دسمبر نے یوں تو بڑے ستم ڈھائے جیسے 16دسمبرکو
پاکستان دو لخت ہوا۔16 دسمبر کو ہی پشاور میں آرمی پبلک اسکول کے معصوم
بچوں کو دہشت گردوں نے سفاکی کے ساتھ خون میں نہلا دیا۔ 27دسمبر کو اردو کے
معروف شاعر مرزا اسد اللہ خان غالب اس دنیا سے رخصت ہوئے، معروف شاعر
سحرانصاری کا یوم پیدائش بھی27 دسمبر ہی ہے، اسی ماہ جوش ملیح آبادی نے جنم
لیا، اسی ماہ2 7 کو بینظیر بھٹو کی شہادت ہوئی، یہ دسمبر ہی ہے کہ جس کی 26
تاریخ کو پاکستان کی معروف شاعرہ پروین شاکر ایک حادثہ میں جان بحق ہوئیں،
اسی طرح پنجاب سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر انعام الحق کوثر نے بھی24دسمبر کو
ہی داعی اجل کو لبیک کہا۔ گویا خوشی اور غمی لازم و ملزوم ہیں۔ خوش کن اس
اعتبار سے ہے کہ یہ دسمبر ہی تھا کہ جس کی 25تاریخ کو بانی ئ پاکستان قائد
اعظم محمد علی جناح کراچی میں پیدا ہوئے، دسمبر کا مہینہ اہل کراچی کے لیے
گزشتہ کئی سالوں سے علمی اور ادبی بہاریں لے کر آرہا ہے۔ ایک جانب آرٹس
کونسل آف پاکستان کے زیر اہتمام عالمی اردو کانفرنس کا انعقاد ہوتا ہے تو
دوسری جانب ایکسپو سینٹر کراچی میں عالمی کتابی میلہ گزشتہ کئی سالوں سے سج
رہا ہے۔ سال ِموجودہ میں 15ویں عالمی اردو کانفرنس 5دسمبر سے 8 دسمبر تک
منعقد ہوئی اور عالمی کتاب میلہ5دسمبر سے 9دسمبر کے درمیان منعقد ہوا۔ ان
دونوں علمی و ادبی پروگراموں میں اہل کراچی نے بڑی تعداد میں شرکت کی اور
اس بات کا ثبوت فراہم کیا کہ اہل کراچی کو اگر علمی و ادبی حوالہ سے کوئی
بھی موقع فراہم کیا جائے تو وہ دل و جان سے اس میں شرکت کرتے ہیں۔
کراچی ایکسپو سینٹر میں 15 واں کتاب میلہ 5دسمبرسے 9دسمبر تک جاری رہا۔
پاکستان پبلشرز اینڈ بک سیلر ایسو سی ایشن اور دیگر منتظمین قابل مبارک
بادہیں کہ وہ ایسے حالات میں جب کہ لوگ کتاب کی جانب مائل نہیں، پڑھنے کا
رجحان ختم ہوچکا، لوگوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور انٹر
نیٹ کے آجانے کے بعد کتاب کی ضرورت باقی نہیں رہی ہے۔ اب اگر کسی کو کچھ
پڑھنے یا لکھنے کی ضرورت ہو تو انٹر نیٹ اس کی یہ علمی ضرورت آسانی سے پوری
کر دے گا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ انٹر نیٹ جہاں دیگر سہولتوں سے عوام کو
فیض یاب کررہا ہے وہیں علمی مواد کی فراہمی میں بھی انٹر نیٹ حیرت انگیز
طور پر معلومات کی فراہمی جادوئی اثر رکھتا ہے لیکن مطبوعہ کتاب کی اہمیت
اور ضرورت انٹرنیٹ کی آمد سے ہر گز کم نہیں ہوئی کتاب آج بھی اسی طرح تمام
ذرائع حصول علم میں سر فہرست ہے۔ تہذیب انسانی کا کوئی دور ایسا نہیں
گذراجو کتاب سے تہی دامن رہا ہو اور فکر کتاب سے آزاد ہوجائے۔ کتابیں بلند
خیالات اور سنہری جذبات کی دستاویزی یادگاریں ہوتی ہیں۔ شیخ سعدی کا قول ہے
کہ ’اچھی کتابوں کا مطالعہ دل کو زندہ اور بیدار رکھنے کے لیے بہت ضروری
ہے‘،البیرونی نے کہا ’خیالات کی جنگ میں کتابیں ہتھیاروں کا کام دیتی ہیں‘،
یہ معلومات کے ثمر دار درختوں کے باغ ہیں، گزرے ہوئے بزرگوں کے دھڑکتے دل
ہیں،حسن و جمال کے آئینے ہیں اور وقت کی گزری ہوئی بہاروں کے عکس ہیں۔
کتابیں بولتی ہیں،یہ ایک ایسی روشنی ہے کہ جس نے گزرے زمانے کی شمع کو کسی
لمحہ مدھم ہونے نہیں دیا۔ زمانے کی ترقی اسی مینارہ نور کی مرہون منت ہے۔
یہ ایک ایسا انمٹ لازوال سرمایہ ہے کہ جس نے انسانی ترقی کے تمام ادوار
یعنی ماضی،حال اور مستقبل کو مربوط رکھنے کے ساتھ ساتھ انھیں ایک دوسرے سے
متعارف کرانے کا خوش گوار فریضہ بھی انجام دیا ہے۔کتاب کا حصول اس قدر آسان
ہے کہ کوئی چیز اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ کتاب ہمیں اسلاف اور ان لوگوں
