پانچ ایکڑ: خیرات ِ جبر، اعترافِ جرم یا وسیلۂ احتجاج

عدالت عظمیٰ نے دونوں فریقوں کے درمیان توازن قائم کرنے کی کوشش میں جہاں ہندو فریق کو مسجد کی زمین دے دی وہیں مسلمانوں کو پانچ ایکڑ زمین دینے کا فیصلہ کرکے ایک نیا تنازع کھڑا کردیا ۔اتفاق سے اس پر ہندو فریق کو کوئی اعتراض نہیں ہےکیونکہ وہ تو آپس میں دکشنا کو لے کر ایک دوسرے سے برسرِ پیکار ہیں اور معاملہ مارپیٹ سے آگے بڑھ پولس تھانے تک پہنچ چکا ہے لیکن مسلمانوں کے درمیان اختلاف پیدا ہوگیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مختلف رہنما اور دانشور اسے الگ الگ زاویہ سے دیکھ رہے ہیں۔فیصلے کے فوراً بعد سب سے پہلے سنی وقف بورڈ کے وکیل ظفریاب جیلانی سے نامہ نگاروں پانچ ایکڑ زمین کے بارے میں سوال کیا تو ان کا جواب صاف اور واضح تھا ۔ انہوں نے کہا کہ مسجد کے عوض پانچ تو کیا پانچ سو ایکڑ زمین بھی ہمارے لیے قابلِ قبول نہیں ہے کیونکہ شریعت ہمیں مسجد کسی کو دینے کی اجازت نہیں دیتی ویسے عدالت کا فیصلہ مانیں گے۔

مجلس اتحادالمسلمین کے سربراہ اسدالدین اویسی نے بھی یہی بات کہی ’’میں اس فیصلے پر مسلم پرسنل لاء بورڈ کی تائید کرتا ہوں ۔ ہم انصاف اور اپنے حقوق کی لڑائی لڑ رہے تھے۔ ہمیں خیرات میں ملی پانچ ایکڑ زمین کی ضرورت نہیں۔ مسجد کو لے کر کسی بھی طرح کا سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ بابری مسجد مقدمہ میں اہم ترین مدعیہاشم انصاری کے بیٹے اقبال انصارینے اس بابت کہا کہ ’اگر وہ ہمیں زمین دینا چاہتے ہیں تو ہماری سہولت کے حساب سے حکومت کی حاصل کردہ 67 ایکڑ اراضی میں سے ہی دیں ۔ تبھی ہم لیں گے ورنہ اس پیشکش کو مسترد کرتے ہیں۔ کیونکہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ چودہ کوس (میل) دور جاکر مسجد بناؤ۔'

بابری مسجد مقدمے میں مسلمانوں کی جانب سے ایک اور فریقایودھیا میں جمیعت علمائے ہند کے صدر مولانا بادشاہ خان نے پانچ ایکڑ زمین کو لے کر کہا کہ ’ہم لوگ بابری مسجد کی زمین کے لیے مقدمہ لڑ رہے تھے نہ کہ کسی دوسری زمین کے لیے۔ ہم کسی دوسری جگہ مسجد کے لیے زمین نہیں چاہتے‘۔ مولانا نے اپنے غم غصے کا اظہار اس طرح کیا کہ ’ اس کے بجائے ہم وہ پانچ ایکڑ زمین بھی رام مندر کو پیش کرتے ہیں۔‘ایک اورمقامی عالم دین مولانا جلال اشرف کہتے ہیں کہ ’اگر مسلمانوں کو مسجد کی تعمیر کے لیے زمین کی ضرورت ہے تو ہم اپنی مسجد کے لیے زمین خرید سکتے ہیں، ہم حکومت پر منحصر نہیں ہیں۔ اور اگر حکومت ہمارے جذبات پر کچھ حد تک مرہم رکھنا چاہتی ہے تو وہ حاصل کی گئی زمین میںسے پانچ ایکڑ زمین دے کیونکہ اس میں 18 ویں صدی کے صوفی بزرگ قاضی قضوہ کے مزار سمیت بہت ساری درگاہیں اور قبرستان ہیں‘۔

