سموگ،خطرناک آلودگی

 سیاست آلودہ،انصاف آلودہ،حکمرانی آلودہ،الیکشن آلودہ،پانی آلودہ،ہواآلودہ ،فضاآلودہ،شہرآلودہ اورنجانے کیاکیا آلودہ ہوچکاہے،فضائی آلودگی کاذکرتوسنتے تھے یہ سموگ جانے کیابلاہے جس کے آتے ہی بچوں کواسکولوں سے چھٹیاں ہونے لگی ہیں،گزشتہ چندبرس سے لاہورسموگ نامی بلا کی زدمیں ہے،خبرہے کہ زندہ دلوں کے شہرلاہور کی فضامیں آلودگی کی شرح 202ہو گئی ہے جس کے باعث لاہور دنیا کے آلودہ ترین شہروں کی لسٹ میں دوسرے نمبر پر آ گیاہے جبکہ کراچی بھی قریب قریب موجودہے،ایئر کوالٹی انڈیکس کے مطابق بھارتی دارالحکومت نئی دہلی آلودگی کی شرح 578فیصدکے ساتھ آلودہ ترین شہروں میں پہلے نمبر پرجبکہ بھارت ہی کاشہر بھٹینڈاآلودگی کی شرح 201فیصد کے ساتھ تیسرے نمبرپرہے،میڈیارپورٹس کے مطابق سموگ کا لفظ 50 کی دہائی میں اس وقت سننے میں آیا جب امریکہ اور یورپ کو صنعتی انقلاب کے باعث فضائی آلودگی کا سامنا کرنا پڑا،دھوئیں (سموگ) اور سلفر ڈائی آکسائیڈ کے ملاپ سے فضا خطرناک حد تک آلودہ ہو گئی تو آلودگی کی اس شکل کو سموگ کا نام دیاگیا،ماہرین کے مطابق گاڑیوں کے دھویں،صنعتی مائع اخراج،ایندھن کے جلنے،جوہری اخراج،زرعی ادویات کے غیر مناسب استعمال،فصلوں کی باقیات کوجلانے،تمباکو نوشی اور گردو غبار سے فضائی آلودگی پیدا ہوتی ہے،اس آلودگی میں زمینی اوزون،سلفر ڈائی آکسائیڈ،نائٹروجن آکسائیڈ،کاربن مونو آکسائیڈ جیسے خطرناک اجزء شامل ہوتے ہیں،اس بات کوسمجھنازیادہ مشکل نہیں کہ آلودگی پیداکرنے والے عوامل ساراسال جاری رہتے ہیں،موسم سردہوتے ہی ٹھہری ہواؤں میں دھندکے ساتھ مل کرشہرکی فضاکودھندلاکردینے والی بلاکوسموگ کہتے ہیں،سموگ آنکھوں میں شدیدجلن،شدیدسردرد،زکام،کھانسی،ناک اورگلے کے دیگرامرائض کے ساتھ جلدی پیچیدگیاں پیداکرتی ہے جبکہ سانس اوردل کے امراض میں مبتلاء افراد کو خطرناک حدتک متاثرکرتی ہے،ماہرین ماحولیات اورماہرین صحت سموگ سے بچاؤکیلئے جواحتیاطی تدابیراپنانے کی ہدایات کرتے ہیں اُن میں سرجیکل ماسک کااستعمال،نظر کی عینک کو ترجیح دینا، تمباکو نوشی کو ترک کرنا،زیادہ پانی اور گرم چائے کا استعمال کرنا،سفرکے بعد گھر پہنچ کر اپنے ہاتھ ،چہرے اور جسم کے کھلے حصوں کو صابن سے دھونا،غیر ضروری سفر سے پرہیز کرنا، کھڑکیوں اور دروازوں کے کھلے حصوں پر گیلا کپڑا یا تولیہ لگاناشامل ہے،سموگ یافضائی آلودگی کی تاریخ دیکھیں تومعلوم ہوتاہے کہ سموگ ترقی یافتہ مصروف ترین شہروں کی ایجادہے اوراس سے متاثربھی انہیں شہروں کے باشندے ہوتے ہیں،دنیاکے آلودہ ترین تین شہروں میں سے دوبھارت اورایک پاکستان میں ہے یعنی ہمسایہ ممالک پاکستان اوربھارت فضائی آلودگی سے شدیدمتاثرہوچکے ہیں اورموثراقدامات نہ اٹھانے کی صورت میں مستقبل قریب میں شدیدترین متاثرہوسکتے ہیں،پنجاب حکومت نے ابھی تک جواقدامات اٹھائے ہیں اُن میں سرفہرست اینٹوں کے بھٹوں کی بندش، فصلوں کی باقیات کو جلانے پرپابندی ،زیادہ دھواں چھوڑنے والی فیکٹریوں کی مانیٹرنگ اورجرمانے شامل ہیں،ابھی تک ان اقدامات سے خاطرخواہ نتائج برآمدنہیں ہوپائے،ماضی قریب میں جھانکیں توصاف پتاچلتاہے کہ شہرلاہورکے اردگردبیشماراینٹیں بنانے والے بھٹے آپریشنل ہواکرتے تھے جن کاوجوداب ختم ہوچکاہے،اسی طرح لاہورکے اردگردنہری