ان دنوں ایک مرتبہ پھرٹڈی دل وباء کی طرح نازل ہورہے ہیں
اوردیکھتے ہی دیکھتے میلوں تک فصلوں کوچٹ کرجاتے ہیں۔ بالکل اسی طرح وطن
عزیز میں مایوسی کے ٹڈی دل ہماری امیدوں کی فصلیں بربادکرکے رخصت ہوجاتے
ہیں۔نتیجہ یہ ہے کہ گندم کی فصل کے بحران سے بڑابحران امیدکی فصل کاہے۔اس
بحران کاسب سے افسوسناک پہلویہ ہے کہ معاشرے کے کسی طبقے کوامید کی فصل
کاشت کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں لیکن جوکچھ سامنے ہے استثنائی مثالوں کے
ساتھ افسوسناک ہے
دنیامیں کتنے معاشرے ہیں جہاں قیادت کے شعبہ پرفائزلوگوں نے مادی خوابوں کی
سوداگری کی ہے۔مادہ پرست بدترین شے سہی لیکن آنے والوں نے اس کی
بنیادپرامیدکی فصلیں کاشت کی ہیں۔چین میں تین دہائی پہلےغربت کے
اعدادوشمارڈرا دینے والے تھے، معیشت کاحال بھی خراب تھالیکن ڈینگ ژیاؤپنگ
نے کیمونسٹ انقلاب میں سرمایہ دارانہ انقلاب کاقلم لگایااور ایک ارب
انسانوں کی آنکھوں کوخوابوں سے بھردیا۔چینی قیادت نے اقتصادی اور معاشی
امیدوں کی فصلیں کاشت کی اور جس کے نتیجے میں اب وہاں گلی گلی اقتصادی
امیدوں کی فصلیں لہلہارہی ہیں۔مادے کواصل ماننے والوں کی جنت ارضی یہی
ہے۔ان کی امیدیں بھی اسی طرح کی ہوسکتی ہیں۔
یادش بخیربھٹوصاحب نے روٹی کپڑااورمکان کانعرہ لگایا۔یہ ایک اسلامی معاشرے
کواقتصادی جبلت کی سطح پراتارکراسے مسخ کرنے کی ایک صورت تھی لیکن اس نعرے
میں بھی ایک خواب تھا۔اقتصادی اورمعاشی امیدوں کی ایک کہکشاں تھی ۔اس
کہکشاں نے غلط یاصحیح معاشرے میں حرکت بھی پیداکی لیکن اب توہما رے پاس یہ
خواب بھی نہیں۔
5/اگست کی صبح مقبوضہ کشمیرمیں72سال سے غاصب بھارت کاجبرسہتے کشمیری
سوکراٹھے تودنیابدل چکی تھی۔ موبائل فون دم توڑچکے تھے۔فون کی زمینی لائنیں
کاٹ دی گئی تھیں۔انٹرنیٹ کے رابطے منقطع ہوچکے تھے۔اچانک اسپتال پہنچنے
والے نہ اپنی علالت کی اطلاع دے سکتے تھے نہ کسی نومولود کی آمدکی خوشی
میں کسی کوشریک کرسکتے تھے۔ سڑکوں پربھارتی فوج کے بوٹوں کی دھمک فضامیں
مزیدخوف وہراس پھیلارہی تھی۔جنوبی ایشیامیں ایک اورسیاہ دن اندھیرے اْگل
رہاتھا۔
1947ء میں بھی15/اگست ایسی ہی ظلمتیں لے کرواردہواتھا۔72سال سے مظلوم
اورمجبورکشمیری مسلسل جدوجہد میں محو اورجانوں کے نذرانے پیش کررہے
ہیں۔26/اکتوبر1947ءکوہری سنگھ نے تقسیم ہندکے تمام اصولوں اورقواعد کی
مخالفت کرتے ہوئے بھارت سے الحاق کااعلان کر دیاجسے کشمیرکی مسلمان اکثریت
نے کبھی بھی قبول نہیں کیا۔1953ءمیں بھی اگست کی ایک رات اس طرح سب کچھ بدل
گیاتھاجب شیخ عبداللہ اوران کے بہت سے ساتھی نظربندکردیئے گئے تھے جبکہ شیخ
عبداللہ نے توہری سنگھ کی طرف سے الحاق کی حمایت اوردوقومی نظریے کی بھی
مخالفت کی تھی اورآج مودی کے ان اقدامات پرشیخ عبداللہ کی اولادکے ساتھ بھی
