دوسروں پر وار کرتے ہوئے ہم یہ نہیں سوچتے ہیں کہ ہم تنہا
بھی رہ سکتے ہیں اگر دوسرے سہنے کے بعد ہمیں کہیں کا نہ چھوڑیں تو پھر ایسے
وار کے اثرات تا حیات خود سہنے پڑتے ہیں۔
دوسروں کو بے عزت اور رسوا کرنے کے بعد آپ کی عزت کہاں برقرار رہ سکتی ہے،
یوں بھی جو دوسروں کو ذلیل کرواتے ہیں وہ اپنوں کو بھی ذلیل کروا لیتے ہیں۔
زندگی میں
ہمیشہ خوش رہیں
خوشیاں بانٹیں۔
سب کچھ ٹھیک نہیں ہو جاتا ہے، جب تک آپ کچھ ایسا نہیں کریں گے جو سب ٹھیک
کر دے، جب آپ مسئلے کو جڑ سے پکڑ کر حل کی جانب لے جاتے ہیں تب ہی پریشانی
ختم ہوتی ہے۔
ملازم بھی انسان ہوتے ہیں آن کے دکھ درد میں شریک نہ بھی ہوں مگر آُن کی
عزت نفس مجروح نہ کریں۔
جب فیصلے کسی اور کے کہنے میں آکر کیے جاتے ہیں تو انسان نہ صرف خود برباد
ہوتا ہے بلکہ اس سے فیصلے کروانے والے بھی ایک دن تباہ حال ہو جاتے ہیں۔
جب بھی کسی سے رابطہ ہوتا ہے تو دل کے تار بجنے لگتے ہیں اور دل کو دل سے
راہ ہوتی ہے اور یہی تعلق انسان کو مسرت فراہم کرتا ہے اگر فریقین لگائو
برقرار رکھیں تو پھر زندگی خوشگوار ہو جاتی ہے۔
سب اللہ کی مرضی سے ہی ہوتا ہے، آزمائش ہو تو رب کی طرف مائل ہوتے ہیں اور
جب ایسا ہوتا ہے تو پھر سب ویسا ہوتا ہے جو ہم چاہتے ہیں۔
رب کی مرضی پر چلنے کا سوچا جائے تو پھر جو سکون ملتا ہے وہ انمول ہے۔
کچھ لوگ اپنے ساتھ کی گئی نا انصافی کا بدلہ دوسروں کی تذلیل کرکے لیتے ہیں
مگر یہ بھول جاتے ہیں کہ ایسا کرنا انکو کہیں کا نہیں رکھتا ہے۔
کچھ لوگوں کے رویے اور ستم رونے پر ہی مجبور کرتے ہیں۔
بلی شیر کی خالہ تو کہی جاتی ہے مگر وہ اپنے آپ میں کسی شیرنی سے کم خود کو
نہیں سمجھتی ہے۔بلکہ ایسے ہی کچھ لوگ سچ چھپا کر سمجھتے ہیں کہ سچائی تک
کوئی پہنچ نہیں سکتا ہے جبکہ وہ ازخود سامنے آکھڑی ہوتی ہے جیسے بلی کو پتا
چل جاتا ہے کہ وہ شیر نہیں ہے۔
سچ وہ طوائف ہے جس کے پاس کوئی جانے کو تیار نہیں ہے مگر پھر بھی اس کا
جلوہ سب کو متاثرکرتا ہے۔۔
سستی شہرت کے لئے سب ہی کچھ نہ کچھ کرتے رہتے ہیں اور کبھی کبھی نا چاہتے
ہوئے بھی آپ تماشہ بن جاتے ہیں جس کی بڑی وجہ اپنی توجہ مرکوز نہ رکھنا اور
کچھ کر دینا ہوتا ہے۔ اب ہم تو کوئی بھی ہو اُس کی عزت سے کھیلتے ہیں کہ
یہی معاشرے کا دستور بن گیا ہے۔
کبھی بھی کوئی بھی ادارہ کسی ایک فرد کی بدنامی کا سبب نہیں ہوتا ہے جبکہ
افراد ادارے کو بدنام کر سکتے ہیں اور اسکی شہرت کو نقصان پہنچ سکتے ہیں۔
یہ ان افراد کے نام ہے جو کسی بھی ادارے کو مذہوم مقاصد کے لئے بدنام کرنا
چاہتےہیں۔
کسی کی کوئی بھی ای میل، فوٹو اور وڈیو بنا اجازت کے کسی کو بھی کسی بھی