کے حالات بڑی آسانی سے مہیا کر دیتی ہے جن تک ہم پہنچ نہیں سکتے۔ کتاب جیسا
ساتھ کسی کو مل سکتا ہے کہ جب آپ چاہیں کچھ وقت آپ کے ساتھ گزارنے پر تیار
ہو جائے اور جب آپ پسند کریں تو سائے کی طرح آپ کے ساتھ لگی رہے، آپ کی
خواہش ہو تو آپ کے جسم و جان کا جزو بن جائے۔ جب تک آپ چاہیں خاموش رہے اور
جب آپ کا جی اس سے بولنے کو چاہے تو چہکنے لگے۔آپ کسی کام میں مصروف ہوں وہ
خلل انداز نہیں ہوتی اور آپ تنہائی محسوس کریں تو آپ اسے شفیق ساتھی محسوس
کریں۔ کتاب ایک ایسا قابل اعتماد دوست ہے جو کبھی بے وفائی نہیں کرتا اور
نہ کبھی آپ کا ساتھ دینے سے جی چراتا ہے۔شاعر خیال آفاقی کے بقول ؎
نئے ذریعہئ بلاغ خوب ہیں لیکن
کتاب میں جو مزاہ ہے، کتاب ہی میں رہا
کراچی میں کتاب میلے کی روایت کئی سالوں پر محیط ہے، کتاب سے محبت کرنے
والے، کتاب کو روٹی روزی کا ذریعہ بنانے والے اس بہترین روایت کو قائم و
دائم رکھے ہوئے ہیں،یہ ایک خوش آئنداقدام ہے اس کی جس قدر حوصلہ افزائی کی
جائے کم ہے۔اس طرح کے کتب میلے پورے پاکستان میں منعقد ہونے چاہیں۔اس سے
عوام میں علمی شعور اجاگر ہوگا۔ میلے کی ایک اچھی بات کتابوں پر پچیس سے
پچاس فیصد ریاعت دینا ہے۔ کتابیں خریدی گئیں،حکیم محمد سعید شہیدکا کہنا
تھا کہ ’یہ ہمارا قومی المیہ ہے کہ ہم سب سے کم وقت اور سب سے کم دولت جس
چیز پر خرچ کرتے ہیں وہ کتاب ہے‘۔ کراچی ایکسپو سینیٹر میں پانچ دن عید کا
سما رہا، لوگ اپنے بچوں کے ہمراہ میلے کا رخ کرتے نظر آئے۔ ہم نے بھی دو
بار میلے کا رخ کیا، ایک بار اپنے گھر کے احباب کے ساتھ، بیگم، بیٹا، بہو
اور پوتا ارسل نبیل بھی تھے، گو یا کراچی میں موجود میری کل کائینات میرے
ہمراہ تھی۔ کتاب میلے میں جانا میری فیملی کا معمول ہے۔ جوں ہی میلے کا
چرچہ اخبارات میں شروع ہوتا ہے میری بہو ڈاکٹر ثمرا یاد دلاتی رہتی ہے کہ
کتاب ابو میلے میں جانا ہے۔ میلے میں جاکر خوش گوار احساس ہوتا، ہم سال بھر
جس قسم کی تقاریب اور محفلوں میں جاتے ہیں یہ تقریب ان تمام سے مختلف اور
پر لطف ہوتی ہے۔ تمام ہی اسٹالوں پر گئے، اچھی اچھی کتابیں دیکھ کر دل باغ
باغ ہوگیا۔ جی تو چاہتا تھا کہ سب ہی کتابیں خرید لائیں لیکن ایسا ممکن
نہیں تھا۔ بیگم نے اسلامی کتب کے اسٹالوں پر زیادہ وقت گزارا اور متعدد
اسلامی موضوعات کی کتابیں خریدیں۔ ہماری بہو ڈاکٹر ثمرا نے اپنے بیٹے کے
ہمراہ بچوں کی کتابوں کے اسٹالوں سے ارسل صاحب کے لیے بچوں کی کتابیں
خریدیں، بیٹے صاحب ڈاکٹر نبیل تمام اسٹالوں کو دیکھ کر ہی اپنا جی خوش کرتے
رہے۔چند اداروں کے اسٹال پر جانا ہمارا معمول ہے،رائل بک کمپنی کے اسٹال پر
اس بار کمپنی کے روح رواں جمشید مرزا صاحب سے ملاقات ہوگئی۔ وہ 80کی دہائی
میں ہماری نصابی کتب شائع کرتے رہے ہیں۔ان سے ملاقات کر کے اچھا لگا۔ دوسرا
بک اسٹال فضلی سنز کا تھا جہاں ہم نے زیادہ وقت گزارا، اس کی بنیادی وجہ یہ
تھی کہ فضلی سنز کے اسٹا ل پر ہماری تین تصانیف برائے فروخت رکھی تھیں۔ چند
سالوں سے ہماری کتب ساجد فضلی صاحب ہی شائع کر رہے ہیں۔ ان تصانیف میں
جھولی میں ہیرے اور موتی، وہ جو اب ہم میں نہیں اور ہمارے مضامین کا مجموعہ
جسے مرتضیٰ شریف صاحب نے مرتب کیا ہے۔ کتاب میلے میں لوگوں کی گہما گہمی
بتا رہی تھی کہ اس بار کتابوں کی خریداری نے گزشتہ برسوں کے تمام ریکارڈ
توڑ دیے ہوں گے۔ ہونا بھی چاہیے، کتاب کو اپنے گھر کی زینت بنائیں، اپنے
ڈرائینگ روم کی زینت بنائیں، یہ آپ کے گھر میں ہوگی تو کسی وقت آپ کے
مطالعہ میں بھی آجائے گی۔ اپنی بات اپنے ہی اس شعر پر ختم کرتا ہوں۔
اور خواہش کوئی نہیں مجھ کو
بس کتابیں ہیں زندگی اپنی
17دسمبر2019)
|