ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی سے ہماری ملاقات ہماری ویب کے تحت
بننے والے ’’ہماری ویب رائٹر کلب‘‘ کی وجہ سے ہوئی۔ہماری ویب کے سربراہ ،ابراراحمد
اُردو زبان کے قدر دان ہیں۔ہماری ویب کی کمر شل مصروفیا ت کے ساتھ ساتھ
اُردو کی خدمت کا بیڑا بھی اُٹھایا ہوا ہے۔ہماری ویب میں راقم سمیت دیگر
کالم نگاروں کے کالم شائع ہوتے ہیں۔ کراچی کے کالم نگاروں کے ساتھ متعدد
میٹنگوں کے بعد مشاورت سے طے ہوا تھا کہ ’’ہماری ویب رائٹر کلب ‘‘کے نام سے
کالم نگاروں کی تنظیم بنائی جائے۔ اس کی ممبر شپ پورے پاکستان میں بڑھائی
جائے گی۔ اس کام میں ہماری ویب کے خواجہ مصدق رفیق نے محنت کر کے پورے
پاکستان میں ہماری رائٹر کلب کی تنظیم سازی کی۔ہماری ویب کے دفتر شاہ فیصل
روڈ کراچی میں طے ہوا کہ اس تنظیم کے سرپرست اعلیٰ کے لیے اُردو ادب کے
اُستاد سحر انصاری سے درخواست کی جائے، جسے انہوں نے بخوشی قبول کیااور
گائے بگائے ہماری ویب رائٹر کلب کے پروگراموں میں شرکت کر کے اسے رونق
بخشتے ہیں۔ یہ تنظیم ہماری ویب کے سربراہ ابرار احمد کی نگرانی میں کام
کررہی ہے۔اس کے صدر ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی ہیں۔نائب صدر میر افسر امان
سیکر ٹیری عطا محمد تبسم ،دیگر حضرات مختلف عہدیدارہیں۔یہ ہے ڈاکٹر صمدانی
سے ہمارے تعارف کا ذریعہ۔
ڈاکٹر صمدانی کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔اُردو انگریزی میں ان کی پینتیس(۳۵)
سے زاہد کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔یہ ہمارے عہدکے معروف شخصیت ہیں۔علم و ادب
کے حوالے سے پاکستان اور بیرونی دنیا میں جانے جاتے ہیں۔بنیادی طور پر شعبہ
تعلیم سے وابستہ ہیں۔سرگودھا یونیورسٹی، منہاج یونیورسٹی اور آ ج کل علامہ
اقبال اوپن یونیورسٹی سے وابستہ ہیں۔ڈاکٹر صمدانی کی نثر نگاری کو جامعات
کی سطح پر تحقیق کا موضوع بھی بنایا گیا ہے۔جامعہ لاہور یونیورسٹی کے سرگود
ھا کیمپس کے شعبہ اُردو میں ڈاکٹر صمدانی کی نثری نگاری کو تحقیق کا موضوع
بناتے ہوئے تحقیقی و تنقیدی حوالہ برائے ایم فل(اُردو) کے مقالہ کا عنوان’’
رئیس احمد صمدانی تحریر کی تحقیقی نثر‘‘،محمد عدنان نے یہ مقالہ جناب محمد
تنویر مظہر کی نگرانی میں تحریر کیا اور ایم فل کی سندھ حاصل کی
ڈاکٹر صمدانی نے اپنی تازہ کتاب’’ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی کے نثری مضامین‘‘
مجھے بھیجی۔اس کتاب کے مولف جناب مرتضی شریف صاحب ہیں۔یہ کتاب میں اُردو
ادب کے بہت ایم موضوعات پرتحریر کی گئی ہے۔ڈاکٹر صمدانی کے مضامین، ہماری
ویب اور پاکستان کے مختلف اخبارات میں شائع ہوتے ہیں۔ تبصرہ نگاری، کالم
نگاری،خلاصہ نگاری،سوانح نگاری،افسانہ نگاری،خاکہ نگاری اور اُردو زبان کی