ایودھیا کے زیادہ ترتنظیموں کے ذمہ داران نے انہیں خطوط پر اظہار خیال کیا مثلاًآل انڈیا ملی کونسل کے رہنما خلیق احمد خان نےکہا کہ 'اگر وہ ہمارے جذبات پر مرہم رکھنا چاہتے ہیں تو وہ ہمیں زمین حکومت کی حاصل کردہ ارضی میں سے دیں۔' ایودھیا میونسپل کارپوریشن کے کارپوریٹر حاجی اسد احمد نے کہا 'ہم بابری مسجد کے بدلے کوئی زمین نہیں چاہتے۔ اگر عدالت ہمیں زمین دینا چاہتی ہے تو وہ ہمیں 67 ایکڑ زمین میں سے ہی دے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو ہمیں زمین کا عطیہ نہیں چاہیے۔' ایودھیا مقدمے کے ایک فریق حاجی محبوب نے کہا کہ 'ہم لالی پاپ کو قبول نہیں کریں گے۔ انھیںیہ واضح کرنا چاہیے کہ وہ ہمیں زمین کہاں دینا چاہتے ہیں، مسلمان اتنے غریب بھی نہیں کہ ایک مسجد کے لیے زمین کا انتظام نہیں کر سکیں۔'

اس کے برعکس ایودھیا کے ایک سماجی کارکن ڈاکٹر یونس خان کاموقف مختلف ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ 'ہمیں مسجد بنانے کے لیے زمین نہ تو حاصل شدہ 67 ایکڑ کے اندر اور نہ ہی کہیں ایودھیاکے اندر بلکہ اس کے باہر ہی چاہیے۔ ایودھیا میں ہماری مذہبی ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی مساجد ہیں۔ عدالت عظمیٰ نے رام مندر کے حق میں فیصلہ دیا ہے اور اسی کے ساتھ مسئلہ ختم ہوتا ہے۔'اس معاملے میں ان لوگوں نے بھی میڈیا کو اپنی قیمتی آراء سے نوازہ جو مسجد کے اندر کم ہی نظر آتے ہیں مثلاً نغمہ نگار جاوید اختر نےاس پر امدادی دواخانہ کھولنے کی بات کہی ہے اور ان کے ساتھی مکالمہ نگارسلیم خان نے وہاں بڑا اسکول اور اسپتال کھولنے کی وکالت کی ہے۔

سپریم کورٹ کے ذریعہ دی جانے والی زمین نہ تو سلیم جاوید کو ملے گی اور نہ دیگر علماء وسماجی کارکنان کو بلکہ اسے سنی وقف بورڈ کے حوالے کیا جائے گا۔مولانا ارشد مدنی نے اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئےفرماتے ہیں ”یہ معاملہ یوپی سنٹرل سنی وقف بورڈ کا ہے کہ وہ اراضی تسلیم کرتی ہے یا نہیں کرتی ہے، میرا نظریہ ہے کہ وہ زمین نہیں لینی چاہیے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایودھیا معاملہ بابری مسجد سے متعلق ہے جو متنازعہ مقام پر موجو دتھی۔ ہماری جانب سے کبھی بھی متبادل مقام کی مانگ نہیں کی گئی۔ معاوضہ کے طور پر پانچ ایکڑ اراضی کی ہمیں ضرورت نہیں ہے۔ مقدمہ ہم ہارچکے ہیں اور فیصلے کا تہہ دل سے احترام کرتے ہیں۔ تاہم کسی دوسرے مقام پر مسجد کی تعمیر میری سمجھ کے باہر ہے“۔

