مقبوضہ کشمیر میں بھارتی کریک ڈاؤن، کشمیریوں کی قید،
مواصلاتی پابندیوں کے 100دن مکمل ہو چکے ہیں۔ اس موقع پر سید علی گیلانی نے
ایک اہم خط ارسال کیا ہے۔ یہ خط حریت کانفرنس (گ)کے سربراہ کا وزیراعظم
پاکستان عمران خان کے نام ہے۔ اس مفصل مکتوب میں کشمیریوں کے بزرگ قائد نے
حکومت پاکستان سے متعلق اہم گفتگو کی ہے۔ جس میں آل پارٹیز پارلیمانی اجلاس
طلب کر کے حکومتی سطح پر بعض اقدامات کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ سید گیلانی
مقبوضہ کشمیر کے ایسے لیڈر ہیں جو پانے موقف پر چٹان کے طرح ڈٹے ہوئے ہیں۔
بھارت کا ظلم و جبر، قید و بند پابندیاں ان کا کچھ نہ بگاڑ سکیں۔ انھوں نے
اپنی آواز کبھی بھی دبنے نہ دی۔ بھارت کے ہاں میں کبھی ہاں نہ ملائی۔ جب
جنرل پرویز مشرف نے ان پر اپنا چار نکاتی فارمولہ قبول کرنے کے لئے دباؤ
ڈالا تو انھوں نے بڑھ چڑھ کر اسے مسترد کر دیا۔ کیوں کہ یہ فارمولہ اقوام
متحدہ کی قراردادوں کی نفی کر رہا تھا۔ کشمیریوں کی جدوجہد کا سارا
دارومدار ان ہی قراردادوں پر ہے۔ یہی کشمیریوں کی جدوجہد کی بنیاد ہیں۔
محترم گیلانی کے خط میں پاکستان کو تجویز دی گئی ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر کے
حوالے سے بھارت کے 5اگست2019کے اقدامات کا ردعمل دیا جائے۔ متنازعہ کشمیر
کو جبری طور پر اپنا حصہ بنانے کے بعد پاکستان تاشقند، شملہ، لاہور معاہدوں
سے دست بردار ہوجائے۔ آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کے درمیان قائم خونی
لکیر کو لائن آف کنٹرول کے بجائے سیز فائر لائن کے طور پر تسلیم کیا جائے۔
کیوں کہ بھارت ایک بار پھر 1947کی پوزیشن میں آگیا ہے ۔ انڈیانے پاکستان کے
ساتھ ہونے والے تمام دو طرفہ اور عالمی معاہدے ختم کر دیئے ہیں۔ یہ بھارت
کے یک طرفہ اقدامات ہیں۔ اس نے یک طرفہ طور پر پاکستان کے ساتھ معاہدے ختم
کئے ہیں۔ اس لئے پاکستان بھی یک طرفہ طور پر بھارت کے ساتھ معاہدوں کو قائم
نہ رکھے۔ بھارت نے 5اگست کو جبری طور پر مقبوضہ ریاست کت ٹکڑے کئے۔ لداخ کو
مقبوضہ ریاست سے الگ کر دیا۔ دونوں خطوں کو دہلی کے براہ راست کنٹرول میں
دے دیا۔ مقبوضہ ریاست کا پرچم ہی مٹا دیا۔ جہاں کشمیر کا پرچم لہرا رہا تھا،
وہاں بھارت کا ترنگا لہرا دیا۔ ریاست کا درجہ مٹا دیا۔ تمام ریاستی ادارے
ختم کر دیئے۔
مکمل آزادی کی جدوجہد کرنے والی ریاست کی نیم خود مختاری تک بھی ملیا میٹ
کر دی۔ کشمیر سے فوج نکالنے کے بجائے مزید فوج داخل کر دی۔ جو فوج بارکوں
میں تھی، اسے بھی کشمیریوں کی ناکہ بندی اور محاصرے پر لگا دیا۔ انڈین فوج
نے پہلے سے بھی زیادہ کشمیریوں کا قتل عام تیز کر دیا۔ کشمیریوں پر مظالم
کی انتہا کر دی۔ بھارت کے سپریم کورٹ اور میڈیا نے بھارتی مظالم کو جاری کی
اجازت دے دی۔ مظلوم کشمیریوں کے تمام حقوق پامال کرنے پر اپنے حکومت کے
سیاہ اقدامات کو جائز قرار دے دیا۔ ریاست کو توڑنا بھارت کا یک طرفہ قدم ہے۔
جو کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ کشمیر کی متنازعہ
حیثیت کو بھی نئی دہلی نے کسی خاطر میں نہیں لایا ہے۔ ریاست کی آئینی حیثیت
ختم کرنے پر دنیا نے کچھ نہ کیا۔ بھارت نے جبری ھکم کے اطلاق کے لئے ہی