کئی صنفوں پر لگے گئے مضامین کو اس کتاب میں جمع کر کے مولف نے اُردو ادب
کے طالب علموں کے لیے سہولت فراہم کر دی ہے۔ اس کتاب میں ڈاکٹر صمدانی ایک
جگہ لکھتے ہیں کہ لکھنے کا عمل تخلیق کے زمرے میں آتا ہے۔گویا لکھنے والا
اپنے خیالات، نظریات اور فکر کو جب قلم کی زبان عطا کرتا ہے تو اس کی سوچ
تحریر کا روپ دھارتی ہے تو تحقیق عمل میں آتی ہے ۔گویا لکھاری دیگر فن
کاروں اور ہنر مندوں کی طرح ایک تخلیق کار، فن کار یاہنر مندہی ہوتا ہے۔
اُردو کی مختلف اصناف پر بات کرتے ہوئے ایک جگہ لکھتے ہیں کہ دیباچہ نگاری
کی صنف اُردو ادب میں ایک قدیم روایت ہے۔لکھنے والا اپنے سے زیادہ مستند
لکھاری،معروف کلم کار،شاعر وادیب سے مختصر رائے لکھوایاکرتے ہیں۔اس میں
مصنف اور کتاب کے بارے میں مختصر معلومات مہیا کی جاتیں ہیں جو پڑھنے والے
کے لیے مفید ہوتیں ہیں۔خلاصہ نگاری کے بارے میں لکھتے ہیں کہ خلاصہ یا
تلخیص ادب کی ایک صنف ہے اورتحقیقی مقالے یامضمون کی بنیاد ہوتا ہے۔تحقیقی
مضمون یا مکالے کے شروع میں اگر خلاصہ نہ ہوتو وہ مضمون تحقیقی مضمون کے
زمرے میں نہیں آتا۔خلاصہ تبصرے سے مختلف ہوتا ہے۔مکتوب نگاری اور مکتوبات
کے مجموعے کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ادبیوں، شاعروں، دانشورں، تخلیق کاروں
کے خطوط ادبی تاریخ میں بلند مقام رکھتے ہیں۔مکاتیب میں علم وادب اور مکتوب
الیہ کے کے بارے میں اساسی معلومات ملتی ہیں۔ادب میں بڑے مشاہیر کے مکتوب
کتابوں میں جمع کیے گئے ہیں ۔ جو معلومات کاخزانہ ہیں۔ جیسے اقبالؒ کے
خطوط، غالب کے خطوط، مودددیؒ اورچوہدری نیاز علی خان کے خطوط وغیرہ۔ڈاکٹر
صمدانی اُردو ادب میں نعتِ رسولؐکے بارے لکھتے ہیں کہ ڈاکٹر سید محمدرفیع
الدین اشفاق جنہوں نے اُردو میں نعتیہ شاعری پر پہلا تحقیقی مقالہ تحریر
کیا۔جس پر انہیں ناگپور یونیورسٹی سے ۱۹۵۵ء میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری تفویض
ہوئی، کے خیال میں ، اس صنف کاتعلق دینی احساس اور عقیدت مندی سے ہے اور
اسے خالص دینی اور اسلامی ادب میں شمار کیا جاتا ہے۔ اسی طرح ڈاکٹر شاکر
اعوان کی تصنیف ’’عہد رسالت میں نعت‘‘ اُردو ادب میں اپنے موضوع پر قابل
تعریف کام ہے ۔ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی تصنیف’’ اُردو کی نعتیہ شاعری‘‘اپنے
موضوع پر معتبر حوالہ ہے۔ڈاکٹر صمدانی نے اُردو ادب میں کالم نگاری پر بھی
قلم اُٹھایا ہے۔لکھتے ہیں کالم نگاری اُردو کے اصناف میں ایک اہم صنف ہے۔اس
صنف نے قاری کو اپنی طرف متوجہ کر لیا ہے۔ان اخبارات میں کالم یا ادراتی
صفحہ اخبار کا کلیدی صفحہ تصور ہوتا ہے۔ کالم انگلش کا لفظ ہے۔ ابھی تک
کالم کا اُردو مترادف ایجاد نہیں ہوا۔اسے اُردو میں کالم ہی کہا اور لکھا
جاتا ہیں۔اُردو میں سوانح نگاری کی روایت کے متعلق فرماتے ہیں کہ ابتدا میں
