کائنات میں حسن ترتیب
کسی بھی نظام کے اجزائے ترکیبی اگر حسن ترتیب سے آپس میں مربوط ہوں تو ایسی
تنظیم اس نظام میں ایک حسین ہم آہنگی اور مطلق نظم کی وہ کیفیت پیدا کرتی
ہے جو کسی بھی رخنہ ، عیب یا خرابی کو اس نظام میں در آنے نہیں دیتی-
کائنات کی تخلیق بعینہی اسی انداز پر کی گئی ہے-
ارشاد باری تعالیٰ` ہے:
الّذی خلق سبع سماوات طباقا ط ماتری` فی خلق الرحمان من تفاوت ط فارجع
البصر لا ھل تر`ی من فطور ہ ثم ارجع البصرہ کرّتین ینقلب الیک البصر خاسءا"
وّ ھو حسیر ہ--- الملک ۴-۵
جس نے تہ بہ تہ سات آسمان بنائے- تم رحمان کی تخلیق میں کوئی بے ربطگی نہیں
پاؤ گے- پھر پلٹ کے دیکھو ، کہیں تمہیں کوئی خلل نظر آتا ہے؟ بار بار نگاہ
دوڑاؤ- تمہاری نگاہ تھک کر نامراد پلٹ آئے گی-
آئیے آسمان اور کائنات کے بارے میں موجودہ دور کے ایک سائنسداں جو خدا کا
قائل نہیں ہے کے خیالات پڑھتے ہیں-
دور جدید کا مشہور نظری طبیعیات داں لی سما لن جو بے خدا کائنات کا پرچارک
ہے اور اس ضمن میں ناممکن حد تک امکانی عمل کو بھی بطور دلیل استعمال کرنے
سے نہیں چوکتا لیکن اپنے مضمون کا ماہر ہے اور جدید سائنسی دور کے صف اول
کے سائنسدانوں میں شمار ہوتا ہے کائنات کے بارے میں یہ اعتراف کرنے پہ
مجبور ہے- وہ اپنی کتاب " دی لائف آف دی کوسموس" میں کچھ اس طرح رقمطراز ہے
: " ایک چیز جو ہمیں چونکاتی ہے وہ یہ کہ جب ہم کائنات کو دیکھتے ہیں تو وہ
درجہ بدرجہ مربوط اور حسن ترتیب لیے ہوئے نظر آتی ہے- ہماری کائنات ایک
لائبریری کی طرح بہت سے تنظیمی مدارج رکھتی ہے- بنیادی ذرات ،گو کہ تعداد
میں کم ہیں، الفاظ کی بنیادی ہئیت کی طرح سے ہیں جیسے شوشے وغیرہ- ایٹم
جیسے حروف ہوتے ہیں- جو کہ ہر کیس میں درجنوں ہیں- ایٹم بے شمار مالیکیولوں
کی شکل میں منظم ہیں-جیسے حروف مل کے کسی لفظ کی ہجّے بناتے ہیں- اور جیسے
حروف کی ترتیب کسی صفحہ پر لفظ کے معنی سے مربوط ہوتی ہے، اسی طرح ایٹموں
کی ترتیب سہ سمتی مکا ں میں مالیکیول کی خصوصیات کے لیے بہت اہم ہے- پھر
مالیکیول بے شمار مختلف طریقوں سے منظم ہیں جیسے ٹھوس، مائع اور گیس ،
بالکل اس طرح جیسے کئی قسم کے متن ہوں! ان کی ترتیب بڑی پیچیدگیوں کےساتھ
مربوط ہے جن پہ مالیکیولوں کی متنوّع اور متعدّد طبعی اور کیمیاوی خصوصیات
کا دارومدار ہے-
مزید یہ کہ جب ہم اپنی نظریں مالیکیول کی ننھی دنیا سے ہٹا کر کائنات کو
ایک بہت بڑے پیمانے پہ دیکھتے ہیں تب بھی ہمیں ایک تدریجی ربط نظر آتا ہے –
موجودہ دور کی عظیم دریافتوں میں سے ایک یہ ہے کہ کہکشائیں (جن میں ہر ایک
