تحریر:ملک صداقت فرحان
انسان اپنی فطرت کے ہاتھوں مجبور ہے اور انسان کی فطرت یہ ہے کہ جب تک اسے
کسی چیز یا کام کی طرف بلایا نہ جائے تب تک وہ آتا نہیں ۔ باالکل اذان بھی
ایک ایسے ہی بلاوے کا نام ہے لیکن یہ بلاوا کسی چیز یا کام کی طرف نہیں
بلکہ ایک اﷲ کی طرف بلاتا ہے اور یہ بلاوا انسان کیلیے ہر روز پانچ وقت آتا
ہے جس نے بلاوے پر لبیک کہا اور تیاری کے ساتھ اﷲ کے دربار میں حاضر ہوا
اور سچے دل سے نماز آدا کی وہ کامیاب ہوا اور جس نے لبیک کے بجائے بہانے
بازی کی وہ ناکام ہوا۔
آج کل نماز پڑھنا تو ایک طرف بعض لوگ تو اذان بھی توجہ سے نہیں سنتے۔ کچھ
لوگ تو حد ہی کردیتے ہیں جب اذان شروع ہوتی ہے تو باتھ روم میں چلے جاتے
ہیں اور جب اذان ختم ہوتی ہے تو باتھ روم سے نکلتے ہیں، کچھ لوگوں کو تو
پتا بھی نہیں چلتا کہ اذان ہو بھی رہی ہے کہ نہیں اور کچھ لوگ تو مصروفیات
میں اتنے غرق ہوتے ہیں کہ اذان سننے کے باوجود ان کی ہمت نہیں ہوتی کہ اذان
کے احترام میں تھوڑی دیر کے لیے کام چھوڑدیں۔
جہاں اذان کو نظر انداز کرنے والے موجود ہیں تو وہیں پر اذان کا احترام
کرنے والے بھی موجود ہیں۔ اذان سن کر کام کاج چھوڑ چھاڑ کے بیٹھ جانے والے
بھی موجود ہیں۔ اذان سن کر اس کا جواب دینے والے بھی موجود ہیں۔ جو لوگ
اذان کا جواب دیتے ہیں وہ جنت کے حقدار بنتے ہیں۔
آئیے اذان کا جواب دینا کتنا افضل عمل ہے کے متعلق رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ
وسلم کی حدیث پڑھتے چلیں۔’’سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی
اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’جس طرح موذن اذان دے تم بھی ویسے ہی
موذن کے پیچھے اذان کے الفاظ دہراو یہاں تک کہ اذان مکمل ہوجائے‘‘(بشرطیکہ
ارکان اسلام کا بھی پابند ہو)۔ (صحیح مسلم) اور دوسری حدیث مبارکہ میں آتا
ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ موذن اذان دے تو اس کا
جواب دو اور جب اذان مکمل ہوجائے تو پھر اﷲ پاک سے دعا مانگو تو وہ دعا رد
نہیں ہوگی‘‘۔اﷲ پاک ہمیں اذان کا احترام کرنے والا بنائے اذان کے احترام
میں خاموش رہ کر اذان کا جواب دینے اور جنت کا کا حقدار بننے کی توفیق عطا
فرمائے۔۔۔آمین
|