طرح سے استعمال کرنے کا حق اور عدالت میں بطور ثبوت تسلیم نہ کرنے کا قانون
ہونا چاہیے اور جو بھی پہلی بار اُسے منظر عام پر لائے اس کے خلاف سزا ہونی
چاہیے۔
اپنی بات کہنے کا حق ہر انسان کو ہے، آپ اختلاف لاکھ کیجئے مگر قتل نہ
کیجئے اور نہ ہراساں کریں کہ ایسا کرنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ آپ کی مخالفت
محض فساد و مطالبات منوانے کی ہے۔
زیادہ اچھے نمبروں کی دوڑ میں بچوں کو مریض مت بنائیے، کیا آپ چاہتے ہیں کہ
بچے کامیاب کم اور نفسیاتی مریض زیادہ بن جائیں۔
بگاڑ ایک دم سے پیدا نہیں ہوتاہے برسوں کی غفلت ہمیں تباہی کے دروازے پر لا
کھڑا کرتی ہے۔
باحوصلہ اورخود دار افراد کی سرپرستی ہمارا زندگی کا اولین مقصد ہونا
چاہیے۔
خود شناسی بھی کوئی شے ہوتی ہے لوگ اچھا نہ بھی کہیں تو بھی خود کو اچھا
سمجھنا چاہیے کیونکہ ایسا نہ ہو تو لوگ برا کہہ کہہ کر جینا حرام کر دیں۔
انصاف نہ دیا جائے تو پھر معاشرہ بدامنی کا شکار ہو جاتا ہے۔
قطع تعلقی اللہ کے احکامات کی خلاف ورزی ہے۔
سوچ چھوٹی ہو توپھر عمل بدترین ہوتے ہیں۔
جب تک پریشانی سے نمٹانے کا نہیں سوچا جائے گا وہ گلے کا پھندا بنی رہے گی۔
کچھ کارنامے ایسے ہوتے ہیں جو کہ کبھی بھی توڑے نہیں جا سکتے ہیں یوں ہی
تعلیمی کامیابیاں کچھ ایسی ہوتی ہیں جو کہ سالوں گذرجانے کے بعد بھی قائم و
دائم رہتی ہیں۔ایسے ہی میرے نانا مرحوم کا نام بھی ایک شہر کی سرکاری جامعہ
کے آنر بورڈ پر اولین طالبعلم کی حیثت سے لکھا نام ہے کہ تب انہوں نے
بہترین نمبرز لئے تھے۔جو یہ ثابت کرتا ہے کہ قابلیت اورصلاحیت ہمیشہ آپ کا
نام روشن کئے رکھتی ہے۔
کبھی کبھی آپ کا نیکی کرنا آپ کو مسائل سے یوں نکالتا ہے کہ آپ دنگ رہ جاتے
ہیں
حسین لوگوں کی خوبی یہ ہے کہ وہ اپنے حسن کی بدولت سب کچھ کروا سکتے ہیں۔
محض سوچنے سے کامیابی نہیں ملتی ہے، عمل کرنا ناگزیز ہے۔
جب تک خطرات مول نہ لیے جائیں تب تک خوابوں کی تکمیل نا ممکن ہے۔
جتنی دلیلیں دے دی جائیں جو غلط ہے وہ غلط ہے۔
ہراسگی تو انسان کو مارکے رکھ دیتی ہے،یہ آپ سے آپ کا مان چھین لیتی ہے
مگرہوس کے بھیڑے بس اپنے مفادات کے تحت سب کرتے ہیں،بچے رہتے ہیں مگر ایک
دن مکافات عمل کا بھی شکار ہوتے ہیں مگر اس ہراسگی کے خلاف خاموشی بدترین
عمل ہے،زندگی ایک بار ملتی ہے خوف زدہ نہیں بلکہ بہادری سے شکاری کی آنکھوں
میں دیکھ کر انکار کرنے کا حوصلہ رکھنا ہوگاتب ہی یہ زیادتی کا رجحان ختم
ہوگا۔
ایک بار بہک گئے تو پھر سنبھالنے کا موقعہ کم ہی نصیب ہوتا ہے۔
منافع ایک حد تک جائز ہے مگر آج لوگ سارے سال کا منافع رمضان میں ہی حاصل