سنی وقف بورڈ کے سربراہ ظفر فاروقی کوئی اقدام کرنے سے قبل اس زمین پر مسجد بنانے کے علاوہ کن خدمت خلق کے کاموں کی گنجائش ہے اس پر قانونی مشورہ لینا چاہتے ہیں ۔ اس پر 26 نومبر کوبورڈ میٹنگ میں سبھی اراکین کے رائے مشورے سے فیصلہکیا جائے گا۔ بورڈ کے بیشترارکان ایودھیا میں پانچ ایکڑ زمین لے کر مسجد تعمیر کروانے کو ملک و قوم کے حق میں بہتر سمجھتے ہیں۔سنی وقف بورڈ چونکہ ایک سرکاری ادارہ ہے اس لیے امت کا اس پر نہ اختیار ہے اور نہ اعتماد ہے ۔ مولانا سلمان ندوی نےمسجد کی تعمیر کے لیے حکومت کی مدد کا مطالبہ جائز ٹھہراتے ہوئے کہا کہ یہ تعاون بھیک نہیں بلکہ سرکاری ذمہ داری ہے ۔ ان کے خیال میں حکومت کے فرائض کو خیرات کہہ کر فضا کو منفی بنانے کے مضر اثرات ہوں گے اوریہ حرکت قوم کو اندھیرے میں ڈھکیل دےگی۔ انہو ںنے مسلمانوں کو زندہ قوم ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے مثبت انداز میں تعمیری کردار ادا کرنے کی تلقین کی ۔

عدالت کے ذریعہ پانچ ایکڑ زمین خیرات نہیں ہے ۔ یہ دراصل عدالت کے ذریعہ ۱۹۹۲؁ میں کیے جانے والے جرم کا اعتراف ہے لیکن اسے فیصلے کے خلاف احتجاج کا آلہ بناکر استعمال کیا جا سکتا ہے اس لیے امت کی توقعات پر پورا اترتے ہوئے مسلم پرسنل بورڈ نے یہی پروقار فیصلہ کیا ۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ ملت کا نمائندہ ادارہ ہے اور سارے مسلمانوں کو اس سے یہی توقع تھی ۔اسی کے نظر ثانی کے لیے عدالتِ عظمیٰ سے رجوع کرنے کا فیصلہ بھی قابلِ ستائش ہے۔ ایسے میں پرسنل لا بورڈ کے انکار سے علی الرغم اگر سنی وقف بورڈ پانچ ایکڑ زمین کو لے کر مولانا سلمان ندوی کو اس زمین پر بنائی جانے والی مسجد کا متولی یا یونیورسٹی کا مہتمم بھی بنادے تب بھی مسلم پرسنل لا بورڈ کےٹھکرانے کے اقدام سے ایک مثبت پیغام گیا ہے ۔

مورخ یہ بات لکھے گا مسلمانوں کے سب معتبر ادارے نے اس فیصلے کے ساتھ زمین کی پیشکش کو بھی ٹھکرا دیا۔ جو کچھ امت کے اختیار میں نہیں ہے اس کیوہ مکلف نہیں ہےلیکن جو کچھ وہ کرسکتی ہے اس کے لیے وہ انداللہ مسئول ہے ۔ اس مسئولیت کا یہی تقاضہ تھا کہ مذکورہ پانچ ایکڑ زمین کو لینے سے انکار کردیا جائے ۔ دین اسلام ہم پر اخلاص نیت کے ساتھ کوشش کرنے کی ذمہ داری ڈالتا ہے ۔ مثبت یا منفی نتیجہ ہمارے قبضۂ ٔ اختیار میں نہیں ہے۔ اس لیے جو کچھ ہم سے ممکن تھا ہم نے کیا اور آگے بھی کریں گے ۔ دینی تقاضوں کے حوالے سے اہل ایمان کی ذمہ داریوں پر غالب نے کیا خوب کہا ہے ؎
جان دی ، دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1449455 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.