وہی سلوک ہواجس پرانہوں نے اپنے اکابرین کی دوقومی نظریے کی مخالفت پر
اظہار ندامت کااظہاربھی کیاہے۔
تاریخ عالم کے اوراق گواہ ہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی جدوجہد آزادی
اس وقت تک سب سے طویل جنگ حریت ہے۔نسل درنسل یہ تگ ودو جاری ہے،سرکٹ رہے
ہیں،جانیں نثارہورہی ہیں۔ بھارت کے تسلط کوان سات دہائیوں میں کسی نسل نے
بھی قبول نہیں کیا ۔1989ءسے کشمیرمیں آزادی کی جدوجہدنے دوبارہ شدت
اختیارکی۔1990ءکی دہائی سے بھارت نے7لاکھ فوج کشمیریوں کی آواز دبانے
کیلئے کشمیرکی وادی میں متعین کی، جس میں اضافہ
ہوتارہا۔باربارکرفیونافذہوتارہا، کبھی گورنرراج،کبھی صدر راج لیکن یہ شعلہ
بجھنے نہیں پایا،یہ جذبہ سرد نہیں ہوا،اوراب دنیاکاطویل ترین کرفیوکی
پابندیوں کے باوجودسفاک ہندوآج بھی ان سے خوفزدہ ہے۔
دیکھاجائے توہمارے پاس خوابوں کی کیاکمی ہے۔ہمارامذہب،ہماری تہذیب اورہما
ری تاریخ ایسی ہے کہ صحرامیں بھی امیدیں بودیں توچندمہینوں میں لہلہاتی
فصلیں ہمارے سامنے ہوں گی۔آخرتحریک پاکستان کابیج ہم نے تاریخ کے صحرا میں
ہی توبویاتھا۔جہاد افغانستان کی ابتدأبھی بے سروسامانی کی حالت میں ہوئی
تھی۔فلسطینیوں کاجہادبھی توغلیلوں سے شروع ہواتھالیکن ان آمریت کی پشت
پرامید یں بڑی تھیں۔تاریخ کایہ دباؤتھاکہ غلیل میزائل بن گئی اورڈنڈوں کے
مماثل بندوقوں نے بالآخرایک دنیاوی سپرطاقت کا شیرازہ بکھیرکررکھ
دیا۔بلاشبہ کامل حقیقی توخداہی کی ذات ہے لیکن انسان نے قرآن کاپیغام جب
کانوں کے راستے دل میں اتاراتو فتح ونصرت نے ہمیشہ بڑھ کران کے قدم چومے۔
پاکستان کاقیام خودایک بہت بڑی امیدکے برؤے کارآنے کاعمل تھااوراس میں
امیدوں کااتنابڑاخزانہ تھاکہ جس کااندازہ بھی دشوار ہے۔لیکن آج امید کے
خزانے میں امید کاکال پڑگیاہے۔یہ بالکل ایسی بات ہے جیسے تاریخ کی کتاب میں
کوئی تاریخ نہ ہواورشعری مجموعے میں شاعری نہ ہو۔امیدایک لفظ نہیں ہے یہ
ایک تصورحیات ہے۔ایساتصورحیات جوانسان کے پورے وجودمیں یقین کے لہوکی طرح
دوڑرہاہو،یہ منزل بھی ہے،سفربھی ہے،زادہ سفر بھی اورمسافرکاحوصلہ اورقوت
محرکہ بھی۔
توآئیے!مایوسیوں کے ٹڈی دل کوپھلانگ کراخلاص کے ساتھ وطن عزیزمیں امیدکاشت
کریں اوراپنے کشمیریوں بھائیوں کو اپنے عمل سے ایساپیغام دیں کہ اس نازک
اورآزمائش کے وقت میں ایک ایسامثبت پیغام ملے جس سے ان کے جذبہ حریت کو وہ
حوصلہ ملے جس سے وہ غلامی کی تمام زنجیروں کوتوڑ کر آزادی کی نعمت سے فیض
یاب ہوسکیں اوریہ اسی صورت میں ہوسکتاہے جب ہم اللہ اوراس کے نبی کی
تعلیمات کا صحیح ادراک کرکے اپنی روزمرہ کے اشغال کونیک امیدوں کے تابع کر
دیں تاکہ دنیااورآخرت کی سرخروئی اورکامیابی کی فصل کے حقدارہوسکیں۔
|