انسان نے اپنے بزرگوں کی اچھی صفات، اعلیٰ اخلاق،کرادر اور واقعات کو محفوظ
کیا ۔جس کا مقصد اپنے اجداد کی عزت تکریم اور ان کے شخصی پہلوں، کردار اور
اعمال سے اپنی آنے والی نسلوں کو روشناس کرانا تھا تاکہ صالح معاشرہ قائم
ہو سکے۔سوانح جمع ہے سانحہ کی جس کے معنی ہے حادثات، حوادث،واقعات،روداد۔
جب کہ سونح حیات یا سونح عمری کسی شخص کی زندگی کے حالت یا سرگزشت کے
ہیں۔سوانح نگاری ادب کی ایک ایسی صنف ہے جس میں اشخاص سے بحث کی جاتی
ہے۔اُردو میں کہانی کی روایت کے بارے میں لکھتے ہیں کہ کہانی اور انسان
لازم ملزوم اورتاریخ کا لازمی حصہ ہے۔کہانی، قصہ، داستان، افسانے اور ناول
کا روپ دھارے ہوئے ہے۔ برس ہا برس سے کہانی سنانے کی روایت نسل در نسل چلی
آنے والی داستانیں ہیں۔ابتدا میں یہ داستانیں غیر تحریری تھیں لیکن وقت کے
ساتھ ساتھ ان داستانوں کو قرطاس پر منتقل کیا جانے لگا۔اُردو میں خاکہ
نگاری کی روایت بارے فرماتے ہیں کہ اُردو ادب کی مختلف اصناف میں ’’خاکہ‘‘
نویسی ایک ایسی صنف ہے جس میں کسی بھی شخص کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو
تاریخ اور سن کے بغیر ،مصنف اپنی سہولت اورمرضی کے مطابق پیش کرتا ہے۔خاکہ
نگاری اخلاص و محبت کے ملاپ سے معرض وجود میں آتی ہے۔ اُردو میں افسانہ
نگاری کی روایت کے لیے لکھتے ہیں کہ افسانہ، کہانی اور ناول ادب کی ایسی
اصناف ہیں کہ جس میں بے شمار لوگوں نے طبع آزمائی کی۔ کہانی نے افسانی ناول
کی کوکھ سے جنم لیا۔اُردو میں سفر نامہ کی روایت پر بات کرتے ہوئے فرماتے
ہیں ،اسے اُردو میں ایک اہم صنف کی حیثیت حاصل ہے۔برصغیر میں مہارا جندر
گپت موریہ کے عہد میں پہلا یونانی سیاح میکا ستھنزتھا۔ جو ایک سفیر کی
حیثیت سے آیا تھا۔اس نے اُس وقت کے حالت قلم بند کیے جسے سفر نامہ کہتے
ہیں۔اس کے بعد چینی سیاح، پھرہیون ٹی یا شیاک،پھر مراکش کے شہر طنجہ کا
مشہور سیاح ابن بطوطہ، مارکوپولو، برطانوی سیاح نکولائی مانوچی کے سفرنامے
دنیا کے سامنے آئے۔اس کے بعد سفرنامہ لکھنا عام ہو گیا۔
ادب کی ساری صنفوں بارے لکھنے کے بعدکیا خوب فرماتے ہیں ادب کبھی بھی روبہ
زوال نہیں ہو سکتا۔ بے شک جب تک انسان ہے ادب اس کی ضرورت ہے۔ ادب سے انسان
کے کردار کی پہچان ہے۔کسی دور کے ادب سے اس دور کی اچھائیاں برائیاں معلوم
ہوتی ہے۔اس کتاب کا مطالعہ ہر کسی کے علاوہ خاص کر اخبار نویسوں،کالم
نگاروں ،ٹی وی نیوز کاسٹروں اور ایکر پرسنوں کے لیے ضروری ہے۔ اگر یہ حضرات
ادب کے تقاضے پورے کرتے ہیں تو ہمارے قومی تشخص کو تقویت پہنچے گی۔ڈاکٹر
صمدانی نے اپنی علمی ادبی خدمات کو اپنے اس شعر میں سمیٹا ہے:۔
روشنی یونہی دنیا میں پھیلی رہے گی علم و ادب کی
چلا میں جاؤں گا کاوشیں ہی باقی رہ جائیں گے
|