کشمیر میں صورتحال تو 1947 سے بگڑی ہوئی ہے، لاکھوں
کشمیری شہید اور لاکھوں ہی کی تعدادمیں گھروں سے غائب کئے جا چکے
ہیں۔ہزاروں کی تعداد میں ہماری مائیں ،بہنیں اور بیٹیاں درندہ صفت بھارتی
فوج کے ہاتھوں ذیادتی کا نشانہ بن چکی ہیں۔ مگر پانچ اگست کے بعد سے لے کر
اب تک جو کشمیر کے ساتھ کیا گیا ہے وہ انتہائی شرمناک اور ریاستی دہشتگردی
کی بدترین مثال ہے ۔ساڑھے تین ماہ سے ذائد کا عرصہ ہوگیا کشمیر میں بدترین
کرفیو لگا ہوا ہے ،اس کرفیو کے باعث کشمیری شدیدترین مشکلات سے دوچار ہیں۔
اشیائے خوردونوش کی قلت ہوچکی ہے، ادویات ناپید ہوچکی ہیں، مواصلات کا نظام
تباہ ہو چکا ہے۔ اس صورتحال کے باعث کشمیری عوام فاقہ کشی پر مجبور ہو چکی
ہے، شیرخوار بچے بھوک پیاس سے تڑپ تڑپ کر اپنی جانیں گنوا رہے ہیں۔ مریض
اور بزرگ ادویات نہ ہونے کی وجہ سے سسک سسک کر موت کی وادی میں جارہے ہیں
۔اس کرفیو کے دوران ہزاروں کشمیریوں کو اغواء کرکے نامعلوم مقامات پر منتقل
کیا جا چکا ہے۔ عفت مآب بیٹیوں کی، بہنوں کی عزتیں سرعام پامال کی جارہی
ہیں ۔گو کہ کشمیریوں پر قیامت ٹوٹ چکی ہے اور تمام کشمیری امید بھری نگاہ
سے پاکستان اور امت مسلمہ کی جانب دیکھ رہے ہیں ،کہ وہ ہماری مدد کو آئیں۔
کشمیری مائیں ہر روز امید کے ساتھ صبح اپنے گھر کے دروازے سے باہر سڑک
پرجھانک کر دیکھتی ہیں کہ شاید آج پاکستانی فوج ان کی مدد کے لئے کشمیر آ
چکی ہوگی، مگر ان کی نگاہیں منتظر ہی رہ جاتی ہیں۔ اور پاکستان اور امت
مسلمہ مسئلہ کشمیر سے بالکل آنکھیں چرائے ہوئے ہیں۔ اپنے مسلمان بھائیوں کے
ساتھ سوتیلے پن کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔
پاکستان بھر میں ربیع الاول میں تشریف لانے والے آقاؐ ،سرکار دو جہاں
ؐ،رحمت اللعالمین کی آمد کی خوشیاں منائی جا رہی ہیں۔ تمام عاشقان مصطفی
ؐاور اہل اسلام نبی اکرمؐ سے محبت اور عقیدت کا اظہار کرتے نظر آرہے ہیں۔
آقاؐ کی آمد پر تمام امت مسلمہ خوشی سے سرشار ہے کے ہمیں اندھیروں سے نکال
کر روشنی کی جانب نبی کریمؐ ہی لے کر آئے، ورنہ ہم تو گمراہی کی گہری کھائی
میں موجود تھے۔ جگہ جگہ برقی قمقمے، سجاوٹیں اور خوبصورتی کہ ہر ایک چیز
آنکھوں کو خیرہ کرتی نظر آتی ہے ،اور پورا ماہ ربیع الاول آقاؐ کی آمد کی
خوشیاں منائی جائیں گی۔ مگرکیا کل کو ہم روزِ قیامت جواب دے پائیں گے؟ کہ
ادھر پاکستان بھر میں آقاؐ کی آمد کا جشن منایا جارہا تھا۔ اور ادھر
پاکستان کی شہ رگ کشمیر میں ہمارے مسلمان بھائیوں اور بہنوں پر عرصہ حیات
تنگ کیا جا چکا تھا۔ اور ہم سب جاننے کے باوجود انجان بنے بیٹھے تھے، اپنی
معمولات میں مشغول،اور اپنے بھائیوں کے لیے کچھ نہیں کر رہے تھے۔ آقاؐ کی
آمد کی خوشی میں اس قدر مگن تھے کہ ان کے اسوہکو بھلا بیٹھے تھے،کہ مسلمان
جسد واحد کی طرح ہیں۔ہم اپنے بھائی کی تکلیف کو نظروں سے اوجھل کیے ہوئے
تھے ،ہاں بالکل خوشیاں ضرور منانی چاہیے ہیں۔ مگر نبی کریمؐ کا طریقہ کار
اور تعلیمات کیا ہیں؟ پہلے ان کو اپنانا چاہیے۔ صرف زبانی کلامی محبت کے
دعووں سے کچھ نہ ہوگا۔
نبی اکرمؐ کے دور میں تیس صحابہ کرام ؓ کو کفار نے ایک بستی میں شہید کر
