عجیب باتیں

ڈاکٹر فدا محمد صاحب مولانا اشرف سلیمانی پشاوری مرحوم کے خلیفہ مجاز ہیں اور اپنے مرشد کے وفات کے بعد سے اب تک سلسلہ چشتیہ چلا رہے ہیں۔

بندہ کبھی کبھی ڈاکٹر فدا محمد صاحب کی مجلس میں حاضر ہوتا ہے ، اور وہاں روحانی مجلس میں شرکت کرتا ہے۔ مجلس ظاہر ہے روحانی ہوتی ہے لھذا مختلف تربیتی باتیں ہوتی رہتی ہیں۔

اس دفعہ جب میں ڈاکٹر صاحب کی مجلس میں حاضر ہوا تو چونکہ کچھ عرصہ سے متواتر ارکان اسلام کے بارے میں گستاخیاں ہوتی جارہی ہیں تو ڈاکٹر صاحب نے اس عنوان سے بات کی ، انہوں نے اس دفعہ عجیب اور نا آشنا باتیں کی جو کہ درجہ ذیل ہیں۔

ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ اگر کسی کے گھر میں ضعیف نانا یا نانی ہو اور محلے کا کوئی پرایا آدمی اس نانا یا نانی کو برا کہے اور اسکی گستاخیاں کرے تو اس ضعیف العمر کے رشتہ دار مرنے مارنے پر تُل جاتے ہیں۔

لیکن اگر یہ نانا وغیرہ اپنے ان نواسوں اور بیٹوں وغیرہ کو کسی بات کے کرنے کا حکم کرے یا کسی کام سے منع کرے تو پھر اس بوڑھے کے رشتہ دار اپنے بزرگوں کی ان باتوں کو نہیں مانتے۔

یہی حال آج کل کے مسلمان کا ہے۔ کہ شان رسالت اور قرآن مجید کی بے حرمتی پر تو ہنگامے کرتے ہیں اور اپنے اور ملک کا نقصان کرتے ہیں لیکن جن کاموں کا نبی صلی اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم اور قرآن مجید نے حکم دیا ہے تو اس پر عمل نہیں کرتے ۔

حالانکہ اللہ تعالیٰ کی مدد صرف ان ہنگاموں پر نہیں آتی بلکہ اللہ تعالیٰ کی مدد تو ان کاموں پر آتی ہے کہ جس کے کرنے کا حکم قرآن و سنت نے دیا ہے۔

انگریز ایک سازش کے تحت تواتر سے ایسے حرکات کرتے ہیں کہ مسلمان عمل کو چھوڑ کر ہنگامے کرنے لگے ۔ہڑتالیں اور مظاہرے کرنے لگے ، اور ظاہر ہے کہ ان کاموں میں لگ کر قرآن و سنت کے احکامات انسان سے چھوٹ جاتے ہیں اور ان احکامات کے چھوڑنے سے اللہ کی مدد رک جاتی ہے اور یہی انگریزوں کا مقصد ہوتا ہے کہ جس طرح بھی ہو لیکن مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ کی مدد سے محروم کیا جائے تاکہ یہ لوگ ہمارے زیر رہیں۔

اور اگر مسلمانوں نے احکامات الہیہ پر عمل شروع کیا تو اللہ کے مدد آنے کے سبب یہ لوگ دوبارہ دنیا کو فتح کریں گے ۔ اور یہ بات انگریز نہیں چاہتے۔

پھر انہوں نے مثال دی کہ جب ہندوستان میں مولانا اشرف علی تھانوی صاحب اپنی خانقاہ چلاتے تھے اور بیعت و ارشاد کے ذریعے مسلمانوں کو قرآن و سنت کے راستے پر ڈالنے کی کوشش کر رہے تھے تو اس دوران ایک انگریز محقق نے انکے مواعظ اور انکے کام کی ترتیب پر تحقیق شروع کی ۔