اربوں سورجوں پر مشتمل ہوتی ہے)خلاء میں یوں ہی بے ترتیب پھیلی ہوئی نہیں
ہیں، بلکہ جس حد تک ہم کائنات کو دیکھ سکے ہیں، ہم کہکشاؤں کی تنظیم میں
بھی ربط اور حسن ترتیب پاتے ہیں- سب سے بڑے کہکشاؤں کے ڈھانچے جو مشاہدے
میں آئے ہیں وہ عظیم کہکشاؤں کے سلسلے ہیں جن میں سے ہرایک بے شمار کہکشاؤں
کے جمگھٹوں پر مشتمل ہےجبکہ ہر جمگھٹا درجنوں سے ہزاروں تک کہکشاؤں پہ
مشتمل ہے! اس عظیم سلسلے کی ایک مثال وہ ہے جو عظیم دیوار کہلاتی ہے جو
کہکشاؤں کے جمگھٹوں کی ایک چادر ہے جو تقریباً" تیس ملین نوری سال کے فاصلے
پر ہمارے آسمان کے ایک بڑے حصّے پر پھیلی ہوئی ہے-
بہت ہی بڑے پیمانے پر اگر دیکھا جائے تو کہکشائیں دراصل کائنات کے تنظیمی
ڈھانچے کی بنیادی اکائی معلوم ہوتی ہیں۔ تو پھر کہکشائیں کیا ہیں؟ کہکشائیں
دراصل ستارے یعنی سورج پیدا کرنے کے بڑے عظیم نظام ہائے کائنات ہیں- ہم
آسمان کے آفاقی اجسام کے سلسلوں میں جو تدریجی روابط دیکھتے ہیں وہ بھی الل
ٹپ نہیں ہیں بلکہ وہ ستاروں اور کہکشاؤں میں ہونے والے تعمّلات کے ذریعے
پیدا کیے گئے ہیں اور برقرار رکھے جاتے ہیں-"
کائنات ہر دم متحرّک اور زندہ معلوم ہوتی ہے۔ کائناتی اجسام کی جدید
دوربینوں کے ذریعے ایک جھلک دیکھے- اطمینان سے اکیلے بیٹھ کر یہ لنک کلک
کیجیس یا کاپی پیسٹ کیجیے-یہ حیرت انگیز کائنات کا ششدر کرنے والا نظارہ ہے
ولقد زیّنّا السّما ء الدنیا بمصابیح۔۔۔الملک
ہم نے تمہارے قریب کے آسمان کو عظیم الشان چراغوں سے آراستہ کیا ہے-
https://www.youtube.com/watch?v=xlUlP4JUx6Y&feature=rec-LGOUT-exp_fresh+div-HM
ولا یحیطون بشیء من علمھ الا بما شاء
اور اس کی معلومات میں سے کوئی چیز ان کی گرفت ادراک میں نہیں آسکتی الا یہ
کہ اس چیز کا علم وہ خود ہی ان کو دینا چاہے(البقرہ 255)
آیۃ الکرسی کا یہ حصہ اس امر کی وضاحت ہے کہ انسان اپنی کوششوں سے وہ سارا
علم حاصل نہیں کرسکتا جو وہ چاہے۔ جب تک کہ اللہ تعالیٰ کی مرضی شامل حال
نہ ہو! ہم جس جدید سائنسی دور کے زمانے میں جی رہے ہیں اس کے دہریے
سائینسدانوں کا یہ دعوی` ہے کہ انہوں نے نعوذ بااللہ بغیر خدا کے کائنات کے
وجود کو ثابت اور اس کی گتھیوں کو سلجھا لیا ہے اور اس سلجھاؤ کو وہ قدرتی
چناؤ ( نیچرل سیلیکشن) کے خوبصورت نام سے موسوم کرتے ہیں- اس ضمن میں
ناممکن حد تک امکانی عمل کو بھی بطور دلیل استعمال کرنے سے نہیں چوکتے۔ اس
کے باوجود بہت سے سوالات کے جواب دینے سے قاصر ہیں اور اپنے جیسے
سائنسدانوں اور فلسفیوں سے ان کے حل کے لیۓ دست سوال دراز کرتے ہیں۔ |