دیا ،اس وقت معاشی حالات بھی ریاست مدینہ کے خراب تھے۔ جنگی سازوسامان کی
بھی کمی تھی، مگر اس کے باوجود نبی اکرمؐ نے اعلان کیا کہ مسلمان بھائیوں
کی شہادت کا بدلہ لیا جائے گا۔ اور لشکر روانہ کیاان کفار کی جانب۔ انہوں
نے جاکر اس مشرکین سے جنگ کی اور اپنے مسلمان بھائیوں کے قتل کا بدلہ لیا۔
یہ طریقہ نبویؐہے، آج لاکھوں شہادتیں کشمیر میں ہوچکی ہیں مگر ہم پاکستانی
مسلمان اور پوری امت مسلمہ اس معاملے میں نہیں آنا چاہ رہی۔ ذاتی فوائد
دیکھے جارہے ہیں، لاکھوں مسلمانوں کو درندوں کے درمیان چھوڑا ہوا ہے۔
ہم جس نبی اور اہل بیت سے محبت کا دعوی کرتے ہیں ان پر نظر ڈالتے ہیں۔ امام
عالی مقام سیدنا حسین ؓاپنے اہل وعیال کے ہمراہ کوفہ کی جانب جا رہے ہیں،
لوگوں نے بہت کہا کہ امام عالی مقامؓ آپ نہ جائیں وہاں آپ کا جانا ٹھیک
نہیں ہے ۔مگر اہل کوفہ کے باربار خطوط میں امام عالی مقامؓ کو کوفہ آنے کی
دعوت دی جا رہی تھی، آپ کے ساتھ محبت کے دعوے کیے جارہے تھے ۔تو آپ نے جانے
کا فیصلہ کیا اور اپنے اہل و عیال اور قریبی رفقاء کے ہمراہ کوفہ کی جانب
سفر کا آغاز کیا۔ رستہ میں عرب کا مشہور شاعر فرزدک ملا تو امام عالی مقامؓ
نے ان سے دریافت کیا کہ دیکھو ہم لوگ وفا جا رہے ہیں۔ آپ تو شاعر ہیں
معاملات پر گہری نگاہ رکھتے ہیں، آپ کا کیا مشورہ ہے کوفہ والوں کے حوالے
سے ،یا آپ کا اہل کوفہ کے حوالے سے کیا تبصرہ ہے ۔تو وہ عرب شاعر بولا امام
عالی مقامؓ آپ کو انہوں نے کوفہ بلایا بالکل درست ہے کہ اہل کوفہ کے دل میں
آپ کے لیے محبت، احترام اور عقیدت ہے۔ یہ بات بھی بالکل درست مگر امام عالی
مقام یہ بات میں آپ سے کہہ دینا چاہتا ہوں، کہ اہل کوفہ کے دل تو آپ کے
ساتھ ہیں مگر تلواریں آپ کے ساتھ نہیں ہیں وہ یزید کے ساتھ ہیں ۔آپ کسی
بھول میں نہ رہنا، وقت آنے پر اہل کوفہ کی تلواریں آپ کا ساتھ ہرگز نہ دیں
گی۔ اور پھر یہی ہوا کہ جب معرکہ کربلا برپا ہوا یزید کی فوج نے اور غداران
اسلام و اہل بیت نے جب ظلم کے پہاڑ توڑے تو اہل کوفہ نظریں جھکائے کھڑے تھے
،اور تمام سرداران اہل کوفہ جنہوں نے امام عالی مقامؓ کو خط لکھ کر بلایا
تھا انہوں نے یزید کے سامنے کھڑے ہونے سے انکار کردیا۔ اور پھر تاریخ نے
دیکھا کہ امام عالی مقامؓ کے خانوادے پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ دیے گئے جس
پر تاریخ آج تک ماتم کرتی ہے ۔اور ایک کربلا کشمیر میں برپا ہے ،پاکستانی
یہ کہتے ہیں کشمیر ہماری شہ رگ ہے۔ کشمیر تکمیل پاکستان کا نامکمل ایجنڈا
ہے۔ اہل کشمیر تم ڈٹے رہو، ہم تمہارے ساتھ ہیں ۔تم پاکستان کے لیے لڑتے
مرتے رہو، ہم تمہارے ساتھ ہیں۔مگر تلواریں تمہارے ساتھ نہیں ہیں ،کیونکہ
ہمارے معاشی حالات، اقتصادی حالات ،ملکی حالات بہت بدتر ہیں۔ اور ہمیں
ہمارے بڑے اجازت نہیں دے سکتے، کہ تلواریں تمہارے ساتھ رکھی جائیں۔ مگر تم
پریشان ہرگز نہ ہوہم تمہارے ساتھ ہیں ۔ہم تمہاری اخلاقی اور سفارتی حمایت
جاری رکھیں گے۔ تم پاکستان کے نام پر کٹ مرتے رہو، اپنی عزتیں لٹاتے رہو۔
اور ہم تمہاری اخلاقی حمایت جاری رکھیں گے۔
بس دیکھو،
’’ اہل کشمیر نڈھال مت ہو جانا‘‘
|