کشمیریوں کو قید کر لیا۔ ان سے اپنی آواز بلند کرنے کا ھق بھی چھین لیا۔
ہزاروں کشمیریوں کو انٹروگیشن سنٹرز میں ڈال دیا۔ کشمیریوں کا دنیا سے تمام
رابطہ کاٹ ڈالا۔ ان پابندیوں کے ایک سو دن مکمل ہو چکے ہیں۔ اب بھارت نے
عارضہ طور پر پابندیوں میں نرمی لانے کا اعلان کیا۔ مگر یہ سب فراڈ ثابت ہو
اہے۔ کشمیری جانتے ہیں کہ بھارت کے مکر اور فریب روایتی ہیں۔ بھارتی حکومت
پہلے کی طرح دنیا اور اپنے عوام کو بھی دھوکہ دے رہی ہے۔ بھارت کہتا ہے کہ
اس کے اقدامات کشمیریوں کی ترقی کے لئے ہیں مگر یہ سب کشمیریوں کا تشخص اور
پہچان پامال کرنے کے لئے ہے۔ بھارت جغرافیائی تبدیلیاں لا رہا ہے۔ کشمیریوں
کی مسلمان اکثریت کو اقلیت میں بدلا جا رہا ہے۔ بھارت سے ہندو ؤں کو لا کر
کشمیر میں بسانے کے لئے ڈرامے رچائے جا رہے ہیں۔ کشمیریوں کو پہلے ہی نام
نہاد اور محدود خود مختاری حاصل تھی۔ اب سب ختم ہے۔ کشمیر میں پنڈت آبادی
کی بستیاں قائم کرنے کی آر میں ہندو انتہا پسندوں کی بستیاں قائم کرنا
چاہتا ہے۔ اس کے منصوبے سب پر عیاں ہیں۔
پاکستان نے بھارتی اقدامات کو غیر قانونی قرار دیا ہے۔ بھارت کے ساتھ تجارت
محدود کی ہے۔ بھارتی سفیر کو اسلام آباد سے نکال دیا ہے۔ دنیا کو بھی حقائق
بتائے جا رہے ہیں۔ سید گیلانی کا پاکستان سے مطالبہ ہے کہ سیز فائر لائن کا
سٹیٹس درست کرنے کے لئے تمام اقدامات کئے جائیں۔ یہ اقدامات حکومت پاکستان
کی طرف سے یو این اور عالمی برادری کے ساتھ تمام معاملات اٹھاناہے تا کہ
کشمیریوں کے ساتھ حق خود ارادیت کے وعدے کو پورا کیا جا سکے۔ اگر بھارت اس
مطالبہ کو ماننے سے مسلسل انکار کرتا ہے تو بھارت کے خلاف پاکستان اپنے
مناسب اقدامات اور پابندیوں کا دباؤ بڑھائے۔
سید علی گیلانی اس وقت علیل ہیں۔ وہ برسوں سے گھر میں نظر بند ہیں۔ ان کے
گھر کا بھارتی فوج نے محاصرہ کر رکھا ہے۔ ان کا عمران خان کو مخاطب کر کے
کہنا ہے کہ’’ ہو سکتا ہے کہ یہ آپ کے نام آخری رابطہ ہو، بزرگوار ہونے اور
علالت کی وجہ سے میں آپ سے دوبارہ مخاطب نہ وہ سکوں گا‘‘۔ ’’قوموں کی
زندگانی میں ایسے بھی لمحات آتے ہیں کہ جہاں دلیرانہ اور بڑے اقدامات کرنا
ناگزیر بن جاتے ہیں، ایسے میں زرا سی بھی تاخیر قوموں کو پستی اور ناکامی
کیطرف دھکیل سکتی ہے۔‘‘
’’بھارت کشمیر کا سیاسی کردار مکمل طور پر تبدیل کرنا چاہتا ہے اور وہ ہم
سے ہماری سرزمین بھی چھین لینا چاہتا ہے۔‘‘ ’’یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ جیسے
اسرائیل فلسطین کی زمین چھین رہا ہے اور سیٹل منٹس قایم کر رہا ہے جن کے
مکین فلسطینی عوام کو مزید دہشتزدہ کریں گے جب وہ علاقے پر قبضے کر رہے ہوں
گے‘‘۔ ’’پاکستان آل پارلیمانی اجلاس بلائے اور حکومتی سطح پر بعض ایکشنز
لے، یہ صاف ہے کہ متازعہ خطے کا سٹیٹس تبدیل کرنے کے بھارتی اقدامات اور اس
کے بعد کے حالات ، کشمیریوں کا قتل عام ، یہ سب اعلان جنگ کے مترداف ہیں،
کشمیری کسی بھی صورت میں بھارت کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہیں ‘‘۔ سید علی
شاہ گیلانی کا یہ مکتوب وزیراعظم عمران خان اور ان کی حکومت کو دعوت دیتا
ہے کہ وہ موثر جوابی اقدامات اٹھائے۔
|