کرنا چاہتے ہیں جو کہ بدترین منافقت کہا جا سکتا ہے کہ اپنے بھائی کی ہی
جیب کاٹ کر خوشی محصوس کرتے ہیں۔
محبت اگر طاقت بن جائے تو پھر سب کچھ کیا اور کرایا جا سکتا ہے کہ محبت سے
بڑی کوئی شے انسان کو جہدوجہد کی طرف مائل نہیں کر سکتی ہے۔
جتنا اوپر اُتنا ہی نیچے ہے : یعنی یہ شخص جس قدر ظاہر میں سیدھا سادا نظر
آ رہا ہے اسی قدر باطن میں یہ تیز اور چالاک ہے۔
سوالی سوال ہی لے کر آتا ہے مگر اُس کے دامن کو بھرنا اللہ کے حکم بنا ممکن
نہیں ہے۔
افسوس ناک بات ہے کہ آج ہم ملازم تو رکھ لیتے ہیں مگر انکی محنت کا صلہ
معقول نہیں دیتے ہیں۔
فیس بک سے جڑی محبتوں کا انجام المناک ہی ہوتا ہے۔
آپ ناکام اس لئے ہیں کہ آپ خود اعتمادی نہیں رکھتے ہیں کہ آپ ذرا اور محنت
سے کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔
انٹرویو آپ کی صلاحیتوں اور قابلیت کو جانچنے کا عمل ہے اس لئے جتنے ذہنی
مضبوط ہونگے اتنی کامیابی ملے گی۔
اگر کوئی آپ کو کسی بڑے معاملے پر مدد کرنے سے انکار کرے تو وہ احساس
شرمندگی سے زیر بار ہوتے ہوئے کسی چھوٹے کام میں آپ کی مدد کرے گا۔
جو بھی ملازموں کے ساتھ کسی بھی بدترین یا ناانصافی کا مرتکب ہو اُسے مزید
کسی کو ملازم رکھنے پر پابندی کا قانون بنانا چاہیے۔
کبھی کبھی حد سے زیادہ آپ کو مواقع ملنا دوسرے کے لئے کھیلنے کا موقع چھین
لیتا ہے لہذا کوشش کریں کہ آپ کی وجہ سے دوسروں کی حقل تلقی نہ ہو۔
کچھ لوگ کھلے عام محبت کا اظہار افواج پاکستان سے کرتے ہیں جو کہ اچھی بات
ہے مگرذاتی شہرت کے لئے تشہیر کرنا غلط ہے۔
جب تک آپ کو خواب کی تکمیل جاگنے کے فوری بعد اُٹھا کر کچھ کرنے پر مائل نہ
کرے آپ تب تک کچھ بھی حاصل کرنے کے جنون میں گرفتار نہیں ہوتے ہیں جب ایسا
ہو جاتا ہے تو پھر کامیابی کا نشہ آپ کی سب تھکاوٹ دور کر دیتا ہے۔
سوال کرنے سے علم حاصل ہوتا ہے مگر ہم پوچھنے سے شرماتے ہیں، تب ہی لاعلمی
ہمیں نقصان دلواتی ہے اور ہم کہتے ہیں کہ کسی نے ہم کو کچھ بتایا ہی نہیں
تھا۔
چھوٹی عمر سے بچوں کو کچھ کر کے دکھانے کا حوصلہ دیا جائے تو وہ بڑا
کارنامہ بھی سرانجام دے سکتے ہیں لہذا کم عمری میں انکے خواب مت چھینیں۔
وہی بچے زندگی میں بہترین کامیابی حاصل کرتے ہیں جن کو والدین آزادی کے
ساتھ کچھ کرنے کا حوصلہ عطا کرتے ہیں۔
ایک بیٹی کو اچھی تربیت دینے کا مطلب آئندہ نسلوں کی زندگی سنوارنا ہوتا
ہے۔
'المیہ یہ نہیں ہے کہ آج کے بچے خراب ہیں،المیہ یہ ہے کہ کل کے بچوں کو
بگڑے ہوئے ماں باپ ملیں گے''
ظلم حد سے بڑھ جائے تو وہ باغی بن کر بغاوت کر دیتا ہے، کوئی ایک حد تک ہی
کسی کی مدد کا طلبگار رہتا ہے بقا کی جنگ اُسے خود ہی لڑنا پڑتی ہے۔
|