اس انگریز نے اپنے ایجنٹوں سے پوچھا کہ کیا مولانا اشرف علی تھانوی صاحب ان ملکی مظاہروں اور ہنگاموں یا ہڑتالوں میں بھی حصہ لیتے ہیں یا نہیں ؟

تو ان ایجنٹوں نے جواب دیا کہ جی وہ تو اس طرح کے کاموں میں حصہ نہیں لیتے ۔

تو معلوم ہے انگریز نے کیا کہا؟

انگریز نے کہا کہ یہ ہمارے لئے سب سے خطرناک آدمی ہے جو کہ لوگوں کو ان اعمال پر لانے کی کوشش کر رہا ہے کہ جن اعمال کے سبب اللہ تعالیٰ کی مدد انکے ساتھ شامل ہوجاتی ہے، اور یہ ہمارے لئے بہت خطرناک بات ہے۔

لھذا ایسے اعمال کی کوشش کرنی چاہئے کہ جس کے سبب اللہ تعالیٰ کی مدد ہمارے ساتھ شامل ہو ،نہ کہ وہ اعمال کہ جس کے سبب اللہ تعالیٰ کی مدد ہم اور دور چلی جائے ۔

پھر ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ یہ لوگ جو کہ مریضوں کو کہتے ہیں کہ جی آپ پر جادو ہوا ہے ، آپ پر تعویذ ہوا ہے اور ان کاموں کیلئے یہ لوگ قمیصیں سونگھتے ہیں اور جادو وغیرہ کا کہتے ہیں یہ لوگ دراصل گھروں میں فساد پھیلاتے ہیں ، کیونکہ بیمار کو ویسے بھی کسی پر شک ہوا ہوتا ہے اور اس پر جب اسکو کہا جاتا ہے کہ تم پر تعویذ اور جادو ہوا ہے تو بس پھر کیا ہوتا ہے کہ رشتہ داروں اور گھروں میں فساد شروع ہوجاتا ہے۔

یہ لوگ (دم گر ) ہوتے ہیں اہل تصوف نہیں ہوتے کیونکہ اہل تصوف تو باطن کی اصلاح کرنے والے ہوتے ہیں ، نا کہ گھروں میں فساد کروانے والے۔یہ قمیصیں سونگھنا وغیرہ سب تجربے ہیں ، کوئی قران و سنت کی بات نہیں کہ اس کے نتیجے پر شک نہ کیا جائے ۔

اکثر تجربے غلط ثابت ہوتے ہیں لیکن انکے سبب لوگ ایک دوسرے کے دشمن بن جاتے ہیں۔

اصل مجر م و چور تو وہ ہوتا ہے کہ جو قرآن و سنت کے قانون کے مطابق چور قرار پائے ۔ یہ عملیات کے ذریعے جو چور بتاتے ہیں تو بس یہ تو فساد پھیلاتے ہیں۔ کیونکہ ان کے عملیات کوئی قرآن و سنت کی طرح حرف اخر تو نہیں ہوتا کہ اس کے نتیجے پر شک نہ کیا جائے۔لھذا بے گناہ لوگوں کو چور و مجرم بنایا جاتا ہے۔

پھر فرمایا کہ جب لال مسجد کا واقعہ پیش آیا تو لال مسجد والوں نے مجھے خط لکھا جس میں مجھ سے مدد کی درخواست کی تھی تو میں نے جوابی خط میں یہ لکھا کہ ماشاءاللہ آپکے مدرسہ میں ۷۰۰۰ لڑکیاں پڑھ رہی ہیں اور آپ لوگ ان لڑکیوں کے روحانی اور باطنی تربیت کر رہے ہیں ، تو اگر آپ لوگ یہ محنت جاری رکھ کر دس سال تک کریں تو ۷۰ ہزار لڑکیاں آپ کے ہاں تربیت پاکر جب گھروں کو جائیں گی تو ان گھروں کے حالات بدلیں گے اور ان گھروں میں انقلاب ضرور آئے گا۔