زرعی زمینوں کوتیزی سے بڑھتی آبادی کی رہائشی ضروریات کوپوراکرتی رہائشی سکیمیں کھاچکی ہیں یعنی فصلوں کی باقیات کوجلانے کے واقعات میں بھی کم ہوتی زراعت کے ساتھ ختم ہونے کی حدتک کمی واقع ہوچکی ہے دوسری طرف بڑھتی آبادی کی ضروریات کوپوراکرتی دھواں چھوڑتی گاڑیوں میں بے پناہ اضافہ ہوچکاہے،چھوٹے گھروں کے پکے صحن اوراُونچی دیواریں کچے صحنوں اورچھوٹی دیواروں کے ساتھ آکسیجن مہیاکرنے والے درختوں کوبھی کھاگئیں ہیں،آج سے بیس سال قبل زیادہ ترگھروں میں کھانے پکانے کیلئے لکڑی بطورایندھن جلائی جاتی تھی جس کے باعث ہرگھرسے دھواں اٹھتانظرآیاکرتاتھاجواب سوئی گیس کی سہولت میسرآنے کے بعد ختم ہوچکاہے،جدیدماہرین کی رائے کااحترام پرسموگ ترقی کی ایجادہے لہٰذااس کاعلاج مستقبل نہیں بلکہ ماضی میں تلاش کرنے کی ضرورت ہے،سموگ ماحولیاتی مسئلہ ہے جس سے نجات حاصل کرنے کیلئے بڑے پیمانے پر شجر کاری اور دیگر ماحول دوست اقدامات جن میں گاڑیوں کی تعداد کم کرنا اور عوامی حلقوں میں ماحول سے متعلق شعوروآگاہی اُجاگرکرنا بہت ضروری ہے،فضائی آلودگی یعنی سموگ کے خاتمے کیلئے فصلوں کی باقیات جلانے پرپابندی یااینٹوں کے بھٹوں کوبندکرناکافی نہیں،سب سے پہلے توشہروں کی آبادی کوحدسے زیادہ بڑھنے سے روکنے کیلئے نئے شہرآبادکئے جائیں،زرعی زمینوں پررہائشی سکیمیں بنانے پرمکمل پابندی لگائی جائے،ہرشہری کم ازکم ایک درخت ضرورلگائے،حکومت ہرشہری کودرخت لگانے کاپابندبنانے کیلئے قانون سازی کرے،حکومت بتائے کہ کون سے علاقے میں کون سے درخت لگائیں جائیں،ہرشہری کے نادرہ ریکارڈمیں اس کے درخت کانام اورعمردرج کی جائے یاکوئی اورطریقہ اختیارکیاجائے پرہرشہری کوکم ازکم نہ صرف ایک درخت لگانے بلکہ اس کی مکمل دیکھ بھال کی ذمہ داری لینے کابھی پابندبنایاجائے،گاڑیوں کی تیزی سے بڑھتی تعدادکوکنٹرول کیاجائے،دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کے مالکان کیخلاف سخت کارروائی کاقانون بنایاجائے،دھوئیں یاکیمیکل کااخراج چھوڑنے والی فیکٹریوں کواحتیاطی تدابیراپنانے کاپابندبنایاجائے،پاکستان اوربھارت ہمسایہ ملک ہونے کے ناطے فضائی آلودگی کے مسئلے کی سنگینی کوسمجھتے ہوئے مشترکہ لائحہ عمل بنائیں تواس مسئلے کوکنٹرول کرنے میں آسانی ہوسکتی ہے،ماضی میں جن شہروں یاملکوں نے سموگ کامقابلہ کرکے اسے ختم کیااُن کے تجربات سے فائدہ اُٹھایاجائے،یادرکھیں یہ کام صرف حکومت پرچھوڑنے کی صورت میں لاہوراورکراچی جیسے عظیم شہروں کے مکینوں کوشہرچھوڑناپڑیں گے یاپھراپنی آئندہ نسلوں کواس قاتل آلودگی کے رحم وکرم پرچھوڑناپڑے گا، سموگ صرف لاہورنہیں بلکہ گوجرانوالہ،فیصل آباد،کراچی،سیالکوٹ،اسلام آبادسمیت پاکستان کے دیگرشہروں میں بھی موجودہے لہٰذایہ صرف حکومتی یااہل لاہورکانہیں بلکہ پاکستان بھرکے حکمرانوں اورشہریوں کامشترکہ مسئلہ ہے،ویسے تودورحاضرمیں نہ صرف فضابلکہ پورے نظام کے ساتھ ساتھ انسانی لہجے تک شدیدآلودہ ہوچکے ہیں پرسموگ سے نجات کیلئے ہمیں تمام اختلافات سے بالاترہوتے ہوئے مل کرکوشش کرنی چاہیے
 

Imtiaz Ali Shakir
About the Author: Imtiaz Ali Shakir Read More Articles by Imtiaz Ali Shakir: 630 Articles with 564413 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.