنا بھرم قائم رکھا جاسکے ۔ٹیری جونز کی پھانسی کا مطالبہ اور وہ بھی امریکا سے ! کیا ہم احمقو ں کی جنت میں رہتے ہیں؟مغرب کے نزدیک اسلام کا تصور ”ِ جہاد و قتال“ اپنے کسی بھی شرعی معنی کی رو سے دہشت گردی کے ہم معنی اور قطعاً ناقابلِ برداشت ہے جبکہ قرآن اسی جہاد کو مسلمانوں کے اجتماعی فرائض میں شامل کرتا ہے اور انہیں غیرمسلم جارح افواج کے خلاف جم کر لڑنے اور ان کے مقابلہ میں سد سکندری بن جانے کی تعلیم وترغیب دیتا ہے ۔”دہشت گردی“ کے مغربی تصور پر ایمان رکھنے والے مغربیت زدہ روشن خیال ایک طالبِ علم کو سمجھائیں کہ جس دہشت گردی کی بناء پرافغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجانا جائز ہے ، اسی ”دہشت گردی “ کا بنیادی فیکٹر اور سبب سمجھ کر مغربی جنونیوں کا قرآن کو جلانا کیوںجائز نہیں؟ہمارے خیال میں وار آن ٹیرر کے شراکت داروں کا اس معاملہ پر احتجاج کرنا بالکل ہی بے معنی ہے ۔
Muhammad Abdullah Shariq
About the Author: Muhammad Abdullah Shariq Read More Articles by Muhammad Abdullah Shariq: 42 Articles with 43055 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.