اور یہ جو کام آپ لوگوں نے شروع کیا ہے کہ شریعت کے نفاذ کا نعرہ لگایا ہے تو یہ کام دراصل آپ لوگوں کا نہیں ہے بلکہ یہ کام ان مذہبی جماعتوں کا ہے جو کہ سیاست میں حصہ لیتی ہیں۔ کیونکہ انہوں نے ووٹ اور چندے عوام سے اسی کام اور نام پر لئے ہیں کہ ہم پارلیمنٹ کے ذریعے اسلام لائیں گے۔لھذا آپ لوگ یہ شریعت والا معاملہ ان پر چھوڑیں اور بس اپنا تربیتی کام جاری رکھیں تاکہ آپ لوگوں کے سبب گھروں کے اندر سے انقلاب آئے۔

لیکن ڈاکٹر فدا صاحب نے فرمایا کہ جب مجھے پتہ چلا کہ ہمارے بڑے بزرگان یعنی مفتی تقی عثمانی صاحب اور سلیم اللہ خان صاحب نے لال مسجد والوں سے مذاکرات کئے ہیں تو میں نے جوابی خط انکو بھیجا نہیں ۔ کہ میری ان بزرگ لوگوں کے سامنے کیا حقیقت ہے۔

لیکن اب مجھے افسوس ہوتا ہے کہ کاش میں انکو یہ جوابی خط بھیجتا ، کبھی کبھی بڑوں کی ذہن میں وہ بات نہیں آتی جو کہ چھوٹوں کے ذہن میں آتی ہیں۔

اور اگر شائد وہ میرے مشورے پر عمل کرتے تو یہ حادثہ نہ ہوتا۔

پھر فرمایا کہ لال مسجد والوں کے ساتھ جو ظلم ہوا تو ایسا ظلم اسلامی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا کہ مسلمان حکمران نے مسجد اور طلباء کو زندہ جلایا ہو۔اور یہ آج کل کے قتل وغارت اسی کے سبب ہے کہ لال مسجد آپریشن کے سبب غضب الہی کو جوش آیا ہے تو یہ ۴۰ ہزار انسانوں کے خون بہنے کے بعد ٹھنڈا ہوگا۔

اور فرمایا کہ جب حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شہید کیا گیا تو اس کے بعد بھی ایسا کشت و خون ہوا کہ تقریباً ۴۰ ہزار افراد قتل ہوئے اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پہلے تو حضرت عثمان کے سیاسی فیصلوں کے خلاف تھی لیکن اسکو اہل باطل اور ابن سباء کا یہ منصوبہ معلوم نہیں تھا کہ ان تحاریک کی صورت میں حضرت عثمان کو قتل کیا جائے گا، ورنہ وہ کبھی بھی حضرت عثمان کی مخالف نہ کرتی۔ اور شھادت عثمان کے بعد جو خون بہا تو وہ سب کو معلوم ہے۔اور اس خون بہا کہ بعد کہیں غضب الہی ٹھنڈا ہوا۔

پھر آخر میں فرمایا کہ ہمارے گھروں میں یہ بے برکتی غیبت اور بہتانوں کے سبب آئی ہے ۔ اور غیبت اور بہتا ن تو ہمارے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ حالانکہ اس کے سبب گھر اجڑ جاتے ہیں۔ اور دو خاندانوں میں فساد شروع ہوجاتا ہے۔یہ غیبت اور بہتان بہت خطر ناک چیز ہے اس سے دور رہنا چاہئے۔ بچوں اور بزرگوں بلکہ سب لوگوں کو ان کاموں سے حکمت و دانائی سے منع کرنا چاہئے۔ اور اگر وہ منع نہ ہوتے ہوں تو اس مجلس سے واک آؤٹ کرنا چاہئے۔
Mansoor Mukarram
About the Author: Mansoor Mukarram Read More Articles by Mansoor Mukarram: 21 Articles with 68133 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.